مبینہ طور پر جہیز کے معاملے پر ہونے والا لڑکی کا قتل اور سُسرال والوں سے لیا گیا بھیانک انتقام

انڈیا کے شہر پریاگ راج یعنی الہ آباد میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں انشیکا کے خاندان والے درجنوں رشتہ داروں کے ساتھ آئے اور چند منٹوں میں دونوں خاندانوں کے درمیان شدید مار پیٹ شروع ہو گئی۔

’لگ بھگ رات 11 بجے رات کا وقت تھا جب ساتھ سے ستر افراد ہمارے گھر میں داخل ہوئے اور انھوں نے ہمیں بے رحمی سے مارنا شروع کر دیا۔‘

انڈیا کے قدیم شہر پریاگ راج یعنی الہ آباد کی شیوانی کیسروانی نے اپنی کہانی کی ابتدا کچھ یوں کی۔

وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے گھر میں زبردستی داخل ہونے والوں میں اُن کی بھابی انشیکا کے اہلخانہ اور رشتہ دار شامل تھے۔ انشیکا اُن کے بھائی انشو کی بیوی تھیں، جو ایک گھنٹہ قبل شیوانی کے گھر میں پنکھے سے لٹکی ہوئی پائی گئی تھیں۔ انھوں نے خود کو پھانسی لگا لی تھی۔

شیوانی اور پولیس کا کہنا ہے کہ انشیکا نے خودکشی کی تھی لیکن انشیکا کے اہلخانہ اور رشتہ داروں کا الزام ہے کہ انھیں سسرال والوں نے جہیز کے لیے قتل کیا تھا۔

شیوانی کا خاندان لکڑی کے کاروبار سے منسلک ہے اور وہ ایک مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں۔ گراؤنڈ فلور اور بیسمنٹ میں دکان اور گودام ہیں جبکہ خاندان کے لوگ اوپری منزلوں پر رہتے تھے۔ ہر منزل پر ایک بیڈروم تھا اور انشو اپنی بیوی انشیکا کے ساتھ سب سے اوپر والی منزل پر رہتا تھا۔ ان کی ایک سال قبل شادی ہوئی تھی۔ انشو کے والدین گھر کی پہلی منزل پر رہتے تھے جبکہ دوسری منزل پر ان کی بہن شیوانی رہتی تھیں۔

شیوانی نے بی بی سی کو بتایا: ’انشیکا عام طور پر 8 بجے رات کے کھانے کے لیے نیچے آتی تھی لیکن اُس دن وہ نظر نہیں آئی تو ہم نے سوچا کہ وہ سو گئی ہوں گی۔‘

شیوانی نے بتایا کہ رات 10 بجے جب اُن کا بھائی انشو دُکان سے آیا تو اس نے کہا وہ اپنی اہلیہ کو بلانے کے لیے اوپر جا رہا ہے۔

دو خاندانوں میں تصادم

وہ بتاتی ہیں کہ جب ان کے بھائی نے اوپر جا کر ’دستک دی تو اندر سے کوئی جواب نہیں ملا۔ اُس نے دروازے کی چٹخنی کھولنے کے لیے دروازے کے اوپر کا شیشہ توڑ دیا۔ وہاں اس نے انشیکا کو مردہ پایا۔ اس نے چیخ ماری اور ہم سب تیزی سے اوپر بھاگے۔‘

انشو اور اُن کے چچا نے فوراً مقامی پولیس سٹیشن میں موت کی اطلاع دی اور ساتھ ہی انشیکا کے والدین کو بھی اطلاع دی گئی۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اطلاع دیے جانے کے ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں انشیکا کے خاندان والے درجنوں رشتہ داروں کے ساتھ انشو کے گھر آئے اور چند منٹوں میں دونوں خاندانوں کے درمیان شدید مار پیٹ شروع ہو گئی۔

شیوانی ہمیں اپنے موبائل فون پر مردوں کے ایک دوسرے پر چیختے ہوئے اور ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے ایک دوسرے کو مارنے والی ویڈیوز دکھاتی ہیں۔ ایک پولیس والا بیچ میں کھڑا بیچ بچاؤ کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ جیسے ہی انشیکا کی لاش گھر سے باہر نکالی گئی تو اُس کے رشتہ داروں نے ان کے گھر کو آگ لگا دی۔

