مکہ شہر کا پہاڑ گنج

مکہ میں ایک علاؤہ ایسا ہے جو کراچی کے پہاڑ گنج سے مماثلت رکھتا ہے

پختہ اینٹوں اور چٹانی پتھروں سے بنے مکانات اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں

مکہ ٹاور اور کبوتر چوک کے سامنے شاہراہ ابرہیم خلیل کے تجارتی مرکز اور رہائشی ہوٹلوں کے ساتھ سیدھے ہاتھ پر دو طرفہ دکانوں کے درمیان ایک سڑک اندر کی طرف گنجان ابادی میں جاتی ہے۔ یہ گنے کے جوس والی گلی کے نام سے بھی معروف ہے۔تقریبا" ایک فرلانگ کے فاصلے پر یہ سڑک دائیں ہاتھ پر مڑ جاتی ہے جس کے دائیں اور بائیں جانب دکانیں اور ہوٹلز ہیں۔ دائیں ہاتھ پر ان دکانوں کے عقب میں تقریبا" ہزار فٹ بلند پہاڑی ہے جو یقینا" اسلامی تاریخ کا حصہ ہے۔ وہاں کے مکینوں کے مطابق اسلام کے اولین دور میں یہاں صحابہ کرام اور کفار مکہ کی بستیاں بنی ہوئی تھیں۔ آج بھی اس پہاڑی پر پختہ اینٹوں اور چٹانی پتھروں سے بنے مکانات پر مشتمل گنجان آباد بستی بنی ہوئی ہے جو کراچی کے بنارس، قصبہ اور پہاڑ گنج کی بستیوں کی یاد تازہ کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں رہائش پذیر طبقہ زیادہ تر روہنگین برمی مسلمانوں، بنگالیوں، ہزارہ وال اور کشمیریوں پر مشتمل ہے۔ اس بستی سے تھوڑے ہی فاصلے پر شاہراہ نور جہاں کی طرز پر پوش علاقہ ہے جہاں بلند و بالا اور اسکائی اسکریپر ٹائپ کی کثیرالمنزلہ عمارتوں کا جنگل ہے جن میں تھری اور فور اسٹار رہائشی ہوٹلز ، شاپنگ پلازہ، فاسٹ فوڈ سینٹرز اور ریسٹورنٹس واقع ہیں۔ یہاں چوبیس گھنٹے ٹریفک کا اژدہام رہتا ہے جب کہ احرام اور بغیر احرام کے ہزاروں کی تعداد میں مرد و خواتین کا ہجوم ہر وقت خانہ کعبہ کی طرف جاتا اور وہاں سے واپس آتا نظر آتا ہے۔ یہاں سے بیت اللہ شریف قریب ہے اس لئے صحن حرم کے علاوہ کبوتر چوک سے ابراہیم خلیل روڈ اور شاہراہ ہجرہ اور اس کے اطراف کی گلیوں میں آدھ کلومیٹر طویل علاقے میں لاکھوں نمازی ، امام کعبہ کی اقتدا میں پانچوں وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔نماز کے اوقات میں اس بستی کی گلیاں بھی نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں اور لوگوں کو گزرنے کی جگہ نہیں ملتی۔

