نفسِ ذکیہ - قسط٢٦

ابھی دو ہی دن ہوئے تھے کہ میں واپس گھر آیا تھا اور آج پھر میں ’’روشن‘‘ کی طرف کھچا چلا جا رہا تھا۔ وہ جگہ ہی ایسی تھی۔ جیسے جنت کا ٹکڑا۔۔۔ وہی اونچے اونچے گھنے درخت۔۔۔ سر سبز و شاداب باغ۔۔۔ آبشاریں۔۔۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں۔۔۔ گہرے سائے۔۔۔ پرندوں کی چہچہاہٹ۔۔۔ پانی کے حوض اورتالاب۔۔۔ ’’روشن‘‘ میں داخل ہوتے ہی دل خوش ہو گیا۔

شام کا وقت تھا۔ڈاکٹر ذیشان کچھ مریضوں کے جھرمٹ میں درمیان میں بیٹھے تھے۔ وہ انہیں حکمت و فہم کی باتیں بتا رہے تھے۔ وہی سفید رنگ کے صاف و شفاف شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے وہ سب نیچے ہی گھاس پر ایک بڑی سی چٹائی بچھائے بیٹھے تھے۔ ان کا لامبا قد اور با رعب ڈیل ڈول ہر ایک کے لئے باعثِ رشک تھا۔ ہمیشہ کی طرح ان کی نورانی صورت دیکھتے ہی میں ایک انجان اور پرسرار توانائی سے بھر گیا۔ ایک جوش سا پیدا ہو گیا۔ میرے قدم تیز ہو گئے۔ میں جلدی جلدی چلنے لگا کہ آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ جاؤں۔ کچھ قریب پہنچتے ہی ڈاکٹر ذیشان نے بھی مجھے دیکھ لیا ۔ وہ خوش ہہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کھل کھلا کر ہنسے اور لوگں کو ایک طرف کرتے ہوئے آگے بڑھ کر مجھے گلے لگا لیا۔

’’ خوش آمدید بر خوردار! خوش آمدید!‘‘ڈاکٹر ذیشان نے پر جوش انداز میں فرمایا۔ میں بھی کھل اٹھا۔
’’تو آ گئے واپس!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے ایسے کہا جیسے انہیں پوری امید تھی کہ میں واپس آؤ ں گا۔
’’ہاہاہا۔۔۔ جی آ گیا!‘‘ میں بھی ہنسنے لگا۔’’۔۔۔ اور کہاں جاؤں؟ اب تو یہیں مجھے سکون ملتا ہے!‘‘ میں نے کہا اور پھر ہنسنے لگا۔
’’خوش آمدید ! خوش آمدید!‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے دہرایا۔

ہم دونوں باقی افراد سے دور ہو کر لان میں رکھے ایک بڑے سے بینچ پر بیٹھ گئے۔
’’سر! میں آپ کی طرح بننا چاہتا ہوں۔۔۔ میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ ان کا دْکھْ سکھ میں بدلنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے فوراََ ہی بات شروع کر دی۔
’’میری مدد کریں پلیز۔۔۔ مجھے بھی ’’روشن‘‘ سے جوڑ دیں۔ مجھے بھی اپنے ساتھ ملا لیں!‘‘ میری آنکھوں میں نمی آ گئی۔ میں نے سیدھے سادے الفاظ میں اپنے دل کی بات کہہ دی۔
’’کیوں نہیں! کیوں نہیں! ضرور ضرور!‘‘ ڈاکٹر ذیشان بولے۔ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے رکھے تھے۔ ’’اس سے ذیادہ خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے!!!‘‘ انہوں نے جوشیلے لہجے میں کہا۔
’’ہم سب مل کر کام کریں گے۔ دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ معاشرے سے فتنہ و فساد کا قلع قمع کریں گے۔ اچھائی کی ترویج کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘
ڈاکٹر ذیشان بولتے جا رہے تھے۔ میں ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔ ان کے زبان سے نکلا ہر ہر لفظ میرے دل پر اثر کر رہا تھا۔

میں نے اسی دن باقائدہ طور پر ’’روشن‘‘ میں ایک ’’والنٹیئر‘‘ کی حیثیت سے رجسٹریشن کروا لی۔ میرا دل ایسا بڑا ہو گیا تھا جیسے میں نے کوئی پہاڑ سر کر لیا ہو۔ خود سے محبت ہونے لگی۔ سب کچھ اچھا اچھا لگنے لگا۔ ایک گہرے سکون اور اطمینان کی کیفیت سے دل لبریز ہو گیاتھا۔ اس دن مجھے ’’روشن‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم اور ڈاکٹر ذیشان کی ذات میں ایک بہترین رہنما مل گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔

میں نے پہلے کی طرح روز آفس جانا شروع کر دیا۔ اسٹور کے معاملات پھر سے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ میرے چھوٹے بھائی اسد نے اس مشکل وقت میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر گھر کا ساتھ دیا تھا۔ وہ ابھی سترہ اٹھارہ سال کا ہی تو تھا۔ اس نے اس عمر میں کالج کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ بزنس میں بھی ابو جان کا ہاتھ بٹایا۔