گراؤنڈ فلور اور تہہ خانے میں رکھی لکڑیاں تیزی سے جلنے لگیں جبکہ شیوانی، اس کے والدین اور گھر میں موجود ایک خاتون اس آگ میں پھنس کر رہ گئے۔

آگ میں گِھری شیوانی اور گھر میں موجود ایک خاتون نے دوسری منزل کی کھڑکی توڑ دی اور اپنے چچا کے ساتھ والے مکان میں رینگ کر پہنچیں۔ لیکن شیوانی کے والدین اتنے خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔

آگ بجھانے میں تین گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ گيا اور جب صبح تین بجے کے قریب آگ بجھانے والا عملہ گھر میں داخل ہوا تو انھیں انشو اور شیوانی کے بزرگ والدین کی جھلسی ہوئی لاشیں ملیں۔

پولیس میں شکایت

شیوانی اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’میری ماں کی جلی ہوئی لاش سیڑھیوں سے ملی۔ انھیں بوری میں بھر کر مردہ خانے لے جایا گیا۔‘

شیوانی نے پولیس کو درج کروائی گئی ایف آئی آر میں انشیکا کے خاندان کے 12 افراد کو نامزد کیا ہے جبکہ ’60-70 نامعلوم افراد‘ کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ایک پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس واقعے میں ملوث انشیکا کے والد، چچا اور اُن کے بیٹوں سمیت سات افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ جیل میں ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ انشیکا کے والد نے ’انشو، اس کے والدین اور بہنوں‘ پر اپنی بیٹی کو جہیز کے لیے ہراساں کرنے اور اسے قتل کرنے کا الزام لگاتے ہوئے جوابی شکایت درج کرائی ہے۔

شیوانی اپنے خاندان کے خلاف الزامات کی تردید کرتی ہیں لیکن وہ یہ تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں شادی میں انشیکا کے خاندان کی طرف سے گاڑی سمیت بہت سارے تحائف ملے تھے۔ وہ کہتی ہیں: ’انھوں نے اپنی بیٹی کو جو چاہا دیا، ہم نے کچھ نہیں مانگا۔‘

انشو اپنی اہلیہ اور اپنے والدین کی موت کے بعد سے گھر واپس نہیں آیا ہے۔ شیوانی مزید کہتی ہیں کہ ’وہ روپوش ہے کیونکہ انشیکا کے رشتہ داروں سے اسے اپنی جان کا خوف ہے۔‘

یاد رہے کہ سنہ 1961 سے انڈیا میں جہیز لینے اور دینے کا عمل غیر قانونی ہیں لیکن ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 90 فیصد شادیوں میں آج بھی جہیز دیا اور لیا جاتا ہے۔

انڈیا میں پولیس کو ہر سال مردوں اور سسرال والوں کے ہاتھوں بیویوں کو ہراساں کرنے کی ہزاروں شکایات موصول ہوتی ہیں اور جرائم کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا میں سنہ 2017 سے 2022 کے درمیان 35,493 دلہنوں کو ناکافی جہیز لانے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔

لیکن مبینہ طور پر جہیز کی وجہ سے موت کے معاملے میں اس قسم کا بھیانک انتقام شاذ و نادر ہی سُنا جاتا ہے۔

’انصاف چاہتی ہوں‘

شیوانی اب اپنے چچا کے خاندان کے ساتھ ساتھ رہ رہی ہیں۔ وہ ہمیں اس جگہ لے گئیں جو کبھی اُن کا گھر ہوتا تھا اور جہاں وہ آباد تھیں۔ اس رات پیش آنے والے دلخراش واقعے کی یادیں آج بھی اس مقام پر بکھری پڑی ہیں۔ گھر کی دیواریں جل کر سیاہ ہو چکی ہیں جبکہ فرش پر راکھ کی موٹی تہہ پڑی ہے۔ دھات کے برتن اور کڑاھیاں آدھ جلی لٹکی ہوئی ہیں جبکہ جلا ہوا گھر کا فرنیچر آج بھی وہیں بکھرا ہوا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں انصاف چاہتی ہوں۔ میری زندگی برباد ہو چکی ہے، میرا گھر اور خاندان ختم ہو گیا ہے۔ میں ایک آزادنہ اور منصفانہ تحقیقات چاہتی ہوں اور جو بھی قصوروار پایا جائے اسے سزا ملنی چاہیے۔‘ وہ پوچھتی ہیں کہ ’انھوں نے میرا گھر کیوں جلایا؟ ہمیں اب شواہد کیسے ملیں گے؟‘

