کوئی آنے کو ہے؟

دُور کِسی ویران اور سُنسان ریلوے اسٹیشن سے بریانی بیچنے والے کی آواز اُس کے کانوں میں پَڑ رہی تھی اور ساتھ ہی کھیتوں سے کُتوں کے بھونکنے کی آواز,اور اُس کے دِماغ میں پُرانی یادوں کے شور کے علاوہ باقی ہر طرف صرف سَناٹا ہی سَناٹا تھا
نا جانے رات کے 3 بجے دُھند سے لِپٹی سردی میں وہ اکیلا بیٹھا لڑکا کیا سوچ رہا تھا؟

ہاں وہ اپنی برباد ہوتی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔اور اُن لوگوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو اِس کی زندگی کو برباد کرنے والوں میں شامل تھے۔۔

اور کوئی نہیں اپنی زندگی کو مشکل راستوں پہ لانے والا وہ لَڑکا خود ہی تھا وہ کسی کو الزام نہیں دینا چاہتا تھا
الزام دیتا بھی تو کِس کو؟

اُسے افسوس اِس بات کا تھا کہ اُس نے اپنی زندگی میں جتنے بھی خواب دیکھے تھے اُن میں سے وہ کِسی ایک کو بھی پورا نہیں کر پایا تھا۔
گھر سے بہت دور دیہاڑی پر کام کرنے والے مَزدور باپ کے بیٹے کے کیا خواب ہو سکتے ہیں سِواۓ اپنے ماں باپ کو خوشی دینے کے؟
اُس کا سِگریٹ اپنے اِختتام کو پہنچ رہا تھا اُس کی خوشیوں کی طرح۔

پھر سے سوچوں کا سلسلہ شروع ہُوا
کاش وہ اپنے سارے غم اِس سگریٹ کے دھُوئیں کی طرح اُڑا دیتا
اُسے معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنی دیر سے ٹرین کی ویران پٹری پہ بیٹھا سر جھکاۓ کتنی دیر سے وہ رو رہا تھا اور وہ پھر سے توبہ کر رہا تھا وہ توبہ جو بار بار ہم نیک ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں
وہ سوچتا تھا کہ کہانیوں میں کتنی آسانی سے کسی کو ہارٹ اٹیک ہوتا ہے کسی کو برین ہیمبرج اور وہ مر جاتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں درد کی انتہا پہ پہنچ کر بھی جینا پڑتا ہے
وہ خود کشی کا سوچ رہا تھا شاید

لیکن وہ خودکشی کے پرانے طریقوں سے نہیں مرنا چاہتا تھا جیسا کہ پرانی لڑکھڑاتی ٹرین, پرانی عمارت کی چھت سے کود کر مرنا,
خاموش دریا میں چھلانگ لگانا,حکیم کی دکان سے سستی زہر کی شیشی,زنگ سے بھری پستول کی گولی, یا پھر گھر کا پرانا پنکھا اور رسی,
اس کی برداشت اس حد تک ختم ہو چکی تھی اس کو چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی تلکیف ہوتی پھر یہ سوچ کر وہ خود کو تسلی دیتا کہ یہ دنیا ہے جنت نہیں ہے

خودکشی کا سوچتے ہوئے اُسے ایک ہی خیال آتا کہ خدا کے سوالوں کا کیا جوب دے گا وہ؟
یا وہ سوال ایسے نا ہوں جیسے بتاۓ جاتے ہیں
شاید خدا یہ نا پوچھے کہ زندگی کیسی گُزاری؟
خدا یہ بھی تو پوچھ سکتا ہے کہ " زندگی کیسےگزری تم پہ؟
اس نے جیب سے دوسرا سگریٹ نکالا
اس وقت ہزاروں سوچیں اس کی دماغ کا طواف کر رہی تھی
وہ سوچ رہا تھا یہ جو لوگ رات دیر تک جاگتے ہیں کیا ان کو نیند نہیں آتی؟
وہ یہ نہیں سوچتے کہ رات تو سونے کیلیئے ہے پھر ہم کام کیوں کر رہے ہیں؟
دور کہیں دھند میں چُھپی کھیتوں میں ایک چھوٹی سی بستی کے ایک گھر سے روشنی آرہی تھی بالکل ہی ہلکی سی
اس نے سوچا شاید وہاں کوئی ایسا ہے جو ابھی تک نہیں سویا, تو کیا جو باقی گھر ہیں جن سے روشنی نہیں آرہی وہ سب سکون سے سو رہے ہوں گے؟

ہاں پر ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کوئی نیند نا آنے کی وجہ سے کروٹیں بدل رہا ہو؟ پتا نہیں وہ کس پریشانی میں ہو؟
وہ اپنے سوالوں کا جواب خود دے رہا تھا
یا پھر کوئی اُس کے جیسا جو اپنی برباد ہوتی زندگی کا بارے سوچ رہا ہو
یا پھر ایک بوڑھا جو صبح کی اذان کے انتظار میں ہو؟

یا کسی کی بوڑھی ماں اپنے بیٹے کو یاد کرکے رو رہی ہو جو دوسرے شہر کمانے گیا ہو
یا وہ 12 سال کا معصوم بچہ جس کو یہ سوچ کہ خوف آرہا ہو کے کل ماسٹر جی ہوم ورک نا
کرنے پہ بہت ماریں گے۔

انہی سوچوں میں گم تھا وہ کہ اچانک ٹرین کے چیختے ہوئے ہارن نے اسے سر اُٹھانے پہ مجبور کردیا
اُس نے خود کشی کا نیا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا

وہ تھا خوش نظر آنے کی اداکاری کرنا۔۔خوش نظر آنے کی اداکاری سے بڑی موت اور کیا ہو سکتی ہے؟

پہلے وہ چالاک تھا اِسلئیے دنیا بدلنے کا سوچ رہا تھا وہ اب وہ سمجھدار ہوگیا تھا اِسلئیے اُس نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کِیا
اُس کی جیب میں پَڑا آخری سگریٹ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا

سگریٹ جلانے کے بعد وہ گھر کی جانب چل پڑا جانتا تھا اس کی ماں انتظار کر رہی ہوگی ماں کے سوالوں پر اسے صرف خوش نظر آنے کی اداکاری کرنی تھی۔

Jawad Iqbal
About the Author: Jawad Iqbal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.