’آٹو بریوری سنڈروم‘: وہ نایاب مرض جس میں جسم خود بخود الکوحل بنا کر انسان کو نشے میں مبتلا کر دیتا ہے

نظام ہاضمہ میں الکوحل پیدا کرنے والی ایک نایاب کیفیت یا بیماری، اے بی ایس زندگی کو تبدیل کرسکتی ہے۔

آپ نے اکثر ایسی خبریں پڑھ یا سُن رکھی ہوں گی کہ کیسے کوئی شخص نشے کی حالت میں تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے اپنا چالان کروا بیٹھا، یا اُس کی گاڑی کسی خطرناک حادثے کا شکار ہوئی۔

مگر بیلجیئم سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ شخص اُس وقت سرخیوں میں آئے کہ جب وہ ایک ایسے مقدمے میں بری ہوئے جس میں اُن پر الزام تھا کہ انھوں نے شراب پی کر حد رفتار سے تین گُنا زیادہ تیز رفتاری سے گاڑی چلائی۔

اب اس خطرناک نوعیت کے مقدمے میں بیلجیئم کے رے لیوس کیسے بری ہوئے تو اس کے لیے اُن کی مدد کی اُن طبی ماہرین نے جنھوں نے عدالت میں یہ ثابت کیا کہ اُن کے مؤکل کو ’آٹو بریوری سنڈروم‘ نامی ایک نایاب بیماری ہے جس میں انسانی جسم خود بخود الکوحل پیدا کرتا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق اس بیماری میں پیٹ میں موجود آنتوں میں ایک خاص کیمیکل بڑی مقدار میں پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم اور دماغ پر ایسی غنودگی طاری ہو جاتی ہے جیسا کہ شراب پینے کے بعد ہوتی ہے۔

’آٹو بریوری سنڈروم‘ نامی اس بیماری میں انسانی جسم میں الکوحل جیسا ایک کیمیکل ’ایتھنول‘ بڑی مقدار میں بنتا ہے۔

جنگلی حیات کے محکمے میں بطور ٹیکنیشن کام کرنے والےرے لیوس جب امریکہ کے شہر اوریگون کے ہسپتال میں بے ہوشی کی حالت سے بیدار ہوئے تو انھیں دو باتوں کا یقین تھا۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ جس وقت ان کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا تو اس وقت وہ 11,000 زندہ سالمن مچھلیوں سے لدا ایک ٹرک چلا رہے تھے۔

دوسری بات یہ کہ حادثے کے فوری بعد جب پولیس کی جانب سے اُن کے خون کے نمونے لیے گئے تو اُن کے خون میں الکوحل کی مقدار انتہائی زیادہ پائی گئی تھی۔

لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ دسمبر 2014 میں جب یہ حادثہ ہوا تو اُس رات انھوں نے شراب نہیں پی تھی۔

اب 54 سالہ رے اُس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے یقینی طور پر شراب کے ایک قطرے کو بھی ہاتھ نہیں لگایا تھا کیوں کہ میں جانتا تھا کہ میرے سامنے کورے سے اٹی ہوئی ایک سڑک اور اس پر چلانے کے لیے بڑا ٹرک تھا جس پر مُجھے دو گھنٹے کا سفر کرنا تھا۔‘

اس حادثے کے آٹھ ماہ کے بعد ہونے والے ایک طبی معائنے میں معلوم ہوا کہرے کو ’آٹو بریوری سنڈروم‘ کا سامنا ہے یعنی ایسی حالت جس میں ان کا جسم خود سے الکوحل بنا پر انھیں نشے میں مبتلا کر دیتا ہے۔