تمام ملازمین میرے قصے سے واقف تو تھے ہی مگر کبھی کسی نے اس بارے میں مجھ سے بات نہ کی۔ سب کچھ پہلے کی طرح نارمل ہو گیا۔ اگر کوئی فرق تھا تو صرف اتنا کہ اب ’’روشن‘‘ بھی میری زندگی کا ایک بے حد اہم حصہ بن چکا تھا۔ میں ہفتے میں دو دن ضرور ’’روشن‘‘ کا چکر لگاتا اور ڈاکٹر ذیشان کی تعلیم اور حکمت سے اپنے باطن کو منور کرتا۔’’روشن‘‘ مفرے لئے دوسرے گھر کی مانند ہو گیا تھا۔ میں بہت دل لگا کر وہاں کے طریقہ کار کو سمجھتا ۔ جاننے کی کوشش کرتا کہ کس طرح ڈاکٹر ذیشان اتنا بڑا خدمت کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔ ان سے سیکھتا ۔۔۔ خود کی تربیت کرتا۔ دن بدن میں میری روح و قلب روشن ہوتا جا رہا تھا۔ اب میں وہ پہلے والا ذولقرنین نہیں رہا تھا جس کی سوچ خود ہی پر شروع اور خود ہی پر ختم ہو جاتی تھی۔اب پتا چل گیا تھا کہ اصل مزہ تو اس میں ہے کہ اپنی ذات سے اس دنیا کی بہتری کے لئے کچھ کیا جائے۔ انسانوں کو پہلے سے بہتر حالت پر لانے کی کوشش کی جائے۔ انہیں جینے کا ڈھنگ سکھایا جائے۔ انہیں آگے بڑھانے کی سعی کی جائے ۔انہیں روشن کیا جائے۔۔۔ کہ جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو ہماری موجودگی اس کے رہنے والوں کے لئے بہتری اور فائدے کا باعث بنی ہو۔

ایک دن میں معمول کے مطابق صبح سویرے اٹھا۔ آج مجھے آفس بھی جانا تھا اور ’’روشن‘‘ بھی۔ ابھی میں اپنے بستر پر ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ بجا۔
’’بیٹا! بیٹا! اٹھ گئے؟؟؟ ‘‘ یہ امی جان کی آواز تھی۔
مجھے کچھ تشویش سی ہوئی کہ امی کیوں دروازہ کھٹکھٹا رہیں ہیں۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔
’’بیٹا! دلاور کی والدہ فوت ہو گئیں ہیں۔۔۔‘‘ امی نے دروازہ کھلتے ہی کہا۔
’’دلاور کی۔۔۔ ‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔’’انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘
’’جی۔ رات کو ہسپتال میں ہی تھی وہ لوگ۔۔۔ بس اچانک دل کا دورہ پڑا اور۔۔۔‘‘ امی نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ دلاور کی ساری فیملی ہمارے پڑوس میں ہی رہتی تھی۔ بہت سالوں سے ہم پڑوسی تھے۔ اب دلاور اور کچھ بھائی وہاں سے الگ ہو گئے تھے۔ مگر ان کی والدہ وہیں رہتیں تھیں۔
’’ابو گئے ہیں؟؟؟‘‘ میں نے بیڈ پر بیٹھے بیٹھے ہی پوچھا کہ ابو تعزیت کے لئے چلے گئے یا نہیں۔
’’جی بیٹا! وہ وہیں ہیں۔ ابھی میں بھی جاؤں گی۔ آپ کے اٹھنے ہی کا انتظار کر رہی تھی۔‘‘ امی نے کہا اور پلٹ کر کچن کی طرف چلی گئیں۔

’’انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘ میں نے ایک بار پھر کہا اور افسوس کرنے لگا۔ مجھے بار بار دلاور کا خیال آ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے ہاتھ منہ دھویا اور موبائیل اٹھا کر دلاور کا نمبر ملایا۔
کسی نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے ایک جھرجھری لی۔ یونہی خیال آنے لگا کہ جانے اسے اس بری خبر کی اطلاع بھی ملی ہے کہ نہیں۔ میں نے پھر فون ملایا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
میں نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور شلوار قمیص پہن کر مجدی کو فون کیا۔
’’ہیلو مجدی! کہاں ہو؟‘‘ مجدی نے فوراََ ہی فون اٹھا لیا تھا۔
’’ہاں یار! میں تمہاری طرف ہی آ رہا ہوں۔ دلاور کی والدہ فوت ہو گئیں ہیں۔‘‘ مجدی کو اطلاع مل چکی تھی۔
’’ہاں یار۔۔۔ میں بھی وہیں جا رہا ہوں۔ مگر دلاور فون نہیں اٹھا رہا!!‘‘ میں نے آگے کچھ نہ کہا۔
’’پتا نہیں۔۔۔ میرا بھی فون ریسیو نہیں کر رہا۔‘‘ مجدی بھی کئی بار اس کا نمبر ملا چکا تھا۔

گھر سے باہر نکلتے ہی سڑک پر شامیانے لگے ہوئے نظر آئے۔ بہت سے لوگ وہاں کرسیوں پر بیٹھے ایک دوسرے سے سرگوشی کر رہے تھے۔ میں بھی وہیں چلا گیا۔ ابو جی پہلے سے ہی دلاور کے ایک بھائی کے ساتھ بیٹھے تعزیتی کلمات ادا کر رہے تھے۔ میں نے بھی ان سے سلام کیا اور افسوس کا اظہار کیا۔

