ہاں وہ تو بہادرلڑکی ہے
Poet: Maryam Gill By: Maryam Gill, Faisalabadاک داستاں
ناجانے کیوں تھا ایسا
کیوں لگتا تھا اُسےایسا
وہ آنکھیں اٹھا کر دیکھے گا
اور وہ بکھر جاۓگی ٹوٹ کر
وہ پگل جاۓگی موم بن کر
وہ ریزہ ریزہ ہو جاۓگی ٹکڑے بن کر
مگر دیکھو اُسے ! وہ تو پتھر بن گئ ہے اَب
اُسے بکھیر ہی نہیں پائ وہ آنکھیں
وہ پگل ہی نہیں سکی اُن نظروں سے
وہ ٹوٹ ہی نہیں پائ اُن گہرایؤں سے
کیا وہ اتنی مضبوط بن گئ ہے؟؟
یا پھر اُس نے خود سے سمجھوتہ کر لیا تھا!
کہ جو اُسکا نہیں، اُسکا خیال تک بھی نہیں
اُسکا نام تک کبھی نہیں لے گی وہ!!
کبھی روبرو ہوا تو راستہ بدل لےگی وہ!!
ہاں آنسو نکل آۓ تھے اُسکی آنکھوں سے
مگر اُس نے پی لیے تھے اپنے آنسو
چھپا لیاتھا سب سے، اپنے اندر کا درد
کسی کو دیکھائ ہی نہیں دیۓ تھے اُسکے آنسو
مگر دیکھو ! وہ ٹوٹی تو نہیں ہے
وہ تو مضبوط لڑکی ہے ناں!!
وہ تو بہادر لڑکی ہے ناں!!
اُسے تو بس اُس سےمحبت کرنی ہے
جسے تقدیرنے چنا ہے اُس کے لیے
ہاں وہ تو اُس کی ہی ہے
وہ اُس کی بن سکے گی ناں!!
ہاں اُسے اُس کا بننا ہے
اُسے ہی سوچنا ہے بس اُس کو
اور یہ جو دل ہے اِسکو بھی منا لےگی وہ
ضدی ہے ہاں مگر تھوڑا رُو کے مان جاتا ہے
ہاں وہ منا لے گی اِسکو!!
وہ دفنا دےگی سب درد اور ملال
وہ مشرقی لڑکی ہے ناں!!
اُسے اچھے سے آتا ہے دل کی باتیں دفنا دینا
ہاں وہ تو بہادرلڑکی ہے
وہ روتی تو ہے مگر وہ مضبوط بھی ہے
ہاں وہ بہت ذیادہ مضبوط ہے!!
وہ ٹوٹنے نہیں دےگی خود کو
کبھی بھی نہیں …………
کسی قیمت پہ بھی نہیں …………
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