(امریکی ٹی وی چینل فاکس 13 سیئٹل کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں 2014 میں رے کو جس حادثے کا سامنا کرنا پڑا اُس کے مناظر دکھائے گئے۔)

https://twitter.com/fox13seattle/status/550503847375163393

’آٹو بریوری سنڈروم‘ یا اے بی ایس کیا ہے؟

اے بی ایس یا گٹ فرمنٹیشن سنڈروم (جی ایف ایس) ایک بڑی حد تک پراسرار کیفیت یا حالت ہے جو خون میں الکوحل کی سطح کو بڑھاتی ہے اور اس کی وجہ سے انسانوں میں نشے کی علامات پیدا ہوتی ہیں، یعنی شراب نہ پینے کے باوجود مریض غنودگی محسوس کرتا ہے۔

یہ اُس وقت ہوتا ہے جب پیٹ میں آنت، پیشاب کے نظام یا منہ میں موجود ایک خاص بیکٹیریا کاربوہائیڈریٹس اور شکر کو الکوحل میں تبدیل کرنا شروع کرتا ہے، ایک ایسا عمل جسے ’انڈوجنس الکوحل پروڈکشن‘ کہا جاتا ہے۔

اس کیفیت کا شکار فرد بنا سوچے سمجھے کُچھ بھی اور کہیں بھی کہہ دیتا ہے، چلے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ نشے میں ہے اور سب سے بڑھ کر اگر ایسا شخص بات کرے تو قریب کھڑے افراد کو اس کے منہ سے شراب کی بُو بھی آ سکتی ہے۔

اس مرض کے ابتدائی کیسز میں سے ایک 1940 کی دہائی میں سامنے آیا جب یوگنڈا کے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں نے برٹش میڈیکل جرنل میں ایک بچے کے پوسٹ مارٹم کے نتائج شائع کیے۔ مریض ایک پانچ سالہ بچہ تھا جس کی ہلاکت پیٹ کے پھٹ جانے کی وجہ سے ہوئی تھی اور پوسٹ مارٹم کے دوران اس کے پیٹ میں شدید اور ناقابلِ برداشت ’بدبو‘ آ رہی تھی۔۔۔ بلکُل ویسے ہی کہ جیسے شراب کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہو۔‘

Microscope picture of the fungus Saccharomyces cerevisiae
Getty Images

یہ مرض کس کو متاثر کرتا ہے؟

اے بی ایس ایک انتہائی نایاب بیماری ہے۔ امریکن جرنل آف گیسٹرو اینٹرولوجی میں 2021 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ امریکہ میں اس مرض کے 100 سے کم رجسٹرڈ واقعات ہیں، تاہم کُچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے بی ایس کے کیسز رپورٹ ہی کم ہوئے ہیں۔

طبی ماہرین اب تک وضاحت سے یہ بات نہیں کہہ پائے ہیں کہ اے بی ایس کا حملہ انسانی جسم پر کیسے ہوتا ہے۔

انسانی جسم میں کھانے کو ہضم کرنے کے لیے معدے میں ایک خاص مقدار میں الکوحل پیدا ہوتی ہے لیکن زیادہ تر افراد میں اس الکوحل کے اثرات سامنے آنے سے قبل ہی یہ ایک خاص قدرتی عمل ’فرسٹ پاس میٹابولزم‘ کی مدد سے ختم ہو جاتی ہے۔

پرتگال سے تعلق رکھنے والے بائیو میڈیکل کنسلٹنٹ اور فرانزک ماہر ڈاکٹر ریکارڈو جارج ڈینس اولیویرا کا کہنا ہے کہ ’ہمارے جسم قدرتی طور پر الکوحل پیدا کرتے ہیں، لیکن اے بی ایس کا شکار کوئی بھی شخص اس کی زیادہ مقدار کی وجہ سے تب مُشکل میں پڑ جاتا ہے کہ جب پیدا ہونے والی الکوحل اُس کے خون میں شامل ہو جاتی ہے۔‘

A young woman preparing to do a breathalyser text
Getty Images

’افسوس کی بات تو یہ ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اُس وقت تک اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اے بی ایس کے مرض میں مبتلا ہیں جب تک کہ اُن سے کوئی بڑا جُرم نہ سرزد ہو جائے۔‘

