قائد کشمیر، رئیس الاحرار چودھری غلام عباس مرحوم

قائد اعظم کے کشمیر میں سیاسی جانشین سمجھے جانے والے قائد کشمیر کا یوم وفات ہے۔ آزاد کشمیر میں سرکاری تعطیل ہے۔ فیض آباد راولپنڈی میں آپ کے مقبرے پر پولیس کا دستہ روایتی طور پر سلامی دے گا۔ صدر اور وزیراعظم دیگر سمیت مقبرہ پر پھول نچھاور کریں گے۔ تقریب کا اہتمام ہو گا۔ جس میں روایتی انداز میں دعوے اور وعدے کئے جائیں گے۔ ان کے مشن پر چلنے کی باتیں ہون گی۔ ایک سال پہلے بھی یہی ہوا تھا۔ لوگ اپنے اسلاف کے مقبروں پر بھی سیاست کرتے ہیں۔ورنہ ان کے مشن پر چلنے کے نعرے یوں کھوکھلے ثابت نہ ہوتے۔ ان پر کچھ عمل کرنے کی جانب بھی توجہ دی جاتی۔ رئیس الحرار کی زندگی کی خواہش تھی کہ جنگ بندی لکیر عبور کی جائے۔ کے ایل ایم کا قیام بھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے تھا۔ یہ ان کی زندگی کا آخری فیصلہ تھا۔ گزشتہ 60سال میں بہر بار جنگ بندی لکیر توڑنے کے نعرے لگے مگر ان پر کوئی عمل نہ کر سکے۔ صرف سیاسی نعرے لگتے رہے۔ زیادہ تر نعرے صرف سیاست چماکنے کے لئے لگتے ہیں۔ عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اور مسلسل بے وقوف بنانے کے یہ حربے ہیں۔

4فروری 1904کو جموں میں ولادت پانے والی یہ شخصیت 18دسمبر1967کو اس دار فانی سے چل بسی۔ جس کے اس قوم پر احسانات بے شمار ہیں۔ مشن ہائی سکول جموں سے لاء کالج لاہور تک اور پرنس آف ویلز کالج سے پنجاب یونیورسٹی تک کا تعلیمی سفر یاد گار تھا۔ وکالت اور تدریسی خدمات سے اپنے کیریر کا آغاز کیا۔ پھر عمر بھر قوم کی وکالت کرتے رہے۔ تربیت کے فرائض انجام دیئے۔ جولائی 1931کو ہی ایل ایل بی کیا۔ جب ریاست پر ڈوگرہ سامراج کا تسلط تھا۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات مشتعل کئے جا رہے تھے۔ جموں کے مسلمانوں کی دل آزاری ہو رہی تھی۔ تب ہی طلباء اور نوجوانوں کی تحریک سے وابستہ ہوئے۔ ایک بیدار مغز اور باشعور انسان کسی بھی صورت میں ظلم اور نا انصافی برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ کبھی بھی زاتی مفاد کے لئے سمجھوتہ نہیں کرتا۔ اپنے بچوں کے روشن مستقبل کے لئے دوسروں کے بچوں کا مستقبل تاریک نہیں بناتا۔ یہی کسی سیاستدان کی بصیرت اور دردمندی کا پیمانہ ہو سکتا ہے کہ وہ خود کو قوم پر قربان کر دیتا ہے۔ کیوں کہ اسے تاریخ میں سنہرے لفظوں میں امر ہوجانا ہوتا ہے۔ نصیب اور مقدر والے ہی اس سے فیضیاب ہو سکتے ہیں۔ قوم کی قربانیوں پر سیاسی محلات تعمیر کرنے کے خواہشمند ایسا نہیں کرسکتے۔ قائد کشمیر کو اﷲ تعالیٰ نے قوم کے لئے کچھ کرنے کی صلاحیت دی تھی۔ 1932کو جب سرینگر میں مسلم کانفرنس قائم کی گئی تو انہیں اس کا جنرل سیکریٹری منتخب کیا گیا۔ مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے آپ کو رئیس الاحرار کا خطاب دیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح پہلی بار مئی1936کو کشمیر آئے تو انہوں نے مسلم کانفرنس کے اجتماع میں شرکت کی اور رئیس الاحرار نے ہی سپاسنامہ پیش کیا۔ قائد کشمیر اپنی سوانح عمری کشمکش میں لکھتے ہیں کہ اس موقع پر قائد اعظم سے پہلی بار مصافحہ کا موقع ملا۔1939میں مسلم کانفرنس کا نام بدل کر نیشنل کانفرنس رکھا گیا۔یہ فیصلہ سرینگر میں مجاہد منزل میں منعقدہ اجلاس میں ہوا۔ قائد ملت نے اس کی تائید کی۔ نومبر 1939میں میر پور میں اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور نیشنل کانفرس سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس سے پہلے دیوان گری رسم الخط پر اختلاف پیدا ہوا تھا۔مئی1940میں نیشنل کانفرنس سے مستعفی ہو گئے۔اکتوبر میں مسلم کانفرنس کے احیاء کا فیصلہ کیا 26فروری1942کو قائد ملت نے دوبارہ مسلم کانفرنس کی صدارت سنبھالی۔ ۔ نومبر 1942کو قائد کشمیر کی قائد اعظم سے دوسری ملاقات جالندھر میں سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس میں ہوئی۔ 1943میں میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ صاحب نے مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کی ۔