بھارت کا بھیانک روپ پھر بےنقاب

عالمی تنظیم واک فری فاؤنڈیشن نے انڈیا کا ایک اور گھناؤنا روپ بے نقاب کردیا۔ عالمی تنظیم ’’واک فری فاؤنڈیشن‘‘ نے دنیا میں غلاموں کی تعداد پر 2016ء کی سالانہ رپورٹ پیش کی تھی۔ اس رپورٹ کے مطابق 2016ء میں پوری دنیا میں چار کروڑ افراد غلام تھے۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی کہ ان میں سے آدھے غلام یعنی تقریباً دو کروڑ افراد صرف انڈیا میں غلام ہیں۔ اس سے بھی چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی خبر بھارت کے سینکڑوں نیوز چینلوں اور ہزاروں اخبارات میں کہیں جگہ نہ پا سکی۔ یہ خبر بعض اخبارات میں اب اس لئے سامنے آئی کیونکہ بھارتی میڈیا اپنے ملک کے خلاف حقیقی خبریں چھپاتا اور دباتا ہے۔ بھارت کی خفیہ انٹیلی جنس بیورو نے بھارتی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس رپورٹ سے بین الاقوامی سطح پر انڈیا مشکل میں پڑ سکتا ہے۔ واک فری فاؤنڈیشن آسٹریلیا کے ایک ارب پتی اینڈ ریوفارسٹ نے 2012ء میں قائم کیا تھا اور اس کا مقصد دنیا سے غلامی کا خاتمہ کرنا ہے۔ جدید دور میں غلامی کے زمرے میں ایسے گھریلو خادم، تعمیراتی مزدور، زرعی مزدور اور فیکٹری ورکرز شامل ہیں جنہیں ڈر یا جبر کے تحت اپنی مرضی کے خلاف کام کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے زمرے میں اکثریت ان خواتین یا لڑکیوں کی ہے جن کی شادی ان کی مرضی کے بغیر کسی سے کردی جاتی ہے اور ان کا استعمال اکثر مزدور یا سیکس ورکر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ فاؤنڈیشن نے ستمبر 2017ء میں جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق انڈیا میں غلاموں کی تعداد تقریباً دو کروڑ ہے۔ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے انڈیا میں 27 کروڑ سے زیادہ لوگ غریبی کی سطح کے نیچے زندگی گزارتے ہیں۔

فری واک فاؤنڈیشن کو امریکی ارب پتی بل گیٹس، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور امریکہ کی سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی حمایت حاصل ہے۔ بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق انڈیا کے انٹیلی جنس بیورو نے حکومت اس لیے بھی خبردار کیا ہے کہ ستمبر کی رپورٹ کی تیاری میں اقوام متحدہ کا ادارہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن یعنی آئی ایل او بھی شامل تھا۔

بھارت میں صرف غریبوں اور غلاموں پر ہی دن روشن نہیں سیاہ اور راتیں تاریک تر ہیں۔ ایسے بدترین نظام اور مظالم کا شکار وہاں کی اقلیتیں بھی ہیں۔

