اٹھائیس (28) کلمَاتِ کُفر ۔ (دوسرا حصہ) ۔

محترم قارئین، السلامُ علیکم۔

جس سے معاذاللہ عزوجل کُفر صادِر ہوگیا اُسے چاہیے کہ دلائل میں اُلجھنے کے بجائے فوراً توبہ کرے۔ جس کا خاتمہ کُفر پر ہوگا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔

اعتراض کی صورت میں بکے جانے والے کُفریات کی مثالیں
17۔ جب اللہ عزوجل نے مجھے دُنیا میں کچھ نہیں دیا تو آخر پیدا ہی کیوں کیا! یہ قول کفر ہے۔
18۔ کسی مسکین نے اپنی محتاجی کو دیکھ کر یہ کہا، (اللہ عزوجل فُلاں بھی تیرا بندہ ہے، اسے تو نے کتنی نعمتیں دے رکھی ہیں اور ایک میں بھی تیرا بندہ ہوں مجھے کس قدر رنج و تکلیف دیتا ہے! آخر یہ کیا انصاف ہے؟)۔
19۔ کہتے ہیں اللہ عزوجل صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ میں کہتا ہوں یہ سب بکواس ہے۔
20۔ جن لوگوں کو میں پیار کرتا ہوں وہ پریشانی میں رہتے ہیں اور جو میرے دشمن ہوتے ہیں اللہ عزوجل ان کو بہت خوشحال رکھتا ہے۔
21۔ کافروں اور مالداروں کو راحتیں اور ناداروں پر آفتیں! بس جی اللہ عزوجل کے گھر کا تو سارا نظام ہی الٹا ہے۔
22۔ اگر کسی نے اپنی یا کسی عزیز کے بیماری، غربت یا مصیبت کی زیادتی کی وجہ اللہ عزوجل پر اس طرح اعتراض کیا مثلاً کہا، اے میرے رب! تو کیوں ظلم کرتا ہے؟ حالانکہ میں (یا اُس) نے تو کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ تو کہنے والا کافِر ہے۔

فوتگی کے موقعے پر بکے جانے والے کُفریات کی مثالیں۔
23۔ کسی کی موت ہوگئی اس پر دوسرے شخص نے کہا، (اللہ عزوجل کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔)
24۔ کسی کا بیٹا فوت ہوگیا، اُس نے کہا، اللہ عزوجل کو یہ چاہیے ہوگا۔ یہ قول کُفر ہے کیونکہ کہنے والے نے اللہ عزوجل کو محتاج قرار دیا۔
25۔ کسی کی موت پر عام طور پر لوگ بک دیتے ہیں، اللہ عزوجل کو نہ جانے اس کی کیا ضرورت پڑگئی جو جلدی بلا لیا یا کہتے ہیں، اللہ عزوجل کو نیک لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے اِس لیے جلد اُٹھا لیتا ہے۔ (یہ سُن کر معنی سمجھنے کے باوجود عموماً لوگ ہاں میں ہاں مِلاتے ہیں یا تائید میں سر ہلاتے ہیں ان سب پر حکم کفر ہے۔)
26۔ کسی کی موت پر کہا، اللہ عزوجل! اس کے چھوٹے جھوٹے بچوں پر بھی تجھے ترس نہ آیا!
27۔ جوان موت پر کہا، یا اللہ عزوجل! اِس کی بھری جوانی پر یہ رَحم کیا ہوتا! اگر لینا ہی تھا تو فَلاں بڈھے یا بڑھیا کو لے لیتا۔
28۔ یا للہ عزوجل! آخر اس کی ایسی کیا ضرورت پڑ گئی کہ ابھی سے واپس بلالیا۔

تجدید ایمان (یعنی از سر نو ایمان لائے) کا طریقہ۔
دِل کی تصدیق کے بغیر صرف زبانی توبہ کافی نہیں ہوتی، مثلاً کسی نے کُفر بک دیا، اُس کو دوسرے نے بہلا پُھسلا کر اس طرح توبہ کروا دی کہ کُفر بکنے والے کو معلوم تک نہیں ہوا کہ میں نے فلاں کُفر کیا تھا، یوں توبہ نہیں ہوسکتی، اُس کا کُفر بدستور باقی ہے۔ لہٰذا جس کُفر سے توبہ مقصود ہے وہ اُسی وقت مقبول ہوگی جبکہ وہ اُس کُفر کا کُفر تسلیم کرتا ہو اور دِل میں اُس کُفر سے نفرت و بیزاری بھی ہو جو کُفر سر زد ہوا توبہ میں اُس کا تزکرہ بھی ہو۔ مثلاً جس نے ویزا فارم پر اپنے آپ کو عیسائی لکھ دیا وہ اس طرح کہے،
(یا اللہ عزوجل میں نے جو ویزا فارم میں اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا ہے اس کُفر سے توبہ کرتا ہوں۔)

لَا اِلَہَ اِلّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللّٰہِ
"اللّٰہ کو سوا کوئی عبادت کو لائق نہیں، محمد ( صلی اللّٰہ علیہ وسلم) اللّٰہ کے رسول ہیں"

اس طرح مخصوص کُفر سے توبہ بھی ہوگئی اور تجدید ایمان بھی۔ اگر معاذاللہ کئی کُفریات بکے ہوں اگر یاد نہ ہو کہ کیا کیا بکا ہو تو یوں کہے، (یا اللہ عزوجل مجھ سے جو جو کُفر صادر ہوئے ہیں میں ان سے توبہ کرتا ہوں۔) پھر کِلمہ پڑھ لے، (اگر کلمہ شریف کا ترجمہ معلوم ہے تو زبان سے ترجمہ دہرانے کی حاجت نہیں۔) اگر یہ معلوم ہی نہیں کہ کُفر بکا بھی ہے یا نہیں تب بھی اگر احتیاطاً توبہ کرنا چاہیں تو اِس طرح کہیں۔
(یا للہ عزوجل اگر مجھ سے کوئی بھی کُفر ہوگیا ہو تو میں اُن سے توبہ کرتا ہوں۔) یہ کہنے کے بعد کِلمہ پڑھ لیں۔

(جاری ہے) ۔ ۔ ۔
Ahsan  Warsi
About the Author: Ahsan Warsi Read More Articles by Ahsan Warsi: 7 Articles with 15585 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.