’موت کا جزیرہ‘: اینتھریکس کے وہ خفیہ تجربے جن کے لیے برطانوی فوج نے سائنسدانوں کی مدد حاصل کی

یہ ماحول کو تباہ کر دینے والا ایک خفیہ تجربہ تھا جس کی وجہ سے یہ برطانوی جزیرے خطرناک مواد میں لپٹا رہا اور نصف صدی تک ’نو گو ایریا‘ قرار پایا۔

1960 کی دہائی کے دوران بی بی سی نے سکاٹ لینڈ کے ساحل کے قریب ایک دوردراز جزیرے ’گرینارڈ‘ کا جائزہ لینے کی ٹھانی۔ اس کے بارے میں اطلاعات تھیں کہ یہاں دوسری عالمی جنگ کے وقت خفیہ طور پر حیرت انگیز تجزبے کیے گئے ہیں۔ اس جزیرے پر خطرناک مواد کی موجودگی اور جانوروں کی اموات کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔

بی بی سی کے نامہ نگار فائف رابرٹسن نے 1962 میں دور سے اس جزیرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اسے موت کا جزیرہ اور پُراسرار جزیرہ کہتے ہیں اور اس کی کوئی ٹھوس وجہ بھی ہے۔‘

’یہ پہاڑوں سے جڑی کوئی توہم پرستی یا کالے جادو کی کہانی نہیں۔ یہ کہانی 1942 میں شروع ہوئی۔ جنگ تین سال سے جاری تھی جب وار آفس کے سائنسدانوں نے اس جزیرے کا کنٹرول سنبھالا اور خفیہ تجربے کیے جو آج بھی کسی کو معلوم نہیں۔ 20 سال بعد بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہاں کیا ہوا تھا۔ مقامی لوگوں کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔‘

رابرٹسن اس جزیرے پر حکومت کے خطرناک تجربوں سے متعلق کہانیوں کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔ ان کی رپورٹنگ کے دوران برطانیہ کی وزارت دفاع نے جزیرے پر داخلے کی اجازت نہ دی۔ نہ ہی رپورٹر مقامی لوگوں کو منا سکے کہ وہ انھیں جزیرے کے قریب لے جائیں۔

یہ ماحولیاتی تباہی تھی۔ حیرت انگیز طور پر یہ جزیرے خطرناک مواد میں لپٹا تھا اور نصف صدی تک ’نو گو ایریا‘ رہا۔ پھر 1990 میں برطانوی حکومت نے اسے محفوظ قرار دیا۔

سچ یہ تھا کہ اس جزیرے پر برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ’اینتھریکس‘ کے تجربوں کی کوشش کی۔ اس خطرناک بیکٹیریل انفیکشن کو ہتھیار بنانے کا منصوبہ تھا۔

اس حوالے سے تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب حکومت نے 1997 میں فوج کی اس فلم کو ڈی کلاسیفائی کیا جس میں اس وقت کے تجربے دکھائے گئے ہیں۔

اینتھریکس جزیرہ
PA Media

دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی میں انفیکشن پھیلانے کا منصوبہ

اس منصوبے کا نام ’آپریشن ریجیٹیریئن‘ تھا جس کے سربراہ پال فلڈس تھے۔ وہ اس وقت انگلینڈ میں فوج کی پورٹن ڈاؤن ملٹری فسیلٹی میں بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ تھے۔

پورٹن ڈاؤن کی بنیاد 1916 میں رکھی گئی۔ اس کا مقصد کیمیکل ہتھیاروں کے اثرات کو سمجھنا تھا اور یہ وار ڈیپارٹمنٹ ایکسپیریمنٹل سٹیشن کا حصہ تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ان ہتھیاروں کا استعمال بڑھ رہا تھا۔

1940 کی دہائی میں برطانیہ دوبارہ جنگ میں داخل ہوا اور پورٹن ڈاؤن کو بیالوجیکل ہتھیار بنانے کی ذمہ داری دی گئی جسے نازی جرمنی کے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا۔ دستوں کی براہ راست لڑائی کے بجائے ان ہتھیاروں سے تباہ کن اثرات پیدا ہوسکتے تھے۔

منصوبے کے تحت السی میں اینتھریکس شامل کر کے اسے جرمنی کے گرد مویشیوں کی جگہ بذریعہ طیارے پھینکا جانا تھا۔ گائے یہ خوراک کھا کر اینتھریکس سے متاثرہ ہو جاتیں اور اس گوشت کو کھانے سے لوگ بیمار ہوتے۔

اینتھریکس قدرتی طور پر پایا جانے والا جان لیوا مواد ہے۔ اس کی تمام علامات ظاہر ہونے میں وقت لگ سکتا ہے مگر اس سے بڑے پیمانے پر اموات ہوسکتی ہیں۔

اس مجوزہ منصوبے سے جرمنی میں گوشت کی سپلائی متاثر ہوتی اور ملک گیر سطح پر اینتھریکس کا انفیکشن پھیل جاتا جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتیں۔

قدرتی ماحول میں اینتھریکس کیسے ایک ہتھیار بن سکتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے محققین نے گنجان آباد علاقوں سے دور اس کے تجربے کیے۔ 1942 کی گرمیوں کے دوران فوج نے اس ویران جزیرے کو خرید لیا اور مقامی لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی۔

اینتھریکس جزیرہ
Getty Images

سائنسدانوں کی نگرانی میں فوج کی ٹیم نے یہ پریشان کن تجربے شروع کیے۔ وہ آزمائشوں کے لیے مویشی بھی لائے اور پورے جزیرے کی زمین پر اینتھریکس کو پھیلا دیا۔

