خیال کیا جاتا ہے کہ ان بیڑوں کے ذریعے بین الاقوامی سمندروں کی حدود میں چینی جہازوں تک تیل منتقل کیا جاتا ہے اور اکثر ایسا برے موسمی حالات کے دوران کیا جاتا ہے جس سے یہ جاننا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ تیل کہاں سے آ رہا ہے۔

توانائی اور شپنگ کمپنیوں کے تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ٹینکروں میں جمع ہونے والے اور سمندر میں بحری جہازوں پر موجود ایرانی خام تیل کا حجم گذشتہ ڈھائی سالوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
’بلوم برگ‘ کی رپورٹ کے مطابق یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایران کی جانب سے دیگر ممالک کو تیل کی فراہمی کے اس نظام پر کتنا دباؤ ہے۔
اکثر یہ گمنام بیڑے ’میری ٹائم ٹرانسپونڈر‘ شناخت کا نظام بند کر دیتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں کہ وہ کسی اور مقام پر موجود ہیں جبکہ حقیقت میں وہ کہیں اور ہوتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ان بیڑوں کے ذریعے بین الاقوامی سمندروں کی حدود میں چینی جہازوں تک تیل منتقل کیا جاتا ہے اور اکثر ایسا برے موسمی حالات کے دوران کیا جاتا ہے جس سے یہ جاننا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ تیل کہاں سے آ رہا ہے۔
سمندری نقل و حمل پر نظر رکھنے والے ادارے ’کیپلر‘ کے مطابق پانچ کروڑ 20 لاکھ بیرل ایرانی تیل ’تیرتے ہوئے ذخیرے‘ میں ہے۔ یعنی کارگو لوڈ ہو چکا ہے، لیکن اُتارا نہیں جا سکا۔
’کیپلر‘ کا کہنا ہے کہ تقریباً ایک ماہ کے دوران یہ دگنا ہو گیا ہے بلکہ رواں برس کے آغاز پر یہ صرف ایک کروڑ بیرل تھا۔
’بلومبرگ‘ کے مطابق یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل کی برآمدات گذشتہ سات سالوں میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
توانائی سے متعلق اعداد و شمار جمع کرنے والی فرم ’ورٹیکسا‘ نے نومبر میں رپورٹ کیا تھا کہ اس سال ایران کی خام تیل کی برآمدات 15 لاکھ سے 17 لاکھ بیرل یومیہ کے درمیان تھیں۔ یہ گذشتہ برس اسے عرصے کے مقابلے میں چھ فیصد زیادہ اور 2023 کی سطح سے 25 فیصد زیادہ ہیں۔
’ٹی پاٹ‘ یا ’چائے کی کیتلی‘ جیسی ریفائنریاں ایران کے تیل کو صاف کرتی ہیں اور یہ ایسے نیم خودمختار کارخانے ہیں جو بڑے سرکاری کارخانوں کے متبادل کے طور پر کام کرتے ہیںکچھ دیگر کمپنیوں کے ڈیٹا نے حالیہ مہینوں میں ایران کی خام تیل کی برآمدات کا تخمینہ 20 لاکھ بیرل یومیہ سے زیادہ لگایا ہے اور بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ اکتوبر 2025 میں ایران کی خام تیل کی پیداوار 34 لاکھ بیرل یومیہ تک پہنچ گئی ہے۔
اس اعداد و شمار کی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ ٹینکروں میں ایرانی خام تیل کے جمع ہونے کی وجہ پیداوار یا اصل شعبے میں رکاوٹ نہیں ہے بلکہ خلیج فارس سے مشرقی ایشیائی بندرگاہوں تک تیل کی ترسیل اور منزل تک اس کی ترسیل کے راستے کے مسائل ہیں۔ یہ منزل زیادہ تر چین ہوتی ہے۔
خیال رہے کہ چین، ایرانی تیل کے بڑے خریداروں میں شامل ہے اور وہ لاکھوں بیرل خام تیل ایران سے منگواتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایرانی تیل کے چین تک پہنچنے کے روٹ میں بیک وقت کئی مسائل ہیں۔
