محبت اور عزت

استخارا کہتا ہے کنارا کر لے
دل کہتا ہے پھر استخارا کر کے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان پاک ہے جو تمہیں دکھ دے اسے چھوڑ دو مگر جیسے چھوڑ دو اسے دکھ نہ دو۔

محمل تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟
نور اس کے پیچھے لان میں آئی تھی وہ کب سے لاؤنج کی کھڑکی سے محمل کو دیکھ رہی تھی جو اس سردی کے موسم میں گیلی گھاس پر اکڑوں بیٹھی تھی اس نے اپنے بازوں گھٹنوں پر لپیٹ رکھے تھیں --- اس کی پشت لانؤج کی جانب تھی جہاں سے نور اسے دیکھ رہی تھی--- وہ ان چند دنوں میں بالکل مر جھا سی گئی تھی ---- چہرے کے گلابی پن میں ہلدی جھلکنے لگی تھی، اس کے گلابی ہونٹوں پر آج کل سفیدی کی تہہ چپک گئی تھی--- آنکھوں کے گرد بھورے حلقے اس کی بے چین نیند کا غماز تھے نور کو اس کی اتنی خاموشی خاصی کھل رہی تھی-- آخر آج اس نے اس کے قریب بیٹھتے پوچھ ہی لیا تھا--- مگر اس کے آواز پر بھی اس میں زرا جنبش نہ ہوئی-- بلکہ وہ بھنویں سکوڑے غروب ہوتے سورج کو دیکھے جا رہی تھی--
محمل میں تم سے پوچھ رہی ہوں ---
نور نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا---
جی--- وہ زرا سا چونکی تھی--
خیریت ہے تمہیں دن بدن کیا ہوتا جا رہا ہے؟،،
مجھے کیا ہونا ہے نور-- پیکی سی مسکان لبوں پر سجاتے ہوئے اس نے سرسری سا جواب دیا اور پھر سے سورج کو تکنے لگی-----
اگر کچھ ہوا نہیں ہے تو پھر اتنی چھپ کیوں رہنے لگی ہوں تم تو چند منٹ بھی خاموش نہیں رہتی تھیں ہر وقت گھر میں شور مچاتی رہتی تھی پھر اب کیا ہوا ہے؟ ---- رضا بھائی نے کچھ کہا ہے تم سے؟ --- تم دونوں کی پھر سے کوئی فائٹ ہوئی ہے کیا؟
ہوں --- پرسوں رضا سے فائٹ ہوئی ہے نور وہ شخص ہمیشہ مجھ سے بلا وجہ لڑتا ہے بات بات پر میری بے عزتی کرتا ہے --- یہ کیسا پیار ہے اس کا ایک دن پیار سے بات کرتا ہے چار دن غصے سے---- یہ پتا نہیں آگے کیا کرے گا---- لیکن نور میں نے اب فیصلہ کر لیا ہے میں رضا کو چھوڑ رہی ہوں --- ساری زندگی رونے سے بہتر ہے کچھ دن رو لیا جائے----
نور نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا---
وہ لمہہ بھر کے لیے چپ ہوئی اور اسی طرح بیٹھے بیٹھے گردن نور کی جانب موڑ دی ---
محمل کس بات پر جھگڑا ہوا ہے ؟ ویسے تم دونوں کا لڑنا جھگڑنا تو روز کی بات ہے اور تم رضا بھائی کی باتوں کو چٹکیوں سے اڑا دیتی تھیں یہ کہہ کر کہ بھاڑ میں جائے سب ،، تو پھر اب اس بار کیوں اس کے باتوں کو دل سے لگا کر بیٹھی گئی ہوں---- کیا اس بار بہت سیریس قسم کا جھگڑا ہوا ہے ؟ نور حیران تھی رضا کو چھوڑنے والی بات پر ---
نور اس کے جھگڑے تو ہمیشہ سیریس ہوتے ہیں پر میں سیریس نہیں لیتی تھی مگر اب میں سیریس لیا ہے روز روز کے تماشوں سے بہتر ہے کہ میں اس کو چھوڑ ہی دو تو اچھا ہے--
ایک بھٹکا سا بے خیال قطرہ اس کے گالوں پر لڑھک کر اس کے دامن گم ہوگیا تھا---
نور حیرانی سے اس کو دیکھ رہی تھی جس کی سیاہ آنکھوں میں اداسیوں کا راج تھا--
محمل میری بہن ایسا نہیں کہتے رضا بھائی غصے کا تیز ہے مگر پیار تم سے بہت کرتا ہے اور تم جانتی ہوں وہ آج کل کتنا ہے سو اس وجہ سے غصہ بھی زیادہ کرتا ہے جب اس کے مسلے حل ہوجائیں تب دیکھنا وہ پہلے جیسا ہو جائے گا---
نور کی بات سن کر اس نے ایک گہری سانس لی اور پھر سے گلابی آسمان کو تکنا شروع کیا--
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتا ہے مگر عزت نہیں کرتا اور میرے لیے پیار سے زیادہ عزت important ہے میں پیار کے نغیر رہ لوں گی مگر عزت کے بغیر نہیں رہ سکتی-----
آنسو اب اس کی سیاہ آنکھوں سے ایک تسلسل کے ساتھ بہتے ہوئے اس کے شفاف لو دیتے سنہری چہرے کو بھگوئے جا رہے تھے--
نور خاموشی سے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی----