’’دلاور کہا ں ہے بھائی جان؟؟؟‘‘ میں نے دلاور کے بڑے بھائی سے پوچھا۔
’’ام م م۔۔۔ ‘‘ انہوں نے ایک طرف کو دیکھا۔ جیسے ان کے پاس اس سوال کا جواب نہ ہو ۔
’’یار وہ۔۔۔ ‘‘ وہ کرسی سے اٹھے اور میں بھی ان کے ساتھ ایک طرف کو باقی لوگوں سے الگ ہو کر چلنے لگا۔’’یار۔۔۔ اس کا۔۔۔ پتا نہیں وہ کہاں ہے؟ ہم سب صبح سے اسے فون کر رہے ہیں مگر کوئی جواب ہی نہیں آتا۔‘‘
’’ ابھی اس کے گھر کا پتا چلا ہے۔ کچھ کزنز وہاں گئے ہیں۔۔۔ جانے وہ کہاں ہے۔۔۔‘‘ دلاور کے بھائی کی یہ بات سن کر میرے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ شاید کبھی کوئی دلاور سے ملنے اس کے گھر نہیں گیا تھا۔
’’اچھا میں دیکھتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور فوراََ اپنی گاڑی کی طرف لپکا۔ میں نے مجدی کو فون کر کے دلاور کے گھر جانے کو کہا۔

میں اور مجدی تیز تیز گاڑی دوڑاتے ہوئے اس کے گھر پہنچے جو دور ٹیفیس کے ایک بڑے سے گھر کا ایک پورشن تھا۔ ہم نے اس کے گھر میں موجود چوکیدار کو ساری بات بتائی اور دلاور کے کمرے کی طرف بڑھے۔

’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔ ‘‘ میں نے زور سے اس کے کمرے کا دروازہ بجایا۔
دلاور مزے سے اپنے بستر پر سو رہا تھا۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔‘‘ میں نے پھر دستک دی۔ دلاور نیند کی وادیوں سے باہر آنے لگا۔صبح کے دس بج رہے تھے ۔ دلاور کو کچھ حیرانی ہوئی کہ اس وقت کون آ گیا ہے۔
’’دلاور ۔۔۔ ہم ہیں۔۔۔مجدی اور میں۔۔۔ ذولقر۔۔۔‘‘ دلاور ہماری آواز سن کر اٹھ بیٹھا۔
تھوڑی ہی دیر میں اس نے دروازہ کھول دیا۔
’’یار تم کال کیوں نہیں پک کر رہے؟؟؟‘‘ میں نے اونچی آواز میں کہا۔
’’ ہیں۔۔۔ کیوں کیا ہوا؟؟؟‘‘ دلاور ابھی بھی نیند میں ہی تھا۔ اس نے ایک طرف کو رکھے سائیڈٹیبل سے اپنا فون اٹھاکر دیکھا۔ اس پر بہت سے لوگوں کی دس پندرہ کالیں آئیں ہوئیں تھیں۔ اسی ٹیبل پر دو تین بیئر اور وسکی کی چمکتی بوتلیں بھی رکھیں تھی۔ میں دلاور کے کمرے کی حالت دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ رات بھر یہاں کیا ہوا ہے۔
’’یار یہ سائلنٹ پر تھا۔۔۔‘‘ دلاور نے منہ بنا کر کہا اور بستر پر ہی بیٹھ گیا۔
’’کیا ہوا؟؟؟‘‘ وہ ٹکٹکی باندھے ہم دونوں کو دیکھنے لگا کہ آخر ہوا کیا ہے۔
’’ٍیار! ‘‘ ہم دونوں بھی دلاور کے دائیں اور بائیں جانب بیٹھ گئے۔
’’یار! تمہاری امی کا انتقال ہو گیا ہے۔‘‘ میں نے دلاور کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر آہستہ سے کہا۔
’’کیا !!!‘‘ دلاور کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ وہ یلک جھپکنا بھول گیا۔
’’کیا کہہ رہے ہو ذولقر۔۔۔‘‘ دلاور کی زبان لڑکھڑا گئی۔ مجدی اور میرے دونوں ہی کے چہروں پر اداسی چھائی ہوئی تھی۔ میں نے اپنا نچلہ ہونٹ اپنے دانتوں میں دبایا اور ’’انا للہ‘‘ پڑھا۔
دلاور نے بے اختیار میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’ذولقر۔۔۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا اور دلاور کو اپنے گلے لگا لیا۔ اس کی سسکیاں بندھ گئی۔
مجدی نے بھی دلاور کو دلاسہ دیا اور اسے تعزیتی کلمات کہے۔
ہم تینوں ہی کے آنسو بہہ نکلے۔ دل بہت اداس ہو گیا ۔ میں نے خود کو سنبھالا ، دلاور کو تسلی دی اور ایک گلاس پانی کا انڈیل کر اسے پینے کو دے دیا۔ دلاور کے حلق سے پانی نہیں اتر رہا تھا۔ اس نے ایک ہلکی سی تکلیف کے ساتھ پانی کا گلاس پیا اور پھر بستر کا تکیہ اٹھا کہ اپنے منہ پر رکھ لیا۔ اس کی سسکیاں ہمیں سنائی دینے لگیں۔ ہم سب ہی پھر رونے لگے۔ بڑی مشکل سے مجدی اور میں نے دلاور کو سنبھالا اور اسے لے کر تدفین کے لئے چلے گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔

