دیسی سماج میں رائج عدم توازن کے شاخسانے

اس تحریر میں پڑھنے والوں کے لیے کچھ پیغام ہے اگر سمجھیں تو ۔ ایک تو یہ کہ رشتہ طے اور شادی ہمیشہ اپنے جیسوں برابر والوں یعنی اپنے ہم پلہ لوگوں میں کریں طبقاتی تفریق بہت سے مسائل کو جنم دینے کا سبب بن جاتی ہے ۔ دوسرا یہ کہ والدین کی اگر ماضی میں جن رشتہ داروں یا کسی بہن بھائی سے ناچاقی اور نااتفاقی رہ چکی ہے تو ان کے ہاں ہرگز شادی نہ کریں ۔ اور اگر تو آپ کی بیوی ایک معقول سلجھی ہوئی نیک خاتون ہے مگر آپ کی ماں اس کی کارکردگی سے مطمئین نہیں ہے تو معاملات کو مینیج کرنے اور ماحول کو بہتر بنانے کی پوری پوری کوشش ہمیشہ جاری رکھیں مگر اپنی شادی شدہ بہنوں کو اپنے گھر کے معاملات میں مداخلت کرنے اور اپنی بیوی پر حکومت کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں ۔ آپ کی منکوحہ ان کی رعایا نہیں ہے اسے عزت اور تحفظ دیں ۔ اگر استطاعت ہو اور آپ کی جیب اجازت دیتی ہو تو علیحدہ رہائش کا بند و بست کریں اپنی جنت پکی کرنے کے چکر میں بیوی بچوں کو جوائنٹ کے جہنم کا ایندھن نہ بنائیں ۔ یہ برصغیری جبری نظام اپنی زندگی خود جی نہ پانے کا نام ہے بہت ہی ہولناک صورتحال ہوتی ہے کہ پردیس میں اپنا خون پسینہ ایک کر کے اپنے پورے مشترکہ گھرانے کا خرچ چلانے والے تک خود اپنے بیوی بچوں کو ان کی زندگی جینے نہیں دے سکتے ۔ وہ صرف قربانیاں دینا جانتے ہیں رشتوں اور ذمہ داریوں کے درمیان توازن رکھنا نہیں ۔ بس اتنا جان لیں کہ جہاں خدا کا خوف نہیں ہوتا وہاں انصاف بھی نہیں ہوتا ۔ اگر کسی کے دل میں اپنی سگی اولاد کے لئے رحم نہ ہو تو کیا کسی پرائی اولاد کے لئے ہو گا؟ تحفظات اور فکرِ فردا و مفادات ضمیر کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں ۔

لڑکیوں کے والدین کو چاہیے کہ کم آمدنی والے مقامی لڑکوں کو قبول کریں اور بیٹیوں کو صبر و شکر کے ساتھ گزارہ کرنے کی تعلیم دیں مگر ذمہ داریوں کے جنجال میں جکڑے کسی پردیسی بکرے کے ساتھ ان کے نصیب نہ پھوڑیں جو پاس بلانا تو درکنار کئی کئی سال تک خود بھی واپس نہیں آتے ۔ ایک بیوہ کو تو پھر بھی صبر آ جاتا ہے مگر ایک نام نہاد سہاگن روز جیتی ہے روز مرتی ہے ۔ عام طور پر ایسی لڑکی کی سسرال میں حیثیت کسی مفت کی ملازمہ سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ شوہر موجود ہو ساتھ ہو تو اتنے مسائل کا سامنا ہوتا ہے جہاں وہ چند ہی روز کی رفاقت کے بعد تنہا چھوڑ جائے تو زندگی آسان نہیں ہوتی بِنا ہمسفر کے نا محرم رشتوں کے درمیان رہنا کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا ۔ سماجی و تمدنی یا معاشی وجوہات کی بناء پر اگر کوئی انہیں اپنی بیٹی دے دیتا ہے تو کم از کم اتنا تو اہتمام ہونا چاہیئے کہ اس پر پورے گھر کا بوجھ نہ ڈالا جائے اس کی پرائیویسی کا احترام کیا جائے ۔ اس کے محتاط رویئے کو کسی غرور و تکبر پر محمول نہ کیا جائے اور کوئی لڑکی اگر کسی سسرالی عزیز کے ساتھ بہت زیادہ گھل مل جائے تو اسے ہلکا نہ لیا جائے ۔ ایک سے ایک مذہبی اور دیندار گھرانوں میں دیور بھابھی کی بےجا بے تکلفی کو ایک معمول کی بات بلکہ تہذیب کا تقاضہ سمجھا جاتا ہے ۔

لڑکا اگر نا فرمان اور بد زبان ہو تو کہا جاتا ہے کہ اس کی شادی کر دو ٹھیک ہو جائے گا ۔ سوچنے والی بات ہے کہ جس لڑکے کو اس کے اپنے والدین ٹھیک نہ کر سکے ہوں اسے کوئی پرائی لڑکی آ کر کیسے ٹھیک کر دے گی ۔ کسی بھی لڑکی کی شادی اس لئے نہیں ہوتی کہ اس کی زندگی اور اتنا قیمتی وقت کسی کی نا ہنجار اولاد کی نفسیات و اخلاقیات کو بھگتنے اور اس کے راہ راست پر آنے کے انتظار میں گزر جائے ۔ وہ بیوی بن کر آتی ہے آپ کے بچے کی نینی بن کر نہیں، لہٰذا اپنی کوتاہیوں اور نا اہلی کی سزا کسی دوسرے کی بیٹی کو دینے کے شوق پر قابو پائیں اور اپنے بچے کی اصلاح و تربیت پر توجہ دیں ۔ یہی صلاح لڑکیوں کے لئے بھی ہے اگر تو وہ قابلِ اصلاح ہیں ۔

مشاہدہ بتاتا ہے کہ لڑکا اگر محنتی و کماؤ ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سیدھا اور فرمانبردار بھی ہے تو اس کی سادگی و سعادتمندی کا جی بھر کر نا جائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ اوّل تو طرح طرح کے حیلوں بہانوں سے اس کی شادی میں تاخیر کی جاتی ہے اور جب کسی طرح بالآخر شادی ہو ہی جائے تو اُسے اُس کی زندگی جینے نہیں دیا جاتا ۔ نو بیاہتا جوڑے کے پورے پرائم ٹائم کو ایک نائٹ میئر بنا دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جاتی ۔ یاد رکھیں ہم سے صرف نماز روزے ہی کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ۔

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 226 Articles with 1709364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.