شیخ الحدیث مولانا عبدالحنان فیضی سے ایک قلبی لگاؤ

جماعت کا وہ متاع گراں بے بہا نا رہا!
عبد الباری شفیق السلفی
مدیر ماہنامہ مجلہ‘‘النور’’ممبئی
استاذ جامعہ اسلامیہ،ممبرا، مہاراشٹرا

یہ دنیا فانی اور پانی کا ایک بلبلہ ہے یہاں لوگ آتے ہی ہیں جانے کے لیے،لیکن کائنات میں ایک ایسی بھی ہستی ہے جسے کبھی موت لاحق نہیں ہوگی جو دنیا کی تمام انس وجن چرند وپرند کا خالق ومالک اور روزی رساں ہے ۔ جس کے اختیار میں زمین وآسمان کا ہر ذرہ ہے ، اسکی اجازت کے بغیر نا تو درخت کا ایک پتہ جنبش کرسکتا ہے اور نہ ہی گر سکتا ہے کیونکہ اس کے یہاں ہر چیز کا ایک محکم نظام کے ساتھ مربوط ہے ،جس کے کچھ قواعد اور اصول ہیں جس کے مطابق فیصلے کئے جاتے ہیں اور امور انجاجم دیئے جاتے ہیں ،انسان کی پیدائش ،اس کی زندگی اور موت سب اسی نظام کا حصہ ہیں ،یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان دنیا میں آنکھ کھول رہا ہوتا ہے تو کوئی آغوش موت ہوکر آنکھ بند کررہاہوتاہے ۔ البتہ کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پیدائش پر شادیانے بجتے ہیں ،ماتم کیا جاتاہے ،جن کی یادیں دیرپا ہوتی ہیں ،جنہیں دنیا بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہیں پاتی اس لئے کہ ان کی وجہ سے منبرومحراب زندہ تھے ،قلم وقرطاس میں روانی تھی ،مسند درس وتدریس میں رونق تھی ،فکروعمل کے میدان میں مسکراہٹ تھی ایسے ہی ستودہ صفات افراد میں سے ایک اہم شخصیت ہمارے ممدوح ،جماعت اہلحدیث کے عظیم سپوت ومعروف عالم دین استاذالاساتذہ ،استاذ محترم ، استاذ محترم ، مفتی جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال حضرت مولانا عبد الحنان فیضی بن محمدزماں رحمانی بن نبی احمد بن داہورحمہم اللہ کی ہے ۔جنکی پیدائش آج سے تقریبا پچاسی سال پہلےماہ دسمبر ۱۹۳۴ ء مطابق ماہ رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ کو موضع انتری بازار، تحصیل شہرت گڑھ، ضلع سدھارتھ نگریوپی انڈیا میں ہوئی ۔آپ بڑے ہی ذہین وفطین اور بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔

ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ‘‘انتری بازار’’ کے مدرسہ بحر العلوم میں منشی علمدار مرحوم سے حاصل کی پھر ۱۹۴۷ء میں اپنے والد بزرگوار مولانا محمد زماں رحمانی کے پاس مدرسہ دار العلوم ششہنیا ں چلے گئے ،وہاں اپنے والد محترم کے ساتھ ساتھ مولانا عبد الجلیل رحمانی اور عبد القدوس ٹکریاوی رحمھمااللہ سے اکتساب فیض کیا اسکے بعد ۱۹۴۹ء میں آپ کے والد محترم خطیب الاسلام حضرت مولانا عبد الرؤف رحمانی ؒ کی دعوت و گذارش پر جب جامعہ سراج العلوم چلے آئے توساتھ میں آپ کو بھی اپنے ساتھ لیتے آئے ۔جہاں آپ نے خطیب الاسلام کے ساتھ ساتھ مولانا عبد الرحمن بجوائیؒ سے ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔پھر آپ اعلیٰ تعلیم کےحصول کے لیے جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن تشریف لے گئے اور وہاں اس وقت کے جید علماء سے بھر پور استفادہ کیا ۔


فراغت کے بعد آپ درس وتدریس نیز دعوت وتبلیغ کے لیےمدرسہ اسلامیہ کوئلہ باسہ ضلع بلرام پور میں تدریسی خدمات انجام دیا،پھروہاں سے مدرسہ سعیدیہ دارا نگر (بنارس ) چلے گئے۔ ۱۹۶۴ء میں خطیب الاسلام کے کہنے پر جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگرنیپال تشریف لے آئے۔ اسکے بعد کچھ سالوں کے لیےمرکزی دارالعلوم جامعہ سلفیہ بنارس تشریف لے گئے اور کچھ سالوں تک جامعہ سلفیہ بنارس میں بھی تدریسی خدمات انجام دیئے۔ اسکے بعد۱۶ اپریل ۱۹۷۸ء میں والد مرحوم کی وفات پردوبارہ جامعہ سراج العلوم تشریف لائے اور تاحیات یہیں کے ہوکر رہ گئے۔