دلاور اپنی فیملی سے ویسے ہی کٹ چکا تھا ۔ اب والدہ کے انتقال کے بعد تو وہ سب کو بالکل ہی بھول گیا۔ پہلے کبھی کبھی اس کی والدہ کا فون آ جاتا تھا وہ ان کی خیر خیریت دریافت کر لیتا تھا مگر اب کوئی نہیں بچا تھا جس کی خیریت دریافت کی جاتی۔ جسے اس دنیا سے جانا تھا وہ جا چکا تھا۔ اب وہ بالکل اکیلا رہ گیا تھا۔

دلاور نے رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کو فون ملایا۔ وہ شدت سے اس انتظار میں تھا کہ اس کا اسٹور چار کروڑ میں بک جائے اور وہ مزے کرے۔ مگر اتنے دن گزر جانے کے باوجود بھی ایک بار بھی اسٹیٹ ایجنٹ کا فون نہیں آیا تھا۔
’’ہیلوجی! سلامْ علیکم! ‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ نے کال ریسیو کی۔
’’جی سر! کیسے ہیں آپ؟؟؟‘‘
’’میں دلاور بات کر رہا ہوں۔۔۔ آپ سے زینا روڑ پر موجود اسٹور کی ڈیل کی بات کی تھی۔ مگر کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔!!!‘‘ دلاور نے پوچھا۔
’’ا م م م۔۔۔ جی جی۔۔۔ دراصل کوئی بات نہیں بنی۔۔۔ ایک دو پارٹیڑ آئیں تھیں مگر کسی نے کوئی قیمت نہیں لگائی۔ ہم نے انہیں بتا دیا تھا کہ مالک چار کروڑ میں اسٹور فروخت کرنا چاہتا ہے۔ مگر۔۔۔ ا م م م۔۔۔ مگر۔۔۔ کسی نے آگے بات تک نہ کی۔۔۔‘‘ اسٹیٹ ایجینٹ نے رک رک کر ساری بات بتائی۔
’’اچھا!‘‘ دلاور کے منہ سے صرف یہ ایک لفظ نکلا۔ اس کا بینک بیلینس دن بدن کم ہوتا جا رہا تھا۔ اگر یہ ڈیل نہ ہوتی تو اس کی ساری عیاشیاں ختم ہو جاتیں ۔ ساری پارٹیز دھری کی دھری رہ جاتیں اور اسے بھی شریف لوگوں کی طرح سیدھی سادی زندگی گزارنا پڑتی اور اس کے لئے وہ تیار نہ تھا۔
’’دیکھیں دلاور صاحب۔۔۔ ا م م م۔۔۔ آپ سے میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ چار کروڑ جو قیمت آپ نے لگائی ہے۔۔۔ آآآ۔۔۔ وہ مارکٹ پرائز کے مطابق نہیں ہے۔‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ نے نہایت محتاط انداز میں دلاور کو حقیقت سے آشنا کرنا چاہا۔
’’ا م م۔۔۔ اچھا۔۔۔ چلیں ٹھیک ہے۔۔۔ تین کروڑ میں بکوا دیں۔۔۔‘‘ دلاور کا یہ جواب سن کر اسٹیٹ ایجنٹ کا منہ بن گیا۔ وہ پہلے ہی دلاور کے گوش گزار کر چکا تھا کہ اسٹور ایک کروڑ سے ذیادہ کا نہیں ہے۔
تین کروڑ؟؟؟‘‘ اسٹیٹ ایجنٹ نے ایک بار پھر پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ تین کروڑ۔۔۔ ایک کروڑ قیمت کم کر دی ہے میں نے۔۔۔‘‘۔ اسٹیٹ ایجنٹ تو پہلی ملاقات میں ہی سمجھ گیا تھا کہ کسی گدھے سے پالا پڑ گیا ہے۔ جسے کاروبار اور لین دین کی کچھ سمجھ نہیں۔ اس نے خاموشی سے بات ختم کر کے فون رکھ دیا۔

مگر دلاور کو اب آنے والے دنوں کا کچھ کچھ خوف ستانے لگا۔ اس نے اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور کچھ ماڈلنگ ایجنسیز کی ویب سائٹس دیکھنے لگا۔ اسے ہمیشہ سے ہی شوق تھا کہ وہ اگر کوئی کام کرے تو ماڈلنگ کرے۔ نیم عریاں لباس میں فی میل ماڈلز کے ساتھ اپنے آپ کو ایکسپوز کرنا اسے بے حد پسند تھا۔ وہ ہمیشہ سے ہی بلا کا فٹ اور اسمارٹ تھا۔ وہ اکثر فیس بک پر اپنی سیمی نیوڈ پکچرز اپ لوڈ کرتا رہتا تھا۔۔۔ شرٹ لیس پکچرز۔۔۔ کبھی صرف شارٹس پہن رکھے ہیں تو کبھی صرف ویسٹ۔۔۔ وہ خیالوں ہی خیالوں میں اپنی بڑی بڑی تصویریں شہر بھر کے سائن بورڈز پر لگی ہوئی دیکھنے لگا۔
’’کتنا مشہور و معروف ہو جاؤں گا میں!!!‘‘
’’سب لڑکیاں مجھے دیکھ دیکھ کر اپنی رال ٹپکائیں گی!‘‘ دلاور خود سے باتیں کرنے لگا۔

