مویشیوں میں پھیلنا والا ’بلیو ٹنگ‘ وائرس جس سے پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک متاثر ہو رہے ہیں

بلیوٹنگ وائرس (بی ٹی وی تھری) ایک ایسا وائرس ہے جو گائے، بکری، بھیڑ، ہرن، اونٹ اور دیگرچرنے والے جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔ اس بیماری کو بلیوٹنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شدید کیسز میں جانور کی زبان اور منہ کی جھلیاں سوج کر نیلی ہو جاتی ہیں۔
یہ وائرس گائے اور بھیڑوں میں پایا گیا ہے
Getty Images
یہ وائرس گائے اور بھیڑوں میں پایا گیا ہے

بلیو ٹنگ (بی ٹی وی تھری) ایک ایسا وائرس ہے جو گائے، بکری، بھیڑ، ہرن، اونٹ اور دیگر چرنے والے جانوروں کو متاثر کرتا ہے۔

اس بیماری کو بلیو ٹنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شدید کیسز میں جانور کی زبان اور منھ کی جھلیاں سوج کر نیلی ہو جاتی ہیں۔ یہ جانوروں کے جسم میں اندرونی خون بہنے اور آکسیجن کی کمی کے باعث بنتا ہے۔

29 اکتوبر کو ناردرن آئرلینڈ کے محکمہ زراعت، ماحولیات اور دیہی امور (ڈایرا) نے بتایا کہ علاقے کے ایک ذبح خانے میں نگرانی کے دوران دو گائیوں میں یہ بیماری پائی گئی۔ یہ گائیں کاؤنٹی ڈاؤن کے قریب بینگر کے ایک فارم سے آئی تھیں۔

یہ وائرس فوڈ سیفٹی کے اعتبار سے انسانوں یا دوسرے جانوروں کے لیے خطرے کا باعث نہیں لیکن متاثرہ جانوروں کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے پھیلنے سے جانوروں کی نقل و حرکت اور تجارت پر سخت پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں۔

یہ بیماری زیادہ تر ان ممالک میں پائی جاتی ہے جہاں کاٹنے والے چھوٹے کیڑے عام ہوتے ہیں، جیسے افریقہ، ایشیا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکہ اور کئی گرم ممالک کے جزائر۔

اس بیماری کو بلیو ٹنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شدید کیسز میں جانور کی زبان اور منہ کی جھلیاں سوج کر نیلی ہو جاتی ہیں
Getty Images
اس بیماری کو بلیو ٹنگ اس لیے کہا جاتا ہے کہ شدید کیسز میں جانور کی زبان اور منھ کی جھلیاں سوج کر نیلی ہو جاتی ہیں

اس وائرس کی علامات کیا ہیں؟

اگرچہ نیلی زبان کو اس بیماری کی نمایاں علامت سمجھا جاتا ہے لیکن ہر متاثرہ جانور کی زبان نیلی نہیں ہوتی۔ بلیو ٹنگ وائرس سے متاثرہ بھیڑوں میں منھ اور ناک کے چھالے، آنکھ یا ناک سے پانی آنا، زیادہ رال ٹپکنا اور ہونٹوں، زبان، سر، گردن اور اس جگہ کی سوجن شامل ہو سکتی ہے جہاں ٹانگ کی کھال کھُر سے ملتی ہے۔

دیگر علامات میں جلد کا سرخ پڑ جانا (کیونکہ خون اندر جمع ہو جاتا ہے)، بخار اور سانس لینے میں دشواری شامل ہیں۔

گائیوں میں بلیو ٹنگ کی علامات میں سستی، نتھنوں اور منھ کے گرد زخم، منھ، آنکھوں اور ناک کا سرخ ہونا، بھوک میں کمی اور دودھ کی پیداوار کا کم ہو جانا شامل ہے۔ تاہم بالغ گائیں کئی ہفتوں تک کوئی علامت ظاہر کیے بغیر یہ وائرس اپنے اندر رکھ سکتی ہیں۔

اگر گائے یا بھیڑ حمل کے دوران وائرس کا شکار ہو جائے تو بچھڑے اور میمنے بھی پیدائش سے پہلے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ایسے بچے چھوٹے، کمزور، پیدائشی نقائص یا نابینائی کے ساتھ پیدا ہو سکتے ہیں جبکہ بعض جانور ماؤں کے حمل ضائع ہو سکتے ہیں یا وہ مردہ بچے کو جنم دےسکتی ہیں۔

