تم نے بھی کسی کو اپنا بنایا تو ہو گا
Poet: Imran Nazeer By: Imran Nazeer, Islamabadتم نے بھی کسی کو اپنا بنایا تو ہو گا
تمہارا بھی دل کسی نے چرایا تو ہو گا
کی ہوں گی میٹھی باتیں بھی اس سے
پھر اس کو اپنے گلے سے لگایا تو ہوگا
قصہ زندگی کا سنایا ہو گا اس کو تم نے
پھر افسانہ اک اسی سے چھپایا تو ہو گا
محبت کے غرور میں تھے تم آسماں پہ
اسی کی نفرت نے زمیں پہ گرایا تو ہو گا
کرتا ہو گا جھوٹا وعدہ تم سے ملنے کا
یوں اس نے بھی تمہیں رلایا تو ہو گا
نکالا ہے جیسے تم نے اپنے دل سے ہمیں
یوں اس نے بھی تمہیں بھلایا تو ہو گا
جاگتے رہتے ہیں تیری یاد میں شب بھر
اس نے بھی تمہیں رتجگے سے ملایا تو ہوگا
سب یہ دنیا والے کہتے ہیں شرابی ہم کو
انگور غم تم نے بھی کبھی کھایا تو ہو گا
ہاتھ ملا کر غیر سےجلاتے تھے مجھے تم
یوں اس نے بھی کھبی تمہیں جلایا تو ہوگا
کیسے آتا ہے بہاروں میں خزاں کا موسم
یہ سب اس نے تمہیں عملا بتایا تو ہو گا
جیسے منتوں سے مناتے تھے تمہیں ہم
حساب سارا تم نے بھی چکایا تو ہوگا
ترک تعلق کا جب اعلان کیا ہو گا اس نے
رو رو کے پھر تم نے اسے منایا تو ہو گا
ہوئی ہوگی جب غم سے تیری چشم نم
خیال تم کو اس وقت ہمارا آیا تو ہو گا
اتنی محبت ہے جو غم کو تم سے عمراؔن
تم نے بھی دل کسی کا دکھایا تو ہو گا
ہمیں دَردِ دِل کی سزا تو دے، مگر اپنے لَب کبھی کہہ نہ دے۔
یہ چراغِ اَشک ہے دوستو، اِسے شوق سے نہ بُجھا دینا،
یہی ایک ہمدمِ بے وفا، ہمیں بے خبر کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے زَخم دے، مجھے رَنج دے، یہ گلہ نہیں مرے چارہ گر،
مگر اپنے فیض کی ایک گھڑی مرا مُستقل کبھی کہہ نہ دے۔
مرے عَزم میں ہے وہ اِستقامت کہ شرر بھی اپنا اَثر نہ دے،
مجھے ڈر فقط ہے نسیم سے کہ وہ خاکِ چمن کبھی کہہ نہ دے۔
وہ جو بیٹھے ہیں لبِ جام پر، وہ جو مَست ہیں مرے حال پر،
انہی بزم والوں سے ڈر ہے مظہرؔ کہ وہ میرا نشاں کبھی کہہ نہ دے۔
مجھے توڑنے کی ہوس نہ ہو، مجھے آزمانے کی ضِد نہ ہو،
مجھے قرب دَشت کا شوق ہے، کوئی کارواں کبھی کہہ نہ دے۔
یہ جو صَبر ہے یہ وَقار ہے، یہ وَقار میرا نہ لُوٹ لینا،
مجھے زَخم دے کے زمانہ پھر مجھے بے اَماں کبھی کہہ نہ دے۔
مرے حوصلے کی ہے اِنتہا کہ زمانہ جُھک کے سَلام دے،
مگر اے نگاہِ کرم سنَبھل، مجھے سَرکشی کبھی کہہ نہ دے۔
جو چراغ ہوں مرے آستاں، جو اُجالہ ہو مرے نام کا،
کسی بَدزبان کی سازشیں اُسے ناگہاں کبھی کہہ نہ دے۔
یہی عَرض مظہرؔ کی ہے فقط کہ وَفا کی آنچ سَلامت ہو،
کوئی دِلرُبا مرے شہر میں مجھے بے وَفا کبھی کہہ نہ دے۔
دل کی خوشی چھن گئی اور آنکھوں میں خاری بن گئی ہے۔
یادوں کے طوفاں چلے اور نیندیں بھی ساری بن گئی ہے،
غم کی وہ زنجیر جس کو توڑی تھی، بھاری بن گئی ہے۔
جس کو سمجھتے تھے راحتوں کی سواری بن گئی ہے،
زندگی سچ کہہ رہی، محض ایک مجبوری بن گئی ہے۔
ہر دن نئی اِک کسک دل میں بیداری بن گئی ہے،
سانسوں کی ڈوری بھی اب تو اِک مجبوری بن گئی ہے۔
خوابوں کا عالم بھی اب محض بیقراری بن گئی ہے،
چاہت تھی جو روشنی، اب تو تاریکی بن گئی ہے۔
کل جو تھا دلکش بہت، آج وہ بیزاری بن گئی ہے،
رنگوں کی دنیا بھی مظہرؔ سنساری بن گئی ہے۔
لمحے جو تھے خوشنما، اب تو عیاری بن گئی ہے،
حالات کی موج ہر پل اِک دشواری بن گئی ہے۔
یادوں کا طوفان اب دل پہ سرکاری بن گئی ہے،
پہلے جو راحت تھی وہ زخمِ کاری بن گئی ہے۔
مظہرؔ جو کل تک دل میں تھی ایک چنگاری بن گئی ہے،
اب تو محبت ہر سمت کی بازار داری بن گئی ہے۔
دل کو تیری نظر لُٹا دیں گے
جس کو چاہا تھا اپنی دنیا میں
ہم وہی درد اب لگا دیں گے
خود سُنے گا زمانہ قصّہ اپنا
غم کی محفل میں یہ سُنا دیں گے
خاک ہونے کا کب گِلہ ہم کو
اپنے ارمان سب جلا دیں گے
وقت کی گرد میں چھپا ہر زخم
پھر کسی دن تمہیں چُبھا دیں گے
زندگی کا ہر اِک فسانہ ہم
دھوپ میں اپنے نام مِٹا دیں گے
میرے مظہرؔ نہ پوچھ دردِ دل
جو کمایا ہے سب اُڑا دیں گے