ڈاکٹر ریکارڈو جارج ڈینس اولیویرا اے بی ایس کو ’پرفیکٹ میٹابولک سٹرام‘ یا ایک انتہائی خطرناک طوفان قرار دیتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں ہونے والی متعدد چیزوں سے شروع ہوتا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ پہلی وجہ اکثر ذیابیطس، موٹاپا ہوا کرتا ہے۔

دوسرا ان دواؤں سے متعلق ہے جو یہ مریض اکثر استعمال کرتے ہیں، اینٹی بائیوٹکس اور امیونوسپریسنٹس، جو آنتوں کو متاثر کر سکتی ہیں، اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ ان اچھے جراثیموں کو بھی متاثر کرتی ہیں کہ جو ہماری آنتوں میں رہتے ہیں۔

اے بی ایس کے ساتھ زندہ رہنا

جب ایک امریکی نرس جو کورڈیل اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ رات کے کھانے کے دوران بے قابو ہو گئے وہ یہ سمجھنے سے بھی قاصر تھے کہ وہ کیا بول رہے ہیں، انھیں بس اپنی اس کیفیت کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ انھوں نے بہت زیادہ کھانا کھایا ہے۔

لیکن اُس رات ڈنر کے بعد یہ معاملہ رُکا نہیں بلکہ پھر ٹیکساس کے ایک ہسپتال میں جہاں وہ کام کرتے تھے، اُن کے ایک ساتھی نے اُن پر شفٹ کے دوران نشے میں دھت ہونے کا الزام لگایا۔

75 سالہ کورڈیل یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میری سانسوں میں شراب کی بُو تھی، لوگوں کا خیال تھا کہ میں شرابی ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں شرمندہ تھا کیونکہ میں ان لوگوں میں سے ایک تھا جو اپنا کام انتہائی ذمہ داری سے کرتے تھے اور کبھی بلا وجہ ایک دن بھی کام سے چھٹی نہیں کی تھی۔‘

Joe Cordell (l) and Barbara Cordell (r)
Courtesy of Barbara Cordell
باربرا کورڈیل اپنے شوہر جُو کے ہمراہ

کچھ عرصے تو اُن کی اہلیہ باربرا کو بھی شک تھا کہ وہ شراب نوشی کرنے لگے ہیں اور اکثر نشے کی حالت میں رہتے ہیں۔

ایک ساتھی نرس نے کہا کہ باربرا اپنے شوہر کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے گھر کی تلاشی اس غرض سے بھی لی کہ کہیں گھر میں شراب کی بوتلیں تو نہیں چھپائی گئیں، اور اگر گھر میں شراب کی کوئی بوتل تھی بھی تو انھوں نے اس بات پر بھی نظر رکھی کہ ان کے شوہر ان کا کتنا استعمال کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے پہلے جُو پر شک تھا، میں نے گھر میں موجود شراب کی بوتلوں پر نشانات بھی لگائے یہاں تک بھی ان کی نگرانی کی کہ کہیں ان میں سے شراب استعمال کر دینے کے بعد پانی تو نہیں ڈالا جاتا کہ کسی کو یہ نہ پتا چلے کے اس بوتل میں سے شراب استعمال کی گئی ہے۔‘

جو کا کہنا تھا کہ ’میری اس کیفیت نے مُجھے ذہنی طور پر انتہائی تکلیف میں مبتلا رکھا اور میں اپنے آپ سے بھی خوفزدہ رہنے لگا تھا۔‘

A pizza topped with french fries
Getty Images

جُو کو پہلی بار علامات کا سامنا کرنے کے چار سال بعد 2010 میں اے بی ایس کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ ملازمت پر تو جاتے رہے مگر اس سے قبل انھیں روزانہ خون میں الکوحل کی موجودگی کے ٹیسٹ کروانے پڑے۔

اس تجربے نے باربرا کو آٹو بریوری سنڈروم ایڈووکیسی اینڈ ریسرچ نامی سپورٹ گروپ تلاش کرنے پر مجبور کیا، جس کے تقریبا 850 ارکان ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم روزانہ کی بنیاد پر مریضوں سے سنتے ہیں کہ انھیں ڈاکٹروں کی جانب سے توجہ نہیں دی جا رہی۔‘