پاکستان میں یہ کام کرنے میں کیا مزہ ہے۔ اس نے اپنی کچھ بولڈ قسم کی پکچرز انگلینڈ، امریکہ ، آسٹرالیا اور دبئی کی بڑی بڑی ماڈلنگ ایجنسیز کو بھیج دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔

مجدی اسی بڑے سے بنگلے میں بنے ایک کمرے میں بیٹھا اپنا کام کر رہا تھا۔کام یعنی مذہب کے خلاف بلاگنگ۔۔۔ فیس بک پر مذہب کے خلاف پوسٹس اور ٹیوٹر پر ٹیوٹس۔۔۔ یہی اس کا کام تھا اور اسی کام کے اسے تصور سے ذیادہ پیسے ملتے تھے۔ان لوگوں کا ہیڈ آفس امریکہ میں واقع تھا ۔ وہیں سے ان کی فنڈنگ ہوتی تھی۔ ان کا ٹارگٹ تھا کہ پاکستان میں لا دینیت عام کر دی جائے۔ دین اور خدا کے وجود کو ایک خیالی کہانی مانا جائے۔مادہ پرستی عروج پائے۔۔۔ شرم و حیا کا تصور ہی مٹ جائے اور ہر انسان ایک خود غرض زندگی گزارے۔ ان کے خیال میں اس طرح انسان حقیقتاََ آزاد ہو گا۔ ملک کے قانون سے آزاد نہیں اللہ کے قانون سے آزاد۔۔۔ ظاہری جرائم کی تو پکڑ ہو مگر اخلاقی جرائم کی کہیں کوئی پوچھ کچھ کرنے والی ذات نہ ہو۔

مجدی نے اپنی ایک ملحدانہ پوسٹ لکھ کر فیس بک پیج پر انٹر کی اور کرسی پر پیچھے کو ہو کر ایک انگڑائی لی۔ ایک شرارتی مسکراہٹ اس کے چہریے پر پھیل گئی کہ جانے اس کی اس نئی پوسٹ پر کیا کیا کمینٹس آئیں گے۔ وہ اٹھا اور چائے پینے کے غرض سے اپنے روم سے باہر نکلا ۔

اسی بنگلے کے مین ہال کی ایک دیوار میں ایک بڑا سا لکڑی کا گول دروازہ تھا۔ وہ دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ مجدی کی نظر ہمیشہ اس دروازے پر ٹک جاتی کیونکہ وہ بہت بڑا تھا اور خوبصورت بھی تھا۔ مگر کبھی نہ کوئی اس کے اندر گیا اور نہ ہی باہر آیا۔
’’یار اس کے اندر کیا ہے؟؟؟‘‘ تین چار ماہ میں پہلی بار اس نے اپنے ایک کولیگ سے اس کمرے کے بارے میں سوال کیا۔
’’ا م م م۔۔۔ بس کچھ سامان وغیرہ پڑا ہے۔۔۔ اسٹور کی طرح۔۔۔‘‘ مجدی کو ایک سرسری سا جواب مل گیا۔ اس کا کولیگ یہ کہہ کر اپنے آفس میں چلا گیا۔مگر مجدی کو تسلی نہ ہوئی۔ دروازہ کے نقش و نگار اور سائز دیکھ کر تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کوئی اسٹور ہے۔ دکھنے میں تو یوں لگتا تھا جیسے وہ کوئی بڑا کمرا ہو۔ ڈرائنگ روم یا لِونگ روم کی طرح۔۔۔

’’ہیلو مجدی! ‘‘ پرویز صاحب اپنے روم سے باہر نکل آئے۔
’’ہیلو سر! ہاؤ آر یو؟؟‘‘ مجدی نے بھی ان کا حال پوچھا۔
’’کل آپ کی چھٹی ہے۔ او۔ کے۔۔۔‘‘ پرویز صاحب نے مجدی کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا اور ایک طرف کو چلے گئے۔
’’اوہ۔۔۔ او۔ کے۔۔۔‘‘ مجدی بولا۔ اسے شروع سے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اسے ہر ماہ ایک دن ایکسڑا چھٹی بھی ملا کرے گی۔ یعنی ہفتہ اور اتوار کے علاوہ ہر مہینے ایک ایکسڑا چھٹی۔۔۔ یہ کوئی خاص تاریخ نہ ہوتی۔ مہینے کا کوئی بھی دن ہو سکتا تھا۔ کبھی دو کو کبھی تین کو کبھی پچیس کو کبھی گیارہ کو۔۔۔ الغرض کوئی ایک تاریخ مخصوص نہ تھی۔ بس اتنا طے تھا کہ ایک دن ایکسڑا چھٹی ضرور ملے گی۔ مجدی کا کیا جا رہا تھا ۔ اسے تو ایک ایکسڑا چھٹی مل جاتی تھی اور وہ اس دن بھی آرام کرتا تھا۔

مجدی کچن میں چائے بنانے چلا گیا اور سوچنے لگا کہ کل کی چھٹی کیسے گزارے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔

اس شام میں چھت پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ امی ابو اور تمام گھر والے میرا ضرورت سے ذیادہ خیال رکھنے لگے تھے۔ ڈاکٹر ذیشان امی ابو کو میرے اذیت ناک ماضی سے آگاہ کر ہی چکے تھے۔ مگر سب کو سختی سے منع کیا گیا تھا کہ کبھی میرے سامنے میرے ماضی کی کسی بات کا ذکر نہ کریں۔ سب سمجھدار تھے اور ڈاکٹر ذیشان کے کہنے کے مطابق ہر معاملے میں احتیاط برتتے تھے۔