ہندوازم مساوات انسانی کے تصور سے خالی ہے بلکہ اس کے برعکس ذات پات پر یقین ہندومت کا بنیادی عنصر ہے۔ ’’ورنا‘‘ ہندو دھرم کی بنیاد ہے۔ ’’ورنا‘‘ سنسکرت کا لفظ ہے جس کا تعلق رنگ سے ہے اس لئے ابتدائی طور پر ذات پات کی بنیاد کالا یا گورا رنگ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذات پات سماج کا حصہ بن گئی۔ ذات پات کی تقسیم نے انسانوں کو کئی طبقوں اور قوموں میں بانٹ دیا ہے۔ ہر طبقے کو مختلف فرائض و وظائف سونپے جاتے ہیں اور غیر مساوی سلوک کو اسی بنیاد پر روا رکھا جاتا ہے۔ ہندو مت پر یقین رکھنے والے روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ اشخاص بھی ذات پات کے قائل ہیں البتہ وہ اس کا جواز ’’کرومو سوم‘‘ کی جدید تحقیق میں تلاش کرتے ہیں۔ رادھا کرشنن لکھتے ہیں۔ ’’ہمارے جسم کا ہر سیل کروموسوم کا حامل ہے جو ہمارے وجود، ہمارے قد کاٹھ، ہمارے وزن، ہماری شکل و شباہت، ہمارے رنگ، ہمارے اعصابی نظام، ہمارے مزاج، ہماری ذہانت اور قوت غریزہ کا تعین کرتا ہے۔ ہر سیل میں آدھے کروموسوم باپ کی طرف سے اور ان کی آدھی تعداد ماں کی جانب سے منتقل ہوتی ہے اور اس طرح ہمیں اپنے آباؤ اجداد کی عادات اور صلاحیتیں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ کوئی حماقت یا پاگل پن جو ہمارے والدین، دادا، دادی، پرداداد، پردادی سے سرزد ہوئی تھیں وہ ہمارے بچوں اور پھر ان کے بچوں میں منتقل ہوتی رہیں گی۔ ہندو مفکرین نے اپنے وجدان یا مشاہدے کے عمومی اصول سے ’’توارث‘‘ کے اس اصول کو جان لیا اور ان لوگوں میں شادیاں کرنے کی حوصلہ افزائی کی جو صلاحیت اور ذات میں ہم پلہ ہوں۔ اگر ایک اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک نیچ ذات والے فرد سے شادی کریگا تو اس طرح اعلیٰ درجہ کا ورثہ نیچ ذات والے سے مل کر نیچ ہو جائیگا‘‘۔
ترجمان حقیقت، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی شودر کے ساتھ انسانی وقار کے منافی امتیازی سلوک کا دکھ اور کرب بڑی شدت سے محسوس کیا اور یہ کہے بغیر نہ رہ سکے ۔
آہ شودر کیلئے ہندوستان اک غم خانہ ہے
دردِانسانی سے اس بستی کا دل بے گانہ ہے

ذات پات پر مبنی ہندو دھرم میں سب سے نچلی ذات کہلانے والے شودر کو کبھی شودر رہتے ہوئے ہندو دھرم میں انسانی وقار اور مرتبہ نصیب نہیں ہوسکتا اس انسانی المیے کو رنج و الم سے محسوس کرتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے بھی تمنا کی تھی ۔
نہ امتیاز رہے ذات پات کا کچھ بھی
ہر ایک لڑکی شودر کی برہمنی ہو جائے

آریا ہندو سماج کی منافقانہ جارحیت پسندی کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ وہ بیک زبان ہوکر اپنے مفاد کی تشریح تو کسی بھی مقامی یا بیرونی عقل و دانش کے باعث جنم لینے والی تحریک سے نکال لیتی ہے کہ کسی کو گمان تک نہیں ہوتا کہ اس تحریک یا تہذیب کو ماضی میں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے ہندومت نے کتنے سخت گیر طریقے استعمال کئے تھے۔ اس کی مثال اس طرح ہی ہے جیسے قدیم ہندو تاریخ میں اشوک بادشاہ کی دہشت گردی پر مبنی قتل و غارت گری، تباہی و بربادی اور اس ماردھاڑ کے بل بوتے پر ہندوستان میں ایک وسیع و عریض ہندو ریاست کا منظر عام پر آنا تو منظور اور اس حوالے سے اشوک بادشاہ کی بہادری و شجاعت پر مبنی علامت تو منظور لیکن اشوک کا بدھ مت قبول کرکے مرتے دم تک دنیا بھر میں امن و انصاف کی علامت بننا بیرونی ممالک میں گوتم بدھ کی سفارتیں بھجوانا، بدھ کے مجسمے اور بدھ کی تعلیمات سلطنت کے دور دراز علاقوں میں کندہ کرانا نامنظور کیونکہ ہندو اس بدھ ریاست کو ہندو ازم کا ورثہ تسلیم نہیں کرتے یعنی اشوک کی ہندو بربریت اور دہشت گردی کی علامت تو منظور لیکن اسی اشوک کی عدل و انصاف اور امن و امان کی وسیع و عریض بدھ ریاست نامنظور۔

Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 39116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.