وہ پولیس سے بھی ناراض ہیں۔ انھوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے گھر کے باہر کم از کم دو درجن پولیس اہلکار موجود تھے لیکن میرے والدین کو بچانے کے لیے کوئی بھی اندر نہیں گیا۔ وہ صرف کھڑے دیکھتے رہے۔‘

پولیس اس الزام کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ ایک سینیئر پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ ’یہ ایک حساس مسئلہ تھا اور جذبات بہت بھڑکے ہوئے تھے۔ ہماری توجہ (انوشیکا کی) لاش کو جائے وقوع سے ہٹانے اور پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال لے جانے پر تھی۔ ہمارا مقصد بھیڑ کو کم کرنا اور حالات کو خراب ہونے سے بچانا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ گھر کو آگ لگا دی جائے گی۔ یہ بالکل غیر متوقع تھا۔ ہم نے فوری طور پر فائر بریگینڈ کو فون کیا۔ ہم نے پانچ لوگوں کی جان بچانے میں بھی مدد کی۔‘

اس دوہرے سانحے نے انشیکا کے خاندان کے کردار کو بھی داغدار کر دیا ہے۔ ان کا موقف جاننے کے لیے ہم ان کے والدین کے گھر پہنچے جہاں انشیکا اپنی شادی سے پہلے رہتی تھیں۔ صدر دروازے پر لوہے کا ایک بڑے تالا لگا تھا۔

انشیکا کے گھر سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ان کے چچا کا گھر ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں وہ (چچا) اور ان کے بیٹے بھی شامل ہیں۔ اہلخانہ ابھی تک میڈیا سے بات کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

’ہم نے 50 لاکھ کا جہیز دیا تھا‘

دروازے پر دستک دینے سے جواہر لال کیسروانی باہر نکل آئے، جو انشیکا کے دادا ہیں۔ وہ اپنے عمر کی نوے کی دہائی میں ہیں۔ ان کا ایک پوتا پلاسٹک کی کرسی نکالتا ہے اور وہ اس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ انھیں سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا تھا۔

سانس بحال کرنے کے چند منٹوں کے بعد انھوں نے کہا کہ ’میں آپ کو کیا بتاؤں؟ میرا سارا خاندان جیل میں ہے، میرے بیٹے، میرے پوتے۔‘

انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’انھوں نے انشیکا کو قتل کیا اور اسے پھانسی پر لٹکا دیا تاکہ اس کی موت کو خودکشی کا رنگ دیا جا سکے۔‘

مسٹر کیسروانی بتاتے ہیں کہ انشیکا کی شادی شاہانہ انداز میں ہوئی تھی۔ ’ہم نے 50 لاکھ روپے خرچ کیے۔ ہم نے اسے گھر کے لیے درکار سب کچھ دیا، اور ایک کار جس کی قیمت 16 لاکھ روپے تھی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب انشیکا اُن سے گذشتہ فروری میں ملنے آئیں تھیں تو ’اس نے ہمیں بتایا کہ اسے ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہم نے اسے کہا کہ وہ وہیں رہے اور ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرے۔ ہم نے اسے کہا کہ وقت کے ساتھ چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔‘

کیسروانی اپنے علاقے میں ایک مشہور خاندان ہیں۔ انھیں منکسر، دوستانہ مزاج اور مددگار کہا جاتا ہے۔ لیکن اس دوہرے سانحے کی تفصیلات نے ان کے پڑوسیوں کو صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔

ان کے ایک پڑوسی نے بتایا: ’وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ ہم سوچ نہیں سکتے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ ایسے لوگ نہیں ہیں جو جھگڑوں میں پڑیں۔‘

’ہمیں نہیں معلوم کہ آگ کس نے لگائی، لیکن کوئی بھی اپنی بیٹی کی لاش دیکھ کر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ سکتا ہے۔‘

پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ’انشیکا کا برتاؤ بہت اچھا تھا۔۔۔ وہ ایک پیاری لڑکی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کے ساس سسر آگ میں جل کر مر گئے۔‘

’لیکن جو چیز مجھے واقعی اداس کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اب کوئی اس کے بارے میں بات نہیں کر رہا ہے کہ انشیکا کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ کیسے مری؟‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.