کیا پنجاب میں اپنی گاڑی یا موٹرسائیکل کی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹ خود بنوا سکتے ہیں؟

image

صوبہ پنجاب کے شہریوں کو اب اپنی موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹس بنوانے کے لیے طویل انتظار کرنے اور خوار ہونے کی ضرورت نہیں۔ اب شہری کہیں سے بھی نئی نمبر پلیٹ بنوا سکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب نے 2006 میں گاڑیوں کے لیے متعارف کروائی گئی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس کا اجرا روک دیا ہے اور شہریوں کو اپنی گاڑیوں کی نمبر پلیٹس خود بنوانے کی اجازت دے دی ہے۔

صوبائی محکمہ ایکسائز نے نمبر پلیٹس کے لیے فیس وصول کرنا بھی بند کر دی ہے۔ ترجمان ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن پنجاب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ فیصلہ پنجاب کابینہ نے کیا ہے اور اُن کا محکمہ اس پر عمل درآمد کروا رہا ہے۔‘حکام کے مطابق ’محکمہ ایکسائز کو 30 لاکھ نمبر پلیٹس بنوانے کے لیے درخواستیں موصول ہوئیں، تاہم فیس وصول کرنے کے باوجود نمبر پلیٹس فراہم نہیں کی جا سکیں جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور محکمے پر دباؤ بھی بڑھتا گیا۔اردو نیوز کو محکمے کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ فیصلہ اِسی تناظر میں کیا گیا تاکہ نمبر پلیٹس کے بیک لاگ کو کلیئر کیا جا سکے اور شہریوں کو بروقت نمبر پلیٹس ملنے کا سلسلہ شروع ہو۔‘ترجمان محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکنیشن نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ پنجاب کابینہ کی جانب سے کیا گیا تھا جس پر عمل درآمد کے لیے متعلقہ اداروں سے مشورہ کیا گیا۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ فیصلہ تو کابینہ کا ہے لیکن اب شہری جو نمبر پلیٹس بنوائیں گے اس کے فیچرز ہمارے محکمے کی جانب سے ہی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ہم نے اس حوالے سے نمبر پلیٹس کا رنگ، لمبائی، چوڑائی، فونٹ سائز، موٹائی اور ہائٹ سب کچھ فائنل کر لیا ہے۔‘ترجمان کے مطابق ’شہریوں کی آسانی کے لیے اس فیصلے سے متعلق آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے اور اخبارات میں اشتہارات بھی شائع کیے گئے ہیں۔‘اُن کے بقول ’سوشل میڈیا اور اخبارات میں اس فیصلے کی تشہیر کی گئی ہے۔ ہماری جانب سے اب کوئی فیس نہیں لی جا رہی اور نہ ہی نمبر پلیٹس کی درخواستیں وصول کی جا رہی ہیں۔ شہری اب یہ کام اپنے طور پر کر سکیں گے۔‘

’محکمہ ایکسائز پنجاب کو 30 لاکھ نمبر پلیٹس بنوانے کے لیے درخواستیں موصول ہوئیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 خیال رہے کہ صوبہ پنجاب میں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس نہ ملنے کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ لاکھوں شہریوں نے محکمہ ایکسائز کے اس فیصلے سے قبل ہی نمبر پلیٹس کے لیے اپلائی کر رکھا ہے جبکہ نمبر پلیٹس تیار کرنے والی کمپنی سے محکمہ ایکسائز کا معاہدہ بھی ختم ہوچکا ہے۔محکمہ ایکسائز پنجاب کے ترجمان نے مزید بتایا کہ ’پہلے سے اپلائی کرنے افراد کو جلد نمبر پلیٹس مل جائیں گی۔‘’جن افراد نے اپلائی کیا تھا ان کو نمبر پلیٹس مل جائیں گی۔ ہماری طرف سے اِن کی پیداوار بھی شروع کی جا چکی ہے اور یہ سلسلہ تب تک چلے گا جب تک تمام درخواست گزاروں کو نمبر پلیٹس نہیں مل جاتیں۔‘اس فیصلے کے بعد یہ تاثر پھیلا ہے کہ شہری اگر اپنی مرضی سے نمبر پلیٹس بنوانے لگے تو اِس کی وجہ سے کئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی جن میں سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں میں گاڑیوں کا ریکارڈ نہ ہونا یا اس سے متعلقہ دیگر مسائل اُبھر سکتے ہیں۔ ترجمان ایکسائز پنجاب کے مطابق ’یہ نمبر پلیٹس محکمے کی جانب سے جاری کردہ معیار کے مطابق ہوں گی۔‘

ترجمان ایکسائز پنجاب کے مطابق ’نئی نمبر پلیٹس محکمے کی جانب سے جاری کردہ معیار کے مطابق ہوں گی‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اس حوالے سے اردو نیوز نے پنجاب سیف سٹی اتھارٹی سے رابطہ کیا تو اُس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور سیف سٹی اتھارٹی نے اس حوالے سے مشاورت کی ہے۔‘’شہریوں کی جانب سے نمبر پلیٹس بنوانے کی وجہ سے سیف سٹی اتھارٹی کی کارروائیوں پر اُس وقت تک کوئی اثر نہیں پڑے گا جب تک کہ وہ معیار کے مطابق ہوں گی۔ یہ سب کچھ مشاورت سے طے پایا ہے۔‘ان کے مطابق ’نمبر پلیٹ کا بیک گراؤنڈ سفید ہونا چاہیے اور اُس پر سیاہ رنگ سے نمبرز لکھے گئے ہوں تو سیف سٹی اتھارٹی کے کیمرے اس کو ریکارڈ کر سکتے ہیں۔‘’ایک اندازے کے مطابق تقریباً 95 فیصد گاڑیوں کی نمبر پلیٹس سٹینڈرڈ کے مطابق ہیں۔ شہری اگر نمبر پلیٹس میں نمونہ نمبر پلیٹ کے علاوہ کچھ نہیں لکھیں گے تو مسائل جنم نہیں لیں گے۔‘ترجمان سیف سٹی اتھارٹی کہتے ہیں کہ ’کمپیوٹرائزڈ نمبر پلیٹس کا مقصد ہی یہ تھا کہ یہ واضح ہوتی تھیں لیکن اب یہی کام شہری باآسانی خود کر سکیں گے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.