میں اور ابو جان چھت پر ہی بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہیں تھی۔ بہت فرحت بخش موسم تھا۔ اتنے میں امی جی بھی چائے کا ایک کپ ہاتھ میں لئے چھت پر آ گئیں۔ ان کے پیچھے میری ایک بہن بھی ایک پلیٹ میں بسکٹ رکھے نمودار ہوئی۔
’’ بیٹا شائستہ کی ایک دوست ہے۔ بہت اچھی ہے۔ تمہارے لئے بات کروں اس کے گھر والوں سے۔۔۔؟؟؟‘‘ میرے بہن شائستہ کی بانجھیں کھل گئیں۔ میں بھی امی کے اس اچانک سوال پر اچھل کر رہ گیا اور ہلکا سا ہنس بھی دیا۔ مجھے توقع نہیں تھی وہ اس طرح اچانک میری شادی کی بات کرنے لگیں گی۔
’’ہاں۔۔۔ اسی کی کلاس فیلو ہے۔ بڑی خوبصورت ہے۔ پڑھائی میں بھی بہت اچھی ہے اور گھر کی بڑی بہن ہے۔ بڑی ذمہ دار لڑکی ہے۔ سارا گھر سنبھالا ہوا ہے اس نے۔ تم نے دیکھا ہواہے اسے۔۔۔‘‘
’’ یاد ہے پچھلی عید پر جو لڑکیاں آئیں تھیں ان میں سے ایک لمبی سی۔۔۔ پتلی سی۔۔۔ بڑا سا دوپٹہ پہنا تھا اس نے۔۔۔ پیلی رنگ کا سوٹ تھا۔۔۔‘‘ امی جو شروع ہوئیں تو خاموش ہی نہیں ہو رہیں تھیں۔
’’ہیں۔۔۔ کون۔۔۔؟‘‘ میری بھی بانجھیں کھلی ہوئیں تھیں۔ مگر جانے وہ کس کی بات کر رہیں تھیں ۔ مجھے تو کوئی ایسی لڑکی یاد نہیں آ رہی تھی۔
’’وہی بھائی۔۔۔ ایک بار جب آپ مجھے یونیورسٹی چھوڑنے جا رہے تھے تو وہ بھی۔۔۔‘‘ شائستہ بھی کچھ بولنے لگی۔
’’پتا نہیں کون ہے؟؟؟ ہا ہا ہا۔۔۔‘‘ میں ہنسنے لگا۔
’’کوئی تصویر وغیرہ ہے تو دکھاؤ نا بھائی کو۔۔۔‘‘ ابو بھی بول پڑے۔ شاید گھر والوں کی آپس میں بات ہو چکی تھی میرے رشتے کے بارے میں۔
’’نہیں وہ تصویریں نہیں کھچواتی نا۔۔۔‘‘ شائستہ نے وضاحت کی۔
’’اوہ اچھا!‘‘ ابو نے کہا اور چائے کی ایک چسکی لی۔
’’مگر وہ بہت اچھی لڑکی ہے بھائی ۔۔۔ کچھ دنوں میں میں اسے گھر بلاؤں گی۔‘‘ شائستہ کہنے لگی۔
’’ہی ہی ہی۔۔۔‘‘ میں کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔
شادی۔۔۔!!! تو اب میری شادی ہونے والی ہے۔۔۔
می دل ہی دل میں جانے کیا کیا سوچنے لگا۔ادھر ادھر کے بہت سے خیالات آنے لگی۔ کیا واقعی میں شادی کے لئے تیار ہوں۔ ابھی حال ہی میں تو میں ایک کرب ناک دور وقت سے گزرا ہوں۔ کیا یہ بہت جلدی نہیں۔ میرے ذہن میں تو ان دنوں صرف اور صرف ’’روشن‘‘ ہی سوار تھا۔ اپنے کاروبار سے بھی ذیادہ اب میں روشن کے بارے میں سوچتا تھا۔ کس طرح میں ذیادہ سے ذیادہ وقت ’’روشن‘‘ کو دے سکتا ہوں۔ کس طرح میں بھی ڈاکٹر ذیشان کی طرح لوگوں کی خدمت کر سکتا ہوں ۔ اور سب سے بڑی بات ’’روشن‘‘ میں رہ کر کس طرح میں اپنے آپ کو ہر منفی سوچ سے، ہر برائی سے پوری طرح صاف و شفاف کر سکتا ہوں۔ اب تو میں باقائدہ ’’روشن‘‘ کا ایک ممبر بن گیا تھا۔

بہرحال شادی کی بات ہوئی اور ختم ہو گئی۔ شاید کچھ دنوں میں امی اور بہنیں بہانے بہانے سے مجھے بہت سی لڑکیوں سے ملانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔ جانے میری تقدیر میں کون تھی۔۔۔ اب آگے میرے نصیب میں کیا کیا لکھا تھا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتاتا۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

مجدی میرے ساتھ ہی میرے آفس آیا ہوا تھا۔ میری غیر موجودگی میں اس نے بہت احسن طریقے سے میرا اسٹور سنبھال لیا تھا۔ صرف وہی نہیں بلکہ میرے چھوٹے بھائی اسد کو بھی اب بزنس کے خاص حاص معاملات کے بارے میں تجربہ ہو گیا تھا۔ اس دن مجدی سارا دن میرے ساتھ ہی رہا۔ شام چار بجے تو میں نے اپنا کام سمیٹا، غیر ضروری اشیاء سے ٹیبل صاف کیا اور فریش ہونے واش روم کا چلا گیا۔

