انصاف مولا کریم کا کام، دخل دینا حق میں مداخلت کرنا ہے، چیف جسٹس

image

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ یہ جو انصاف کا کام ہم کر رہے ہیں یہ مولا کریم کا کام ہے، ہمارے کام میں دخل دینا تو حق میں مداخلت کرنا ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں آج سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے علی ظفر سے سوال کیا کہ آپ بھی ریویو ایکٹ پر اپنا نکتہ بتا دیں۔ وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ آئین کے خلاف ہے، عدالت انتخابات نظر ثانی کا فیصلہ ریویو ایکٹ کے فیصلے تک روک سکتی ہے۔ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں دلائل تقریبا مکمل ہو چکے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ریویو ایکٹ ہم پر لاگو ہوتا ہے تو الیکشن کمیشن کو لارجر بینچ میں دوبارہ سے دلائل کا آغاز کرنا ہوگا۔  عدالت کیسے پنجاب انتخابات کیس سنے، اگر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ نافذ ہو چکا ہے؟ کیسے ہم پر سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پنجاب انتخابات نظرثانی کیس میں لاگو نہیں ہوتا؟

دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سب چاہتے ہیں کہ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کا فیصلہ ہو۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے یہ دلیل دی کہ نظرثانی میں وسیع تر اختیارات ہیں، اپیل کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس نیا نہیں ہے، اس پر پہلے بحث ہو چکی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل نظرثانی کا دائرہ کار بڑھانے پر تھے۔ اگر پنجاب الیکشن نظرثانی کیس لارجر بینچ میں جاتا ہے توکیل دلائل وہیں سے شروع کر سکتے ہیں۔ سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کا فیصلہ کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی حالات یا دلائل ہوں، عدالت پنجاب انتخابات نظر ثانی کیس کا فیصلہ جلد کرے۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ 15 مئی کی رات مجھے لگا کہ آئین کا انتقال ہوگیا۔ 15 مئی کو انتخابات کی معینہ مدت اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی توہین ہوئی۔ ہر دن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آئین کا قتل ہو چکا۔ وزیراعظم، چیف جسٹس سمیت سب نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل جو بھی دلائل دیں اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہوگی۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جب ریویو ایکٹ پاس ہوا تو سینیٹ میں کہا گیا کہ کیسے آئین سے متصادم قانون بنا رہے ہیں؟ سینیٹ سے 5 منٹ میں یہ ریویو ایکٹ پاس ہوا بحث بھی نہیں ہوئی۔ آرٹیکل 184 تین میں ترامیم اچھی ضرور ہیں لیکن تبدیلی صرف آئینی ترمیم سے ہی ممکن ہے۔ عدلیہ کی آزادی سے متعلق قوانین صرف آئینی ترمیم سے بنائے جاسکتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس قانون میں آرٹیکل 184 تین سے متعلق اچھی ترامیم ہیں۔ صرف ایک غلطی یہ کی کہ آرٹیکل 184 تین پر نظرثانی کو اپیل قرار دے دیا۔ اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں حکومت نے غلطی کی۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ کے خلاف درخواست گزار ذاتی حیثیت میں ہیں۔ اگر علی ظفر کو کیس میں فریق بننا ہے تو درخواست ڈال دیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کوئی ایسا راستہ بتائیں کہ وقت کی بچت ہو۔ اچھی بات یہ ہے کہ حکومت اور حکومتی اداروں نے قانون کے مطابق چلنے کا فیصلہ کیا۔ آج حکومت کی سوچ ریاضی کی بنیاد پر نہیں لیکن قانون اور حقائق پر ہے۔ حکومت کی اچھی قانون سازیوں کو ہم سراہتے ہیں، حکومت تو دروازوں پر احتجاج کر رہی تھی۔ کیا احتجاج کا مطلب انصاف کے معاملے میں رکاوٹ ڈالنا تھا؟

بعد ازان سپریم کورٹ کی طرف سے 3 نئی درخواستوں پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ کیخلاف کیس کی سماعت منگل تک ملتوی کردی گئی۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.