پاکستان کے صوبہ پنجاب کی اسمبلی میں پیر کے روز ہتک عزت کا ایک نیا قانون منظوری کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔
پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے سے پہلے صحافتی تنظیموں کے نمائندوں کی سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور وزیر اطلاعات پنجاب عظمی بخاری سے تین گھنٹے کی طویل مشاورت ہوئی۔
اس سے پہلے صحافتی تنظیموں نے احتجاج کی کال دی تھی جو حکومت کی طرف سے مذاکرات کی دعوت پر واپس لے لی گئی تھی۔
پنجاب اسمبلی میں ہونے والی مذاکرات میں صحافتی تنظیموں نے بل پر تحفظات کا اظہار کیا اور مطالبہ کیا کہ بل کا مزید جائزہ لینے اور تجاویز دینے کے لیے بل کی منظوری کو مؤخر کیا جائے۔
اس طویل مشاورت میں کچھ تنظیموں نے تجاویز تحریری شکل میں دیں جبکہ باقی سٹیک ہولڈرز کی تجاویز تک بل کو مؤخر کرنے کا پرزور مطالبہ جاری رہا۔
صحافی تنظیموں کے رہنماؤں نے اعتراض کیا کہ بل میں وفاقی قانون سازی اور پنجاب کی قانون سازی پر بنیادی ابہام ہیں جنہیں دورکرنا ضروری ہے۔
قبل ازیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بل سے متعلق صحافی رہنماؤں کو بریف کیا اور یقین دہانی کروائی کہ حکومت صحافیوں کی تجاویز لینے کے لیے تیار ہے۔
سپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ ہتک عزت بل ایجنڈے پر آ چکا ہے اب حکومت بتائے گی کہ اس نے اگلا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔
اس ملاقات میں سی پی این ای، اے پی این ایس، ایمنڈ، لاہور پریس کلب، پی ایف یو جے سمیت دیگر صحافتی تنظیموں کے رہنمائوں نے شرکت کی۔
اس کے بعد صحافتی تنظیموں کے وفد کی اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر سے بھی ملاقات کی جبکہ اپوزیشن لیڈر نے صحافیوں کے مطالبات کی حمایت کر دی۔
ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار رائے پر قدغن قبول نہیں کریں گے ’ہم نے ہتک عزت بل پر اپنی 15 ترامیم جمع کروائی ہیں۔‘
دوسری طرف اجلاس کی کاروائی اڑھائی گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اور اپوزیشن نے اجلاس کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے کی احتجاج شروع کر دیا اور کالا قانون نامنظور کے نعرے لگائے۔