یونیورسٹی آف لیڈز کے پروفیسر ایڈوارڈ سپیئرز نے 2022 میں بی بی سی ڈاکومنٹری ’مسٹری آف اینتھریکس آئی لینڈ‘ میں بتایا تھا کہ ’اس کا مقصد یہ تھا کہ آیا دھماکے کے باوجود اینتھریکس کا زہریلا مواد بچ سکتا ہے اور کیا اس کے بعد اس کا اثر بھی باقی رہے گا۔‘

’کئی مراحل پر 80 کے قریب بھیڑوں کو باندھا گیا۔ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکہ ہوتا۔ ہوا کے دباؤ سے اینتھریکس نیچے آتا اور اس سے ہر طرف انفیکشن اور موت پھیلتی تھی۔‘

اس کے نتائج تباہ کن تھے: کچھ دن میں بھیڑوں میں علامت ظاہر ہوتیں اور ان کی موت واقع ہوجاتی۔ ان کے جسموں کا پوسٹ مارٹم کیا جاتا جس کے بعد انھیں جلا دیا جاتا یا ملبے تلے دبایا جاتا۔

کچھ تجربوں کا مشاہدہ خود مقامی لوگوں نے کیا جو جزیرے کے قریب دھواں اٹھتا دیکھ سکتے تھے۔ ایک مقامی شخص نے اپنے بھیڑ سائنسدانوں کو فروخت کیے۔ اس نے دیکھا کہ ’دھواں اوپر سے نیچے جانوروں کی طرف آتا تھا۔ انھوں نے 1962 میں رابرٹسن کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے یہ زہریلی گیس اینتھریکس ہے۔‘

یہ خفیہ ٹرائل 1943 تک جاری رہے۔ فوج نے انھیں کامیاب قرار دیا اور سائنسدان پورٹن ڈاؤن لوٹ گئے مگر جزیرہ بُری طرح اینتھریکس سے متاثر ہوا۔

اتحادیوں کی مداخلت کے بعد اس منصوبے کو ترک کر دیا گیا۔ انفیکشن کو جزیرے سے ختم کرنے کی بھی کوششیں ہوئیں۔

1952 میں برطانیہ میں بڑے پیمانے پر تباہی کا الگ ہتھیار تیار کر لیا اور یہ دنیا کی تیسری جوہری طاقت بن گیا۔ چار سال بعد اس نے کیمیکل اور بیالوجیکل ہتھیاروں کے منصوبے روک دیے۔

یہ بھی پڑھیے

اینتھریکس جزیرہ
Getty Images

’آپریشن ویجیٹیریئن‘

اس منصوبے نے جزیرے پر تباہی مچا دی۔ یہ بیکٹیریا کئی دہائیوں تک مٹی میں باقی رہا جس سے کئی سال بعد بھی انفیکیشن پھیلتا رہا۔ فوج کے تجربے نے جزیرے کو انسانوں یا جانوروں کے رہنے کے قابل نہ چھوڑا۔ جزیرے سے سمندر میں گرنے والا بارش کا پانی بھی خطرناک سمجھا جانے لگا۔

تجربے کے کچھ ماہ بعد سے ہی جزیرے کے قریب رہنے والے جانور مرنے لگے۔ برطانوی حکومت نے ان لوگوں کو معاوضہ دیا جن کا نقصان ہوا تھا۔

ایک مقامی شخص نے 1962 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’بڑا واضح ہے کہ انھیں کچھ معلوم تھا ورنہ وہ اتنی جلدی معاوضہ نہ دیتے۔‘

فوج نے غیر معینہ مدت کے لیے جزیرے کو قرنطینہ میں بدل دیا اور وارننگ کے سائن بورڈ بھی نصب کر دیے۔

دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو کئی دہائیوں بعد جزیرے کو آلودگی سے پاک کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن وہ بڑی حد تک غیر موثر ثابت ہوئیں۔

1971 میں ٹرائلز نے ظاہر کیا کہ مٹی میں اینتھریکس کے بیضے نہیں لیکن وہ اب بھی نیچے کی مٹی میں موجود رہتے ہیں جس سے جزیرے پر قدم رکھنا اب بھی خطرناک ہے۔

اینتھریکس جزیرہ
Getty Images

1981 میں ڈارک ہارویسٹ کمانڈوز نامی ماحولیاتی گروپ جزیرے پر اترا اور اینتھریکس سے متاثرہ مٹی کے نمونے لیے۔ انھوں نے اس مٹی کی ایک بالٹی پورٹن ڈاؤن کے باہر جزیرے پر مہلک آلودگی کو اجاگر کرنے کے لیے چھوڑی جس کا مقصد حکومت کو کچھ کرنے پر مجبور کرنا تھا۔

پانچ سال بعد سائنسدان دوبارہ آلودگی سے پاک کرنے کی کوششوں کو آزمانے کے لیے واپس آئے۔ جزیرے کو سمندری پانی اور فارملڈہائیڈ کے مرکب میں بھگویا گیا۔ ساتھ ہی آلودہ مٹی کو ہٹایا یا جلایا گیا۔

اس بار وہ کامیاب رہے۔ بالآخر 48 سال کے قرنطینہ کے بعد 24 اپریل 1990 کو اس جزیرے کو اینتھریکس سے پاک قرار دیا گیا۔

یہ جزیرہ واحد مقام نہیں جہاں برطانیہ نے خفیہ تجربے کیے لیکن یہ ایسی پہلی جگہ ضرور تھی۔

وہاں جو کچھ ہوا اس کے نتائج آج بھی بیالوجیکل جنگ کے خطرات اور تباہی مچانے کی انسانی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.