’کیپلر‘ کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے تقریباً نصف ٹینکر ملائیشیا کے پانیوں میں لنگر انداز ہیں جہاں مبینہ طور پر ’کارگو ایک جہاز سے دوسرے جہاز منتقل کیا جاتا ہے اور دستاویزات میں ردوبدل کیا جاتا ہے۔ تاکہ یہ چھپایا جا سکے کہ یہ کارگو ایران سے نہیں بلکہ کہیں اور سے آیا ہے۔‘
لیکن یہ ٹینکر کیوں رُکے ہوئے ہیں؟ اس میں چین کی جانب سے ایرانی تیل منگوانے کے کوٹے، سخت امریکی پابندیاں اور تیل کی منڈی میں جغرافیائی سیاسی مسابقت جیسے پیچیدہ عوام کارفرما ہیں۔
چینی کمپنیوں کے لیے کوٹہ کی پابندیاں
چین حالیہ برسوں میں ایرانی تیل کی برآمدات کی اہم منزل رہا ہے۔ یہ ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور کیپلر کے اعداد و شمار کے مطابق، 90 فیصد سے زیادہ ایرانی تیل چین اور نجی ریفائنریوں کو جاتا ہے، جنھیں ’ٹی پوٹ ریفائنریز‘ کہا جاتا ہے۔
یہ نجی ریفائنریاں، پابندی کے شکار ایرانی تیل کی کھپت کا بڑا ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔ یہ ریفائنریز سستا تیل خریدنے پر آمادگی کی وجہ سے ایرانی تیل کی باقاعدہ صارف ہیں۔
لیکن کیپلر کے آئل مارکیٹ کے سینیئر تجزیہ کار ہمایوں فلکشاہی کے مطابق کمپنیوں کے خلاف امریکی دباؤ اور پابندیوں میں شدت کے علاوہ ایرانی تیل کے ’تیرتے ذخیروں‘ کی بڑی وجہ چینی کمپنیوں کے لیے تیل کی درآمد کا کوٹہ ہے۔
فلکشاہی نے بی بی سیفارسی کو بتایا کہ ’ایرانی تیرتے تیل میں غیر معمولی اضافہ مختصر مدت میں چینی مارکیٹ کی مخصوص خصوصیات سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ جیسے جیسے سال کا اختتام قریب آ رہا ہے، کچھ چینی کمپنیوں کا کوٹہ ختم ہو گیا ہے اور اب انھیں کسی بھی قسم کا خامتیل درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘
خام تیل کے درآمدی کوٹے چین کے مقامی مارکیٹ کے کنٹرول میں ایک اہم ذریعہ ہیں۔ بیجنگ عام طور پر یہ کوٹے سال میں تین یا چار بار جاری کرتا ہے تاکہ مقامی مارکیٹ کو کنٹرول کیا جا سکے اور قیمتوں میں حد سے زیادہ اتار چڑھاؤ کو روکا جا سکے۔
فلکشاہی کہتے ہیں کہ چینی حکومت نے نومبر میں نئے کوٹے کا اعلان کیا تھا، تاکہ آنے والے ہفتوں میں ایرانی خام تیل کے ’تیرتے ذخیرے‘کو کچھ کم کیا جا سکے۔
لیکن توانائی کے ماہر کے مطابق یہ مسئلہ زیادہ طویل مدت تک چلے گا کیونکہ بیجنگ چاہتا ہے کہ سرکاری آئل ریفائنریز اپنی پیداوار بڑھائیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سرکاری آئل ریفائنریز پابندی والا ایرانی تیل نہیں خریدتیں جبکہ زیادہ کوٹہ اُنھیں دیا جاتا ہے۔

ٹارگٹڈ امریکی پابندیوں میں شدت
اگر یہ سمجھا جائے کہ تیرتے ایرانی ذخیروں کی وجہ چین کی جانب سے کم کیا جانے والا کوٹہ ہے تو امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی گئی سخت پابندیاں بھی اس کی ذمہ دار ہیں اور اس کے مستقبل میں مزید گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
ایران کی برآمدات کے حجم کو کم کرنے میں ناکامی کے بعد، واشنگٹن نے اپنا نقطہ نظر تبدیل کیا اور صرف ٹینکرز پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے چین میں ان لوڈنگ انفراسٹرکچر کو تیزی سے نشانہ بنایا۔