پہاڑی بستی پر بھی ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ ہر مکان کی چھت پر فائبر سے بنی پانی کی ٹنکیاں نظر آتی ہیں۔ پہاڑی پر بنے مکانات تک پہنچنے کے لئے تنگ و تاریک گلیوں میں کنکریٹ اور چٹانی پتھروں سے سیڑھیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ پہاڑی کے نشیبی علاقے میں تنگ سی سڑک کے اطراف میں بلند و بالا عمارتوں میں رہائشی ہوٹلز واقع ہیں جن میں سے اکثر دس سے بیس منزلہ ہیں۔ ہمارا انیس منزلہ ہوٹل، "رشد المجد" بھی پہاڑی کے بالکل سامنے تھا۔ اس سڑک پر شاہراہ ابراہیم خلیل تک، بنگالیوں کی دکانوں پر مشتمل بڑا بازار ہے " جہاں زیادہ تر دکانوں پر ہر مال "دو ریال " میں فروخت ہوتا ہے۔ یہاں پھلوں کی دکانیں، بیکری اور ریسٹورنٹس ہیں، جہاں انناس سمیت تمام پھل ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔گلیوں میں فٹ پاتھ پر پتھارے اور ٹھیلوں پر بھی پھل اور دیگر اشیائے ضروریہ فروخت ہوتی ہیں۔ اس علاقے میں پاکستانیوں نے بھی فوڈ سینٹرز اور پاکستانی کھانوں کے ہوٹل بنائے ہوئے ہیں جہاں حلیم سمیت ہر طرح کا سالن دس سے بیس ریال میں خریدا جاسکتا ہے جب کہ دو نان جن میں تین افراد کا پیٹ بھرتا ہے، ایک ریال میں ملتے ہیں۔ دو ریال میں پراٹھہ ملتا ہے جو دو افراد کی شکم سیری کے لئے کافی ہوتا ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے یہ اشیا بہت مہنگی لگتی ہیں کیوں کہ اس وقت ایک ریال 75پاکستانی روپے کے برابر ہے جب کہ ان تمام اشیائے خوردنی و صرف کی قیمتیں مقامی آبادی کی قوت خرید کے مطابق سستی ہیں ۔ اس علاقے میں داخل ہوکر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ بنگلہ دیش، بھارت یا پاکستان کا کوئی قصبہ ہے کیوں کہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر، سڑکوں پر سیوریج کا پانی اور شام کے وقت لوگوں کے جھنڈ چبوتروں پر کچہری کرتے نظر آتے ہیں۔ پہاڑی کے نشیبی علاقے میں بھی ایک مسجد ہے، جو انتہائی تنگ و تاریک نظر آتی ہے، اس کے باہر پانی کی ٹنکیاں لگی ہیں جہاں سے مقامی آبادی اور بازار کے دکانداروں سمیت ہوٹلوں میں رہائش پذیر افراد بھی پینے کا پانی بھرتے ہیں۔اس علاقے کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم دور قدیم کی کسی بستی میں گھوم رہے ہیں۔ سڑک پر چلنے والی گاڑیاں، سعودی حکومت کے ٹریفک قوانین و اصولوں سے ماورا ہوتی ہیں اور وہ راہ گیروں کی پروا کئے بغیر تیز رفتاری سے گذر جاتی ہیں۔ ہوٹلوں میں رہائش پذیر پاکستانی عمرہ زائرین یا حجاج کرام اس لئے یہاں سے پانی لینے پر مجبور ہیں کیوں کہ دکانوں پر پانچ سو ملی لیٹر پانی کی بوتل جس سے ایک وقت میںں ایک شخص کی پیاس ہی بجھ سکتی ہے، تین ریال کی ملتی ہے۔ زیادہ تر لوگ پانچ لیٹر کے کین اور بوتلیں نماز کے وقت خانہ کعبہ لے جاتے ہیں۔ صحن کعبہ میں درجنوں کی تعداد میں نلکے لگے ہوئے ہیں جن میں چوبیس گھنٹے آب زم زم کی فراہمی ہوتی ہے۔ لوگ اپنے پینے کے لئے آب زم زم بھر کر ہوٹل لے جاتے ہیں۔ گنے کے جوس والی گلی سے باہر نکلتے ہی ہم مکہ کے جدید شہر کے ابراہیم خلیل روڈ اور شارع ہجرہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان سڑکوں پر تقریبا" سو منزلہ مکہ ٹاور کی بلند و بالا عمارت ہے جو مکہ میں داخل ہوتے وقت دور سے ہی نظر آتی ہے۔ بیت اللہ شریف کے چاروں اطراف بلند و بالا عمارتیں واقع ہیں، جن میں تجارتی مراکز، رہائشی ہوٹل اور ریستوران واقع ہیں۔۔ سڑکوں پر لاکھوں عازمین حج اور عمرہ مسجد حرام سے شارع ہجرہ اور ابراہیم خلیل روڈ پر چلتے ہوئے اپنی جائے قیام تک جاتے ہیں
 

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.