’’کیا؟ جا ہے ہو؟؟؟‘‘ میں منہ ہاتھ دھو کر باہر نکلا تو مجدی نے پوچھا۔

’’ام م م۔۔۔ ہاں یار! نکل رہا ہوں میں۔۔۔‘‘ میں نے سیدھا سا جواب دیا۔
’’اچھا چلو میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ مجدی نے بھی میرے دیکھا دیکھی کام سمیٹ لیا تھا۔عام طور پر میں پانچ ، چھ بجے ہی آفس نے نکلتا تھا مگر اس دن میں چار بجے ہی تیار ہو گیا۔ مجدی ’’روشن‘‘ جانا تھا۔ ہر ہفتہ کم از کم دو دن میں ضرور ’’ روشن‘‘ کا چکر لگاتا تھا۔
’’چلو! میں ’روشن ‘ جا رہا ہوں۔۔۔ تم بھی آ جاؤ۔۔۔‘‘ میں نے کہا اور مجدی بھی ’روشن‘ کا نام سن کر خوش ہو گیا۔ وہ جگہ سب ہی کو پسند تھی۔ سمجھو سب کو ایک نیا پک نک اسپاٹ پتا چل گیا تھا۔ وہاں جو بھی جاتا فریش ہو کر واپس آتا۔

’’چلو پھر ایک ہی گاڑی میں چلتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا اور باہر نکلا۔ مجدی بھی میرے پیچھے پیچھے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
دل ہی دل میں میں بہت خوش تھا کہ مجدی میرے ساتھ ’روشن‘ جا رہا تھا۔ میں بہت دنوں سے چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کی ڈاکٹر ذیشان سے ملاقات ہو ائے۔ میں جانتا تھا کہ ان سے مل کر مجدی بالکل بدل جائے گا۔ جو بھی برے اثرات گردشِ زمانہ نے اس پر ڈالے ہیں ’’روشن‘‘ میں وہ سب دھل جائیں گے۔

’’روشن‘‘ میں پہنچتے ہی ایک خوش گوار حیرت سے ہمارا سامنا ہوا۔ ’روشن‘ کے بڑے سے پارک میں سر سبز گھاس پر تمام افراد چونکڑا ماے بیٹھے مراقبہ کر رہے تھے۔ سب لوگوں نے سفید رنگ کے کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ذیشان اس بڑے سے مجمع کے سامنے موجود سب کو مراقبہ، یوگا اور سانس کی مشق کروا رہے تھے۔ اتنا خوشگوار موسم تھا۔ شام کا وقت تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میرا جی چاہا کہ بھاگ کر اس خوبصورت محفل کا حصہ بن جاؤں۔

میں نے مجدی کا ہاتھ پکڑا ور مجدی کو چینجنگ روم لے گیا۔ وہیں موجود سفید رنگ کے ٹراوزرز اور ٹی شرٹ ہم دونوں نے پہن لی اور جلدی جلدی واپس باہر لان میں آگئے۔ میں نے مجدی کو بھی اپنے ساتھ وہیں باغیچے میں بچھے ایک میٹ پر بٹھا دیا۔
’’بس جو کچھ یہ کر رہے ہیں کرتے رہو۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے خوش ہو کر کہا اور دور کھڑے ڈاکٹر ذیشان کی طرف دیکھنے لگا۔
مجدی کو تو کچھ سمجھ ہی نہیں رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے اسی میں بہتری سمجھی کہ جو کچھ باقی سب کر رہے ہیں کرتا رہے۔ وہ پہلے جب بھی مجھ سے ملنے ’روشن‘ آتا تھا تو اس قسم کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرتا ہی تھا۔ مگر کبھی ان میں حصہ نہیں لیا تھا۔ وہ بھی تھوڑا ایکسائٹڈ ہو گیا ۔
’’چلیں ناک سے گورا سانس اندر لیں اور پھر نکل دیں۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان کی آواز ہمارے کانوں سے ٹکرائی۔ ہم دونوں نے یہی کیا ایک ضرورت سے ذیادہ گہرا سانس اندر کھینچا اور پھر نکال دیا۔ ہم دونوں یہی مشق بار بار کرتے رہے ۔ سب یہی مشق کر رہے تھے۔
کچھ ہی دیر میں میں نے مجدی کو دیکھا تو اس کی آنکھیں بند تھیں مگر وہ بہت بے چین سا لگ رہا تھا۔ کبھی گھاس پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا۔ کبھی اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کبھی اپنے دونوں ہتھیلیوں کو سامنے کر کے ان پر یوں پھونکیں مارتا جیسے وہ جل گئیں ہوں۔ مجھے کچھ تشویش سی ہوئی۔ تھوڑی ہی دیر میں میں نے ڈاکٹر ذیشان کو ہماری طرف آتے ہوئے دیکھا۔ انہیں نے دور سے ہی ہاتھ ہلا کر مجھے سلام کیا۔ میں نے ڈاکٹر ذیشان کے سامنے ہی مجدی کی طرف دیکھا جیسے پوچھنا چاہ رہا ہوں کہ اسے کیا ہوا ہے۔ وہ قریب آئے اور مجدی کے پاس بیٹھ کر کہا،’’تھوڑی تھوڑی دیر میں رک جائیں۔۔۔ لگاتار بریدنگ نہ کریں۔۔۔‘‘
پھر وہ میرے پاس آئے اور کہا،’’ ابھی پہلی بار ہے نا۔۔۔ بہتstressہے ان میں۔۔۔سارا اسٹریس ریلیز ہوتا ہے نا۔۔۔‘‘ میں نے اپنی ہلکا سا سر ہلایا کہ ان کی بات سمجھ گیا ہوں۔ یہی ہوتا ہے۔ ہم اپنے اندر جانے کب سے اسٹریس دبائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ کیسی کیسی پریشانیوں کا بوجھ ہمارے اندر دبا رہتا ہے۔۔۔ گھریلو پریشانیاں۔۔۔ کام کی پریشانیاں۔۔۔ ذاتی الجھنیں اور سب سے بڑھ کر روحانی مسائل۔۔۔ سانس کی اس مشق سے سب باہر نکل جاتا ہے۔ بہت کچھ ایسا بھی ہوتا ہے جو ہمارے لاشعور میں چھپا بیٹھا ہوتا ہے اور واضع طور پر سامنے نہیں آتا مگر اندر ہی اندر ہمیں تنگ کرتا رہتا ہے۔ سانس کی اس مشق سے سب آزاد ہو جاتا ہے۔