بلومبرگ کے مطابق، واشنگٹن کے اہم ترین اقدامات میں سے ایک صوبہ شانڈونگ میں کلیدی ٹرمینلز کی منظوری دینا تھا، جو ایرانی تیل کے لیے ٹی پاٹ ریفائنریوں میں داخل ہونے کے لیے بہت ضروری ہیں۔
کیپلر کے ہمایوں فلکشاہی نے بی بی سی فارسی کو بتایا: ’مارچ سے امریکی پابندیاں زیادہ سختی سے لگائی گئی ہیں، اور واشنگٹن نے چینی کمپنیوں اور اداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جس میں مختلف بندرگاہیں بھی شامل ہیں جو ایرانی تیل کی درآمد میں سرگرم ہیں۔‘
ایرانی تیل کے کچھ صارفینپر براہ راست پابندیاں لگائی گئی ہیں اور اس کی وجہ سے دوسری کمپنیاں جو ایرانی تیل درآمد کرتی ہیں، انھیں بینکوں کے ساتھ معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
کیپلر کے مطابق تین چوتھائی ایرانی ٹینکرز، اس وقت امریکی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ فلکشاہی کے مطابق امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران سے چین تیل کی درآمد میں یومیہ دو سے تین لاکھ بیرل کمی آئی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ لاکھوں بیرل تیل کا پانی میں رہنا نہ صرف تکنیکی طور پر پیچیدہ ہے بلکہ اس کے لاجسٹک نتائج بھی ہیں۔
بلوم برگ کے مطابق ایرانی تیل پر رعایت جو اگست میں تقریباً چار ڈالرز تھی، نومبر میں وہ بڑھ کر آٹھ ڈالر ہو گئی ہے۔ اس اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لاکھوں بیرل تیل کے پانی میں رہنے سے خریداروں کی سودے بازی کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔
ایرانی تیل کی مارکیٹ ’پابندیوں کی منڈی‘ کا حصہ ہے۔ ایک چھوٹی، محدود اور پرخطر مارکیٹ جس میں ایران اکیلا نہیں ہے۔ روس بھی وسیع پیمانے پر مغربی پابندیوں کی وجہ سے اپنی کچھ کھیپ ایشیا کو بڑی رعایت پر فراہم کرتا ہے۔
ہمایوں فلکشاہی کہتے ہیں کہ ’روسی تیل کی قیمت میں حالیہ مہینوں میں نئی پابندیوں کی وجہ سے کمی ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایرانی تیل کی قیمت بھی گر گئی ہے۔‘
اُن کے بقول جب تک روسی تیل پابندیوں کی زد میں ہے، اس وقت تک ایرانی تیل کی قیمت بھی زیادہ نہیں بڑھ سکتی۔
فلکشاہی کہتے ہیں کہ جب مارکیٹ چھوٹی ہو جاتی ہے تو پھر خریداروں کی تعداد بھی محدود ہو جاتی ہے اور اسی طرح مسابقت بھی بڑھ جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایرانی تیل کی مارکیٹ، اچانک تبدیلیوں کے لیے بہت حساس ہے۔ کوئی بھی چھوٹی تبدیلی، نجی چینی ریفائنریز کا کوٹہ، امریکی پابندیاں یہ سارے وہ عوامل ہیں، جو مارکیٹ کے توازن کو بگاڑ سکتے ہیں۔
پابندیوں کے امتزاج کی وجہ سے پانی پر ذخیرہ شدہ ایرانی تیل کا مقابلہ سستے روسی تیل سے بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران اسے انتہائی کم سطح پر دھکیل دیا ہے۔
اس صورت حال میں کیا ایران کے پاس تیرتے تیل کو کم کرنے اور اسے زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کا کوئی طویل المدتی حل ہے؟
اس سوال کے جواب میں فلکشاہی کہتے ہیں:’جب تک چین اور ایرانی تیل پر ثانوی پابندیاں عائد ہیں، اس وقت تک ایران کے لیے کوئی نیا حل تلاش کرنے کا امکان نہیں ہے۔ یہ صورتحال برقرار رہے گی اور ایران صارفین کو راغب کرنے کے لیے اپنا تیل رعایت پر فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے گا۔‘