عمران خان کی ویڈیو لنک سے پیشی، ’اس بار تو بات نہیں ہو سکی، دیکھیں اگلی سماعت پر کیا ہوتا ہے‘

image

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان جمعرات کے روز اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک پر سپریم کورٹ میں ایک مقدمے میں تقریبا ڈھائی گھنٹے تک براہ راست شریک رہے تاہم انہیں بات کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔

عمران خان اس وقت متعدد مقدمات میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر دائر انٹرا کورٹ اپیلوں کی سماعت کے دوران ان کی ویڈیو لنک پر حاضری کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔

عمران خان اس مقدمے کے بنیادی درخواست گزار ہیں۔

 جمعرات کو ہونے والی سماعت کے دوران توقع کی جا رہی تھی کہ عمران خان وڈیو لنک کے ذریعے بات کریں گے۔

پی ٹی آئی کی طرف سے تو یہاں تک کہا گیا تھا کہ لوگ ان کی بات سننے کے بے حد منتظر ہیں لیکن جمعرات کو عمران خان کو بات کرنے کا موقع نہیں ملا اور سماعت ملتوی ہوگئی۔

عدالت نے حکم جاری کیا کہ مقدمے کی اگلی تاریخ ججوں کی مصروفیات دیکھنے کے بعد طے کی جائے گی۔

 گذشتہ سماعت پر جب عدالت نے عمران خان کی حاضری کو یقینی بنانے کا حکم جاری کیا تھا تو کچھ حلقوں کا کہنا تھا کہ یہ سماعت کچھ دیگر مقدمات کی طرح ٹیلی ویژن پر براہ راست دکھائی جائے گی اور عمران خان اس مقدمے کی کارروائی کے دوران بات کر کے ایک مرتبہ پھر اپنا کوئی پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔

تاہم سماعت کے دوران دو مواقع پر ان کا ذکر ضرور آیا۔ پہلی مرتبہ تب جب سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل کو ہدایت کی کہ وہ دلائل دیتے وقت آواز اونچی رکھیں تاکہ کیس کے رسپانڈنٹ (عمران خان) ویڈیو لنک پر اُن کو سُن سکیں۔

نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ نے عمران خان کی ویڈیو لنک پر حاضری کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

اور دوسری مرتبہ سماعت کے اختتام پر جب چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے پوچھا ’آپ اگلی سماعت کے موقع پر کہیں جا تو نہیں رہے‘ تو جسٹس اطہر من اللہ نے اس موقع پر کہا کہ ’مقدمے کے رسپانڈنٹ (عمران خان) تو اڈیالہ سے کہیں نہیں جا سکتے۔‘

جمعرات کو پانچ رکنی لارجر بینچ نے جب مقدمے کی سماعت کا آغاز کیا تو کمرہ عدالت تحریک انصاف کے رہنماؤں، وکلا اور صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔

عمران خان کی بہنیں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے علاوہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز، سابق وفاقی وزیر علی محمد خان اور فیصل جاوید بھی اس موقع پر موجود تھے۔

سماعت کے آغاز کے ساتھ ہی کمرہ عدالت میں لگی دو سکرینز پر عمران خان کو اڈیالہ جیل سے براہ راست دکھایا گیا۔

عمران خان نے فیروزی رنگ کی شرٹ اور سیاہ رنگ کا ٹراؤزر پہنا ہوا تھا اور تازہ شیو بنائی ہوئی تھی۔ وہ بظاہر صحت مند لگ رہے تھے اور ان کا جسم حسب معمول چست دکھائی دے رہا تھا تاہم وہ دوران سماعت کافی مضطرب نظر آئے۔

وہ کچھ دیر آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر آرام کرتے بھی نظر آئے اور ایک دو مرتبہ اپنے ہاتھ سر کے پیچھے رکھ کر ہلکی سی ورزش بھی کی۔

اس دوران انہوں نے وہاں موجود چند سکیورٹی اہلکاروں سے بات چیت بھی کی جس کے بعد انہوں نے اڈیالہ جیل کے کمرے کی بتیاں جلائیں اور بجھائیں۔ عمران خان نے اپنی عینک منگوا کر لگائی اور پھر اتار دی۔

سماعت کے دوران عمران خان سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا۔ فوٹو: اے ایف پی

یوں لگ رہا تھا جیسے کمرے میں روشنی اُن کو تنگ کر رہی ہے۔

سماعت کے دوران چند منٹوں کے لیے عمران خان کو آف سکرین کر دیا گیا تاہم تھوڑی ہی دیر بعد ان کو دوبارہ براہ راست دکھانا شروع کر دیا گیا۔

اس دوران کمرہ عدالت سے اُن کی تصاویر وائرل ہو گئیں اور عدالت نے اس پر انکوائری کا حکم دیا ہے۔

سماعت کے دوران ایک موقع پر اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب ایک وکیل خود سے روسٹرم پر آگئے اور چیف جسٹس کو بتایا کہ عدالت کی کارروائی براہ راست نشر نہیں ہو رہی۔

اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ دلائل چل رہے ہیں آپ اپنی نشست پر جا کر بیٹھ جائیں جس پر وہ وکیل یہ کہہ کر واپس چلے گئے کہ وہ یہ بات صرف ان کے نوٹس میں لانا چاہتے تھے۔

ایک موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا بل کی سطح پر قانون کو معطل کرنا کیا پارلیمنی کارروائی معطل کرنے کے مترادف نہیں تو اس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ پھر پارلیمنٹ کو ہی کیوں نہ معطل کریں۔

ہم قانون توڑیں یا فوج توڑے ایک ہی بات ہے، ہم کب تک خود جو پاگل بناتے رہیں گے، کیا ہم کبھی بطور ملک آگے بڑھ سکیں گے ؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمان کیساتھ بدنیتی منسوب نہیں کی جا سکتی، آئین پارلیمان کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آرڈیننس ہی لانے ہیں تو پارلیمان کو بند کر دیں، صدر اور آرڈیننس دونوں ہی پارلیمان کو جواب دہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آرڈینس کے زریعے آپ ایک شخص کی مرضی کو پوری قوم پر تھوپ دیتے ہیں، کیا ایسا کرنا جمہوریت کے خلاف نہیں، کیا آرڈیننسکے ساتھ تو صدر مملکت کو تفصیلی وجوہات نہیں لکھنی چاہیں؟

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمان کو مظبوط بنانا سیاستدانوں کا ہی کام ہے۔انہوں نے کہا کہ آرڈیننس منظوری کے لیے پارلیمان کو ہی بھیجا جاتا ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.