ٹرسٹ باکس

یہ سعودی عرب، مکہ میں موجود ایک بیکری میں رکھے گۓ اس باکس کا نام ہے جو بیکری کے کیشئر کا کام سر انجام دیتا ہے۔ یہ ایک ایسی انوکھی بیکری ہے جہاں لوگ اپنی خریداری کر کے اس کی رقم کاؤنٹر پر دینے کے بجاۓ ٹرسٹ باکس میں ڈال دیتے ہیں۔ وہاں ان کو دیکھنے والی کوئ آنکھ نہیں کہ کوئ کیا خریداری کر رہا ہے، کتنی خریداری کر رہا ہے اور ٹرسٹ باکس میں کتنی رقم ڈال رہا ہے۔ پوری بیکری میں کوئ کیمرہ نہیں، یہاں تک کہ بیکری میں کام کرنے والے بھی کسٹمرز کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کیا اور کتنی خریداری کر رہے ہیں۔

اس بیکری کے مالک کا نام غازی حسن طاس ہے۔ غازی کا کہنا ہے کہ میں جب ہر مہینے اس باکس کو کھولتا ہون تو اللہ کے فضل و کرم سے اس باکس میں اتنی رقم موجود ہوتی ہے جتنی مجھے چاہیئے ہوتی ہے۔ غازی کہتا ہے کہ میں نے اپنی اس سوچ کو آزمانے کی کوشش کی کہ کیا انسانوں پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اور اسی سوچ کے پیش نظر میں نے اپنی بیکری میں ٹرسٹ باکس رکھا۔ اللہ کی قدرت سے لوگوں نے یقین دلا دیا کہ ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس بیکری سے وہ لوگ جو غریب ہیں اور خریداری کی استطاعت نہیں رکھتے، ان کے لئے بیکری میں سب کچھ مفت ہے۔ اس کے باوجود ہر سال بیکری کی آمدنی بڑھ رہی ہے۔

یہ تو تھی مکہ کی بیکری میں رکھے گئے ٹرسٹ باکس کی کہانی جسے پڑھ کر ہم خوش تو ضرور ہو سکتے ہیں مگر اس کو اپنانا تو دور کی بات، اس کا تصور بھی محال ہے۔ اگر کوئ غازی ہمارے ملک میں ایسا کام شروع کردے تو یقیناً اس کو انسانوں پر اعتبار کرنے والی اپنی سوچ کو بدلنا پڑے گا۔ ٹرسٹ باکس میں پیسے ڈالنا تو دور کی بات، البتہ راتوں رات اس کے چوری ہونے کا خدشہ ضرور ہوجاۓ گا۔ چاہے اس میں کچھ ہو یا نہ ہو۔ یہاں تو حالات یہ ہیں کہ چندہ براۓ مسجد کے باکس کو بھی نہ صرف یہ کہ زنجیروں سے باندھ کر رکھا جاتا ہے بلکہ اس پر ایک بڑا سا تالا بھی لگا دیا جاتا ہے۔