تیسری ملاقات1944کو دہلی میں ہوئی جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ شاید یہی مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ میں پہلا سیاسی رابطہ تھا۔ انہوں نے قائد کو کشمیر کا دورہ اور مسلم کانفرنس کے سالانہ کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔ جو قبول کر لی گئی۔ اس بار قائد نے کشمیر کا دورہ کیا اور اڑھائی ماہ تک سرینگر میں رہے۔ مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس میں اختلافات ختم کرانے کی کوشش کی۔ کانگریس کی اصلیت سے باخبر کیا۔مگر مرحوم شیخ محمد عبداﷲ کانگریس اور متحدہ قومیت کے فریب میں لائے گئے تھے۔ رئیس الاحرار دو قومی نظریہ رکھتے تھے۔ اس لئے اختلافات ختم نہ ہو سکے۔ شیخ صاحب نے اپنی خود نوشت آتش چنار میں لکھا ہے کہ 1953میں مجھے جناح صاحب کی باتیں یاد آئیں ۔ وہ درست کہتے تھے۔ مجھے احساس ہوا کہ میری سوچ غلط تھی۔ قائد اعظم نے 16جون 1944کو مسلم کانفرنس کے 13ویں اجلاس سے خصوصی خطاب کیا۔ انہوں نے مسلم پارک(اقبال پارک سرینگر)میں منعقدہ اجلاس میں قائد کشمیر کے صدارتی خطاب کی تعریف کی۔ انہوں نے چودھری صاحب کو یقین دلایا کہ مسلم لیگ اور ہندوستان کے 10کروڑ مسلمان کشمیریوں کے ساتھ ہیں۔ قائد اپنے خرچہ پر سرینگر میں مقیم رہے۔ اس دوران چودھری صاحب کو بھی اپنے ہاں مدعو کرتے رہے ۔ جب کہ لاہور روانگی سے پہلے قائد کشمیر کو ضیافت میں مدعو کیا۔ قائد کشمیر کے سیکریٹری بشیر احمد قریشی لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد قائد کشمیر کراچی گئے۔ وہ مقررہ وقت سے ایک گھنٹے پہلے ہی گورنر جنرل ہاؤس پہنچ گئے۔ قائد اعطم کو اس بارے میں مطلع کیا گیا تو انہوں نے چودھری صاحب کو واپس بھجوا دیا اور وقت مقررہ پر آنے کے لئے کہا۔ جب قائد کشمیر مقررہ وقت پر گورنر ہاؤس پہنچے تو قائد اعظم نے گیٹ پر خود آ کر ان کا استقبال کیا اور پہلے واپس بھیجنے کی وجہ بیان کی کہ وہ خود گیٹ پر آ کر استقبال کرنا چاہتے تھے۔ یہ قائد کشمیر کا قائد اعظم احترام کرتے تھے۔ سکندر حیات خان صاحب نے بھی ایسا ہی بیان کیا ہے۔ 1924میں ینگ مینز ایسوسی ایشن کے جموں میں صدر رہنے سے وہ ریاستی مسلمانوں کی حالت زار پر نالاں تھے۔ ڈوگرہ غلامی سے آزادی کے لئے کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ جب ہندو سادھو انتہا پسند مسلمانوں کو ہندو بنا رہے تھے۔ انہوں نے اسے شدھی تحریک کا نام دیا۔ قائد کشمیر نے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ قیام پاکستان کی تحریک میں حصہ لیا۔ کئی بار جیل گئے۔وکالت کی ڈگری بھی جیل میں ہی حاصل کی۔1948میں جیل سے رہا ہوئے تو سیالکوٹ کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد ہی آزاد کشمیر کے نگران اعلیٰ مقرر ہوئے۔ انہیں کشمیری مہاجرین کی بحالی کے لئے قائم کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا۔ جس کمیٹی صوبائی وزرائے اعلیٰ رکن کے بطور شامل تھے۔ نومبر1951میں آزاد کشمیر کابینہ نے سرکاری طور پر آپ کو قائد کشمیر کا خطاب دیا ۔ مارچ1966میں میرپور میں مسلم کانفرنس کے 35ویں اجلاس کا افتتاح کیا اور زندگی کا آخری خطاب کیا۔ وفات کے بعد وصیت کے مطابق پاکستان میں تدفین ہوئی۔ ادارہ فیض الاسلام کے سربراہ میاں حیات بخش کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے تدفین کے لئے جگہ دی۔ نماز جنازہ لیاقت باغ میں میر واعظ مولوی محمد یوسف شاہ مرحوم نے پڑھائی۔ آ ج اس اراضی کو قبضہ مافیا اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے۔ اس پر تنازعہ بھی پیدا ہوا۔ تا ہم یہاں ایک لائبریری یا ریسرچ سنٹر قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ قائد کشمیر کی داستان زندگی سے یہ اہم سبق ملتا ہے کہ جب کوئی قوم منقسم ہوجاتی ہے، بوجوہ دھڑے بن جاتے ہیں۔ پارٹی، تنظیم، علاقے یا زات برادری یا فرقے کے نام پر لوگ الگ الگ طرف نکل پڑتے ہیں تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ تاریخ بھی اس تقسیم پر ماتم کرتی ہے لیکن مفاد پرست پھر بھی ہوش میں نہیں آتے۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 484052 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More