ہمارے ممدوح ‘‘جنہیں ابنائےجامعہ سراج العلوم السلفیہ جھنڈانگر،کپل وستو، نیپال پیار و محبت سے دادا کہتے تھے ’’کی شخصیت اہل علم کے مابین محتاج تعارف نہیں ، آپ بہترین مدرس ومحقق کے ساتھ ساتھ بہترین داعی ومبلغ بھی تھے اپنے عہد شباب میں وہ ہند ونیپال کےمختلف علاقوں میں جاکر خطبہ جمعہ دیتے ، دینی و علمی پروگراموںمیں شرکت فرماتے اور اپنے ناصحانہ پند ونصائح سے عوام الناس کو مستفید کرتے تھے راقم الحروف کو فخر ہے کہ آپ جیسے بزرگ عالم دین ، خدا ترس، نیک و صالح اور امانت دار ودیانت دار عالم دین کی صحبت و شاگردی کا شرف حاصل ہے۔

آپ نے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں ناچیز کو2008-2007ء میں عقیدہ کی ایک جامع کتاب ‘‘شرح العقیدۃ الواسطیہ خلیل الہراس ’’ پڑھائی۔ آپ کے تدریس کا انداز بہت نرالا تھا آپ نہایت ہی سلیس او ر شستہ انداز کے ساتھ عربی عبارتوں کی تشریح وتوضیح کرتے تھے کہ عقیدۃواسطیہ جیسی دقیق کتاب بھی با آسانی سمجھ میں آجاتی تھی ۔

دادا ؒ کو اللہ تعالیٰ نےتقریبا پچاسی سال کی طویل عمر سے نوازا تھا ،پیرانہ سالی میں کچھ امراض میں بھی شکارتھےمگر دین اسلام اور طلبہ سے محبت کاشغف کبر سنی میں بھی درس وتدریس اور فتوی نویسی کاکام بخوبی انجام دینےسے مانع نہیں تھیں ۔

آپ کی ایک خاص صفت یہ بھی تھی کہ وہ طلبا کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہنساتے بھی تھے ، طلبا میں کافی گھل مل کررہنا آپ کو بے حد پسند تھا ۔کثرت سے پان کھانے کی وجہ سے آپ کے ہونٹ وزبان ہمیشہ لال رہتے تھے، کندھوں پر ہمیشہ لال گمچھہ (انگوچھا) رہتا تھا جس سے پسینہ و پان وغیرہ پوچھا کرتےتھے، داڑھی سفید اورلمبی نیز مونچھ باریک رکھتے تھے،پان کے کثرت استعمال سے سامنے کی داڑھی بھی لال ہوگئی تھی ۔(آخری ایام میں ڈاکٹر کے مشورہ سے شاید آپ نے پان کھانا چھوڑ دیا تھا)آپ سانولے رنگ اور گٹھیل جسم کے تھے ،آخری ایام میں چلنے اور سیڑھیوں سےاترنےمیں کافی دقت ہوتی تھی جس کی وجہ سے ناظم صاحب کی طرف سے آپ کو ایک خاص کمرہ دیاگیا تھا جس میں بلاکر طلبہ کو درس دیا کرتے تھے ،آپ ایک محنتی اور مستقل مزاج نیزنیک سیرت جیسی بے شمارصفا ت عالیہ سے متصف تھے۔