جو کا کہنا ہے کہ ’مُجھے متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا مگر اب گزشتہ دس سال سے میں اس سب سے آزاد ہوں۔‘

اے بی ایس کی تشخیص اور علاج کیسے ممکن ہے؟

اس مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سب سے پہلے مریض کے نظام ہاضمہ کے بیکٹیریا پروفائل کا تجزیہ کرنے کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کر سکتے ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا الکحل پیدا کرنے والے جراثیموں کی غیر معمولی موجودگی ہے یا نہیں۔

اس ضمن میں ڈاکٹر اکثر گلوکوز چیلنج ٹیسٹ کر سکتے ہیں جس میں مریض کو کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور کھانا کھانے یا خالی پیٹ گلوکوز کھانے کے لیے کہا جاتا ہے۔ کچھ گھنٹوں کے بعد، اے بی ایس کے بغیر لوگوں کے خون میں الکوحل کی سطح تقریبا ناقابل شناخت ہو گی جبکہ اے بی ایس والے افراد میں اس کی سطح انتہائی بلند ہو گی۔

Ray and Mia shopping at a garden centre
Courtesy of Ray Lewis

ڈاکٹر ڈینس اولیویرا کا کہنا ہے کہ اے بی ایس کو عام طور پر ادویات اور کم کاربوہائیڈریٹ والی غذا کے امتزاج کے ساتھ ساتھ آنتوں کے جراثیم کو منظم کرنے والے فوڈ سپلیمنٹس کے استعمال سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

اور یہ وہ تمام باتیں تھیں کہ جنھوں نے جُو کی مدد کی اور گذشتہ دس سال سے ان پر غنودگی طاری نہیں ہوئی۔

لیکن کم کارب والی غذا پر عمل کرنے کے باوجود رے اب بھی کچھ انتہائی کم نوعیت کے اثرات کے ساتھ ان مرض سے لڑ رہے ہیں۔

تاہم انھوں نے اب اپنی اس کیفیت سے لڑنے کے لیے ایک خاص ’میا‘ نامی کُتے کی مدد حاصل کی ہے۔

اس کتے کو رے کے جسم میں کیمیائی تبدیلیوں کو سونگھنے کی تربیت دی گئی ہے۔ جب اسے رے کے جسم میں ہونے والی کسی تبدیلی کا پتہ چلتا ہے، تو وہ اُن کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اور غور سے گھورتی ہے۔

رے کہتے ہیں کہ ’میا سے پہلے، میں مشکل سے گھر سے باہر نکل پاتا تھا، کیوں کہ مجھے ڈر لگا رہتا تھا کہ میرے مرض کی وجہ سے میرے یا دوسروں کے ساتھ کچھ بُرا نہ ہو جائے۔‘

People toasting with glasses of beer
Getty Images
اے بی ایس کے مریض شراب پینے والوں کی طرح کی علامات کی شکایت کرتے ہیں، جیسے چکر آنا، بولنے میں دشواری اور ہینگ اوور

رے بتاتے ہیں کہ ’اُس حادثے میں جو بھی ہوا اس کی ذمہ داری جج نے اُن پر ہی ڈالی، کیونکہ ٹیسٹ کی رپورٹ کے مطابق میرے جسم میں الکوحل موجود تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے ایک بیماری ہے تاہم عدالت کی جانب سے ہونے والے فیصلے کے باوجود میرے بس میں بس یہی ہے کہ میں اس مرض کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھوں۔‘

لیکن انھوں نے امید نہیں چھوڑی، اور نہ ہی اپنی حسِ مزاح۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ اے بی ایس کے مریضوں کو مفت میں ایک نشہ کرنے والے فرد کی جیسی آواز ملی ہے، لیکن مجھے یہ کہنے میں خوف محسوس ہوتا ہے کہ میں نے تو اس کا ہینگ اوور بھی دیکھا ہے۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.