کئی ڈیپارٹمنٹل اسٹورز اور شاپنگ سینٹرز وغیرہ میں کاؤنٹرز پر عطیات کے لئے باکسز رکھے ہوۓ ہوتے ہیں۔ لوگ ہزاروں کی خریداری کرکے کاؤنٹر سے اپنے بقایا جات لے کر ساتھ رکھے ہوۓ عطیات کے ڈبے کو ایسے نظر انداز کرتے ہوۓ گزر جاتے ہیں جیسے چند روپے اس ڈبے میں ڈال دینے سے ان کی جائیدادیں ختم ہوجائیں گی۔ جب کہ یہ حقیقت ہے کہ اگر اپنے رزق میں سے کچھ حصہ عطیہ کی صورت میں دینے سے رزق کبھی کم نہیں ہوتا بلکہ رزق میں برکت پیدا ہوتی ہے اور اضافہ ہوتا ہے۔ میں نے بڑے بڑے امراء کو ہاتھوں میں خریداری کے ان گنت تھیلے اٹھاۓ ہوۓ، عطیات کے ڈبے میں چند سکے ڈالتے ہوۓ بے شمار بار دیکھا ہے۔ وہ سکے بھی شاید وہ اس لئے ڈبے میں ڈال دیتے ہیں کہ سکے رکھنا اپنی توھین سمجھتے ہیں۔ اپنی ذات کے لئے خریداری پر اتنا بڑا دل اورعطیہ دینے کے لئے اتنا چھوٹا دل۔ یہی امراء آپ کو کسی بڑے ریسٹورنٹ، مکڈونلڈ یا پیزا ہٹ وغیرہ میں نظر آئیں تو وہاں بیروں کو ٹپ دیتے ہوۓ اگر آپ ان کو دیکھ لیں تو حیران ہوۓ بنا نہ رہ سکیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کی جیبوں سے عطیہ دیتے وقت چند سکے نکلے تھے اور اب دکھاوے کے لئے بیرے کو ٹپ دیتے وقت 500 روپے کی بھی کوئ اوقات نہیں۔ ابھی یہیں بات ختم نہیں ہوئ۔ یہی لوگ جب ریسٹورنٹ سے ٹپ دے کر باہر آتے ہیں تو ان کی گاڑی صاف کرتا ہوا کوئ غریب بچہ جب ان سے اپنے کام کی اجرت مانگتا ہے تو اسے یہ کہتے ہوۓ بری طرح جھڑک دیتے ہیں کہ کس نے کہا تھا تمھیں کہ گاڑی صاف کرو۔

جس ملک میں مہنگائ اس قدر بڑھ جاۓ کہ غریب کو پیٹ بھر کر کھانے کے لئے ایک وقت کی روٹی بھی مییسر نہ ہو، وہاں جرائم بڑھیں گے نہیں تو اور کیا ہوگا۔ وہاں کون سے لوگوں پر اعتبار اور کون سا ٹرسٹ باکس۔ یہ تو وہ ملک ہے جہاں کے بیلٹ باکس میں بھی خریدے ہوۓ اور جعلی ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ یہاں عطیات کے ڈبے خالی نظر آتے ہیں تو ٹرسٹ باکس میں پیسے کون ڈالے گا۔ وہ ملک، وہ معاشرہ اور وہ لوگ ہی اور ہوتے ہیں جو اعتبار کے قابل ہوتے ہیں۔ وہاں کی حکومتیں اگر عوام سے ٹیکس لیتی ہیں تو وہ انھی کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کیا جاتا ہے۔ جب ملک خوشحال ہوتا ہے تو لوگ بھی خوشحال ہوتے ہیں۔ یہاں کی طرح نہیں کہ عوام سے ٹیکس لے لے کر حکمران اپنے لئے غیر ملکی اثاثے بناتے جائیں اور عوام غریب سے غریب تر ہوتے جائیں۔ جو ملک ٹرسٹ باکس رکھنے کے قابل ہوتے ہیں وہاں دہشت گردی، لوٹ مار، جہالت، اور غربت کا بازار گرم نہیں ہوتا۔ وہاں عام عوام پر اعتبار کیا جا رہا ہے اور ایک ہم ایسی بدنصیب قوم ہیں جس کا حکمران تک اعتبار کے قابل نہیں۔ بے چارے غریب عوام دن رات محنت کرکے پیسہ کماتے ہیں اور پھر اپنی سہولتوں کے لئے حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں اور ہمارے حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائ سے اپنی جیبیں بھر لیتے ہیں۔ اب آپ ہی فیصلہ کریں کہ اور بتائیں کہ جہاں بے اعتباری کی یہ صورتحال ہو وہاں ٹرسٹ باکس یا اس قسم کی کسی بھی چیز کا کیا کام۔

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 30360 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.