گھوڑے، سور اور کتے اس وائرس سے متاثر نہیں ہوتے۔

کچھ جانوروں میں بیماری کی علامات بہت کم ظاہر ہوتی ہیں اور وہ صحت یاب ہو جاتے ہیں جبکہ بعض جانور وائرس لگنے کے فوراً بعد مر جاتے ہیں۔
Getty Images
کچھ جانوروں میں بیماری کی علامات بہت کم ظاہر ہوتی ہیں اور وہ صحت یاب ہو جاتے ہیں جبکہ بعض جانور وائرس سے متاثرہ ہونے کے فوراً بعد مر جاتے ہیں

کیا یہ چھونے سے پھیل سکتا ہے؟

بلیو ٹنگ جانوروں کے درمیان براہِ راست نہیں پھیلتی۔ یہ دراصل کاٹنے والے کیڑوں کے ذریعے پھیلتی ہے جو کسی متاثرہ جانور کو کاٹ کر وائرس اپنے اندر لے لیتے ہیں اور پھر ویکٹر یعنی وائرس کو منتقل کرنے والے کیڑے بن جاتے ہیں۔ جب یہی متاثرہ کیڑا کسی صحت مند جانور کو کاٹتا ہے تو وائرس اس تک منتقل ہو جاتا ہے۔

کاٹنے والے یہ کیڑے عموماً گرم موسم میں زیادہ فعال ہوتے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ کیڑے ہواؤں کے ساتھ کتنی دور تک سفر کر سکتے ہیں۔

یورپ میں بلیو ٹنگ کی تازہ ترین وبا 2023 میں نیدرلینڈز میں شروع ہوئی جس میں ہزاروں بھیڑیں مر گئیں۔ یورپ کے مین لینڈ سے ہواؤں کے ذریعے اُڑے ہوئے کیڑوں نے برطانیہ کے جنوب مشرقی حصے میں مویشیوں کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔

تاہم بلیو ٹنگ کا اثر مختلف علاقوں میں ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کچھ جانوروں میں بیماری کی علامات بہت کم ظاہر ہوتی ہیں اور وہ صحت یاب ہو جاتے ہیں جبکہ بعض جانور وائرس سے متاثرہ ہونے کے فوراً بعد مر جاتے ہیں۔

کاٹنے والے یہ کیڑے عموماً گرم موسم میں زیادہ فعال ہوتے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ کیڑے ہواؤں کے ساتھ کتنی دور تک سفر کر سکتے ہیں۔
Getty Images
کاٹنے والے یہ کیڑے عموماً گرم موسم میں زیادہ فعال ہوتے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ کیڑے ہواؤں کے ساتھ کتنی دور تک سفر کر سکتے ہیں۔

کون سے ممالک اس وائرس سے متاثرہ ہیں؟

ورلڈ آرگنائزیشن فار اینیمل ہیلتھ (ڈبلیو او اے ایچ) کے مطابق بلیو ٹنگ وائرس ان علاقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے جہاں کاٹنے والے کیڑے عام ہوں۔ یہ وائرس ان علاقوں میں باقی رہتا ہے جہاں کے موسم میں کیڑے سردیوں میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔

یہ وائرس کئی ممالک میں ملا ہے جن میں تونس، نائیجیریا، انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، لبنان، سپین، پرتگال، آسٹریلیا اور امریکہ شامل ہیں۔

افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک اور علاقے بلیو ٹنگ وائرس کو اینڈیمک بیماری (وہ بیماری جو کسی خاص علاقے یا خطے میں مسلسل یا عام طور پر پائی جاتی ہو) سمجھتے ہیں یعنی یہ وائرس وہاں کافی عام ہے اور اس کے پھیلاؤ کی شرح اور انداز متوقع ہے۔

ناردرن آئرلینڈ میں بیماری کے پھیلاؤ کا پتہ لگانے کے لیے 20 فارموں میں ٹیسٹنگ شروع کی جائے گی۔

ویٹرنری ڈاکٹر کلاڈیا سالازار کہتی ہیں: 'بیماری کی روک تھام کے لیے سب سے بہتر حل ویکسین ہے۔'
Getty Images
ویٹرنری ڈاکٹر کلاڈیا سالازار کہتی ہیں: ’بیماری کی روک تھام کے لیے سب سے بہتر حل ویکسین ہے‘