ہمارے ممدوح استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عبد الحنان فیضی ؒ کو کبر سنی ہی میں مختلف مہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا خاص طور سے ۲۰۰۸ء مین عارضہ قلب لاحق ہوا جس کی وجہ سے لکھنؤ کے میڈیکل کالج کے شعبہ قلب کے مرکز ‘‘لاری کارڈ لوجی’’میں ایڈمٹ کیا گیا یہاں ہارٹ آپریشن کے ذریعے بیس میکر لگایا گیا آپریشن الحمد اللہ کامیاب تھا لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد ذیابیطیس اور دمہ (تنفس) جیسی خطرناک بیماریوں کا آپ پر حملہ ہوا ۔ادھر بڑھاپا ادھر بے شمار بیماریاں جس نے آپ کا چلنا دوبھر کردیا اور کچھ ہی دنوں بعد وہ وقت بھی آگیا کہ ملک الموت اللہ کا پیغام لیکر حاضر ہوگیا اور ۳ فروری ۲۰۱۷ء بروز جمعہ مطابق ۶ جمادی الاولی ۱۴۳۸ء کی رات تقریبا سوا دس بجے حدیث رسول کا یہ عظیم سپاہی اور جماعت اہل حدیث کا متاع گراں بے بہا اپنے پیچھے ہزاروں طلبہ وطالبات نیز لاکھوں محبان و سوگواروں کونمناک چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے ہم سے رخصت ہوگیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللھم اغفر لہ وارحمہ رحمۃ واسعۃ۔

چونکہ میرا گاوں (اکرہرا )جامعہ سے نزدیک ہے اور میرے اکثر ساتھی یومیہ گھر سے آجاکرپڑھتے تھےاس لئے دادا رحمہ اللہ اکثر مجھ سے اور ہمارے آنے جانے والے ساتھیوں سے کبوتر اور نیم کا مسواک منگایا کرتے تھے، چونکہ آپ کو مسواک کافی پسند تھا نیز احادیث نبویہ کی روشنی میں دادا مرحوم اکثر نیم کا مسواک کیا کرتے تھےاور ۔۔۔۔۔۔۔ فلاں بیماری میں چونکہ کبوتر کا گوشت کافی مفید ہوتا ہے اس لیے کبوتر کا گوشت وقتا فوقتا کھایا کرتے تھے۔لہذا میں اپنے گاوں اور پڑوس کے گاوں کھجوریہ سے اکثر دادا کے لئے کبوتر لایا کرتا تھا جس پر داد ا بتہت خوش ہوتے اور دعائیں دیتے تھے ۔ اللہ آپ کو غریق رحإت کرے ا،حسابات کو قبول فرمائےے اور بشری لغزشوں کو درگذر فرما کر اعلایی اعلین میں العیلی مقام پر فائز فرمائے۔

اللہ نےاستاذ محترم کو بہت لمبی عمر دی تھی ان ایام میں آپ نے اپنے پیچھے بے شمار طلبہ وطالبات کو چھوڑاہے جن میں کافی طلبہ ہند وبیرون ہند میں اچھے عہدوں پر فائز ہیں ان میں سے کچھ تو بہترین محرر ومقرر ہیں تو کوئی بہترین مدرس وداعی ہےآپ کے ان طلبا میں بطور خاص مولانا صلاح الدین مقبول مدنی ، ڈاکٹر وصی اللہ عباس مدنی ،ڈاکٹر رضاءاللہ محمد ادریس مبارکپوری، ڈاکٹر عزیر شمس ،ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ مدنی، مولانا رضاءاللہ عبدالکریم مدنی، مولانا عبد المعید علی گڑھی، مولانا محمد مستقیم سلفی، ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری، مولانا محمد الیاس مدنی الباروی، مولانا عبد القیوم سلفی، مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری ، ڈاکٹر الطاف الرحمن مدنی ، مولانا عبد الواحد مدنی اور مولانا وصی اللہ عبد الحکیم مدنی اور آپ کے فرزند ارجمندمولانا عبد المنان سلفی نیز راقم السطور (عبد الباری شفیق السلفی اکرھروی) وغیرھم خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ یہ تمام بزرگ ہستیاں جنہوں نےآپ سے اکتساب فیض کیا ہے اورجن میں سے اکثر دین کی نشر واشاعت میں لگے ہوئے ہیں جوکل قیامت کے دن ان شاء اللہ العزیز آپ کی نجات اور دخول جنت کا سبب بنیں گے۔

دعا ہے کہ مولیٰ استاذ محترم مفتی جامعہ دادا عبد الحنان فیضی ؒ کی بشری لغزشوں کو معاف فرماکر کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فرزند ارجمند استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کی عمر دراز کرے اور آپ کی زبان وقلم میں روانگی وتاثیر پیدا فرمائے۔آمین۔

(یہ بات ذہن نشین رہے کہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال کے دور طالب علمی میں ہمیں دونوں بزرگوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہے) اللہ ہم سب کو کثرت سے اعمال حسنہ کرنے ،اپنے والدین ، اساتذہ کرام نیز دنیا کے تمام مسلمانوں کے حق میں دعا خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کی بشری لغزشوں کو معاف فرماکر جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آمین !

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 133937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.