بریدنگ ایکسرسائز سے فارغ ہو کر۔ ڈاکٹر ذیشان نے سب کو اپنی داہنی کروٹ لیٹنے کا کہا۔ سب آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے۔ کچھ ہی دیر مغرب ہو جاتی۔ سورج کی ٹھنڈی ٹھنڈی شعائیں ہمارے اوپر پڑ رہیں تھیں۔ ایسا لگنے لگا جیسے ہم آفتاب کی توانائی اپنے اندر جذب کر رہے ہیں۔

پانچ منٹ یونہی ریلیکس ہونے کے بعد ڈاکٹر ذیشان نے اعلان کیا کہ سب پھر اٹھ کر بیٹھ جائیں اور آہستہ آہستہ مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ میں نے اور مجدی نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے ایک دوسرے کو خوش ہو کر دیکھا۔ مجدی کا چہرہ دیکھنے سے ہی پتا چل رہا تھا کہ وہ بالکل فریش اور اس انوکھے تجربے سے بے حد لطف اندوز ہوا ہے۔

’’آج آپ نے پہلی بار سانس کی مشق کی کیسا تجربہ رہا؟؟؟‘‘ سب ڈاکٹر ذیشان کی قریب ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے مجدی کو مخاطب کر کے سوال کیا۔
’’ام م م ۔۔۔ بہت اچھا۔۔۔ مجھے دورانِ مشق ایک عجیب سی بے چینی سی ہو رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ آسان سا کام کرنا بہت مشکل ہو۔یوں لگ رہا تھا جیسے انگلیاں اور پاؤں جلنے لگے ہوں۔۔۔‘‘
’’آہاں۔۔۔ اس کا مطلب ہے آپ نے بہت اسٹریس ریلیز کیا ہے۔‘‘
’’اب آپ روزانہ کم از کم ایک ہفتے تک ضرور آئیں۔۔۔‘‘
’’یہ سب اسٹریس ہمارے اندر موجود رہتا ہے۔ جب تک اسے نکالا نہ جائے۔۔۔‘‘
’’جی آپ بتائیں صدیق صاحب۔۔۔ آج آپ کا بھی فرسٹ ڈے تھا؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے ایک اور شخص سے پوچھا۔
’’مجھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ہواؤں میں اڑ رہا ہوں۔۔۔ بالکل ہلکا پھلکا ۔۔۔ بے وزن سا ہو گیا تھا میں۔۔۔ رئیلی اٹ واز آ ونڈرفل ایکسپیرینس۔۔۔‘‘ اس بندے نے پر جوش ہو کر جواب دیا۔
’’ویل ڈن۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان بھی خوش ہو گئے۔

مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا۔ ہم سب نے ’’روشن‘‘ ہی میں بنی مسجد کا رخ کیا۔ نماز سے فارغ ہو کر میں مجدی کو ڈاکٹر ذیشان کے پاس لے گیا۔
’’یہ مجدی ہیں سر!‘‘ میں نے کہا۔
’’یہ۔۔۔میرے بچپن کے دوست ہیں۔ بہت اچھے انسان ہیں۔ ‘‘
’’ماشاء اللہ۔۔۔ بہت خوب۔۔۔‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے مجدی سے مصافحہ کیا۔ اندھیرا ہو گیا تھا۔ ہم تینوں وہیں کھلے آسمان تلے ایک لائٹ کے نیچے رکھے کچھ بینچز پر بیٹھے تھے۔
’’یہ پہلے کرسشن تھے۔ اب جناب ایتھیسٹ ہو گئے ہیں۔‘‘
’’ہیں!!! ایتھیسٹ!!! مگر وہ کیوں؟؟؟‘‘ ڈاکٹر ذیشان نے حیرانی سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ جیسے کوئی بہت ہی اچھوتی بات سن لی ہو۔
۔۔۔۔۔۔

Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 78468 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More