کیا اس وائرس کی ویکسین موجود ہے؟

بلیو ٹنگ کے خلاف ویکسینز موجود ہیں اور انھیں کئی ممالک میں استعمال کیا جا رہا ہے جن میں امریکہ، انڈیا، برطانیہ، چین اور ملیشیا شامل ہیں۔

ویٹرنری ڈاکٹر کلاڈیا سالازار کہتی ہیں: ’بیماری کی روک تھام کے لیے سب سے بہتر حل ویکسین ہے۔‘

’تاہم یہ علاقے کی معاشی صورتحال، کسانوں کے معاہدوں کی نوعیت اور ویکسین کی مارکیٹ میں دستیابی پر منحصر ہے۔ ان ممالک میں جہاں بلیو ٹنگ وائرس اینڈیمک ہے، وہاں عام طور پر اس بیماری سے نمٹنے کے لیے کوئی موجودہ پروٹوکول نہیں ہوتا۔‘

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمی تبدیلیاں ان پیٹرن کو بدلنے اور وائرس کو مزید ممالک میں پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

سالازار کہتی ہیں: ’سردیاں اب اتنی سرد نہیں رہی ہیں اور ہواؤں کے راستے بدل رہے ہیں جس سے کیڑوں کے پھیلنے اور وائرس منتقل ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔‘

’سب سے زیادہ خطرہ اُن علاقوں کو ہے جن کا پہلے وائرس سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ایسی صورت میں کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں جیسے احتیاطی ویکسینیشن، جانوروں کی نگرانی، قرنطینہ اور ٹیسٹنگ۔‘

جن علاقوں کو عموماً ’بلیو ٹنگ وائرس سے آزاد‘ سمجھا جاتا ہے وہاں عام پروٹوکول یہ ہے کہ جانوروں کو فوراً الگ کر دیا جائے تاکہ کیڑوں کے کاٹنے سے بیماری پھیلنے سے روکی جا سکے۔

عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمی تبدیلیاں ان پیٹرن کو بدلنے اور وائرس کو مزید ممالک میں پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
Getty Images
عالمی درجہ حرارت میں اضافہ اور موسمی تبدیلیاں ان پیٹرن کو بدلنے اور وائرس کو مزید ممالک میں پھیلانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جا سکتی ہیں؟

سالازار کا مشورہ ہے کہ کسان یا جو بھی مویشی رکھتا ہے، اسے اپنے ملک میں بلیو ٹنگ کے حوالے سے تازہ ترین ہدایات سے باخبر رہنا چاہیے۔

وہ کہتی ہیں کہ کیڑے مار اقدامات، جانوروں کی ویکسینیشن اور خطرے والے علاقوں کی نشاندہی، یہ سب ملا کر بلیو ٹنگ کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔

’یہ سب وائرس کے ویکٹرز یعنی کاٹنے والے کیڑوں پر کنٹرول کر کے ممکن ہے۔‘

سالازار مزید کہتی ہیں: ’ظاہر ہے کہ جانوروں کو ویکسین لگانی ہوگی لیکن ساتھ ہی یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ کیا دوسرے علاقوں سے جانور آ رہے ہیں جہاں بلیو ٹنگ عام ہے؟ ایسی صورت میں انھیں قرنطینہ میں رکھ کر ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔‘

برطانیہ میں محکمہ ماحولیات، خوراک اور دیہی امور کی سفارشات یہ ہیں:

  • جانوروں کو ذمہ داری سے خریدنا
  • بیماری کی علامات پر ہوشیار رہنا
  • جانوروں کو ایسے عمارتوں میں رکھنا جو کاٹنے والے کحروں کو اندر آنے سے روکتی ہوں
  • جگہ کی صفائی اور بایوسکیورٹی برقرار رکھنا
  • فارم کے کتے، بلی یا پالتو جانوروں کو ممکنہ طور پر متاثرہ مواد (جیسے اسقاط حمل یا بعد از ولادت) کھانے، چبانے یا کھیلنے نہ دینا
  • جانوروں کو مناسب اور منظور شدہ ویکسین لگانا

سالازار کہتی ہیں: ’بلیو ٹنگ بیماری ایک صدی سے ہمارے ساتھ ہے۔‘

’لیکن آخر میں یہ سب ہر ملک کی اس بیماری کے لیے حساسیت اور زرعی محکموں کے اقدامات پر منحصر ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US