پتا ہے نور پرسوں اس کا موڈ بہت اچھا تھا میرے لیے بہت کیئرنگ تھا--- مگر جب میں نے اس سے صرف یہ پوچھا رضا آپ مجھے مس کرتے ہوں تو اس نے کہا اسے فضول سوال نہ پوچھا کرو--- میں نے کہا پوچھنے سے کیا ہو جاتا ہے--- اوکے نہیں پوچھتی نہ اب کبھی لو یو نہ مس یو نہ کوئی پیار کا اظہار کروں گی--- اتنی سی بات پر وہ شروع ہوگیا پھر--- فضول سوالوں سے میرا دماغ خراب کرتی ہو آپ مجھے مس کرتے ہوں انتہائی فضول سوال--- میں بھی کہہ دیا جب آپ پوچھتے ہوں تب فضول نہیں ہوتا--- محبت ایسی تو نہیں ہوتی-----
اس کے چہرے پر پھر سے موتی بکھیرنے لگے---
نور کی آنکھیں بھیگ گئی بہن کی بے بسی پر-----
وہ مزید کچھ کہنے والی تھی کی نور بے اختیار ہاتھ جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی--- جانے دو محمل دفع کرو اس کو اور اس کی باتوں کو--- چلو چل کر کافی پیتے ہیں بابا بھی اندر لاؤنج میں ہمارا انتظار کر رہا ہوگا---
اس نے قدرے بے بسی سے نور کو دیکھا--- وہ یقینا مزید اور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی تھی--- کچھ اور کہنے کی خواہش مند----- لیکن پھر مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کھڑی ہوئی--- تم چلو بابا کے پاس میں فیس واش کرکے آتی ہوں --- وہ اپنے مخصوص نرم، دھیمے انداز میں کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی تو نور طویل سانس لے کر گھر کے اندرونی حصے کی طرف چلی آئی تھی۔
××××
رضا حیدر اور محمل کی دوستی فیس بک پر ہوئی تھی دونوں کو پتا ہی نہ چلا کہ کب یہ دوستی محبت میں بدل گئی تھی-- دونوں احساس تب ہوا جب ایک دن محمل طبیعت ٹھیک نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مخصوص وقت پر آن لائن نہ ہوئی تھی-- رضا پر وہ دن بہت بھاری گزرا تھا خود محمل نے بھی اسے بہت مس کیا تھا اور جب اگلے دن وہ آن لائن ہوئی ----- تو رضا نے اسے سیدھے سادے طریقے سے پروپوز کیا ----
I like you mehmal well you marry me
محمل حیران ہوئی تھی بہت اور خوش بھی ---- کیونکہ رضا جیسے اچھے دیندار انسان کو کوئی بھی لڑکی نا پسند نہیں کر سکتا تھا--- وہ بھی رضا کو پسند کرتی تھی - مگر پھر بھی اس نے رضا سے رسمی طور پر سوچنے کے لیے وقت مانگا تھا وہ رضا کو کوئی بھی جواب دینے سے پہلے نور سے یہ بات شیئر کرنا چاہتی تھی--- رضا نے اس کو سوچنے کے لیے وقت دے دیا مگر ساتھ میں یہ بھی کہا جتنا چاہے سوچ لو مگر پلیز جواب مثبت ہی دینا---- اور اسی دن اس نے نور سے پوچھا تھا نور اگر محبت ہوجائے تو کیا کرنا چایئے؟ سر جھکائے بیڈ پر آڑی ترچھی لکیرے کھنچتے اس نے بڑی ہمت کر کے یہ سوال پوچھا تھا--- نور اس کی بہن کم سہیلی تھی --- نور اس سے ایک سال بڑی تھی دونوں بہنوں میں بہت پیار تھا ماں کے وفات کے بعد تو وہ اور بھی اس کے قریب ہوئی تھی وہ اپنی ہر بات نور سے شیئر کرتی تھی--- مگر جانے کیوں رضا کے بارے میں نور کو کو بتاتے ہوئے وہ جھجک رہی تھی----
اسے حاصل کرنا چایئے چاہے وہ اچھا ہو یا برا محبوب کو پاکر جو نقصان حصے میں آئے وہ پھر بھی قابل برداشت ہوتا ہے، مگر جو نقصان اسے کھونے سے ہوں وہ آپ کی باقی ساری زندگی کو خلا میں معلق کر جاتا ہے،،
محمل نے سر اٹھا کر اس کو دیکھا تب ہی نور نے بھی کھڑکی سے باہر ٹکی نظریں ہٹا کر اس کو دیکھا---
محمل کتنی ہی دیر پلک نہ جھپک پائی جو راز وہ خود سے کہنے کی ہمت نہیں کر رہی تھی وہ نور کے زیرک نگاہیں پڑھ گئیں ----- محبت ایک ایسی خوشبو ہے جو چھپائے نہیں چھپتی اور ہر آنے والے کو اپنی مہک سے آگاہ کرتی ہے-
کون ہے وہ--- نور نے نظریں ہٹائیں بغیر پوچھا تھا---
وہ----وہ---- وہ نور کے اس قدر سہی اندازے پر ایک دم سٹپٹا گئی تھی---
نور خاموش رہی---
وہ لاہور سے تعلق رکھتا ہے رضا حیدر نام ہے --- بہت نیک دیندار لڑکا ہے رضا---- آج کل کے نوجوانوں سے بہت مختلف ہے پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے تلاوت کرتا ہے music بالکل بھی نہیں سنتا اور---- اس نے ٹھر ٹھر کر ابھی اتنا ہی بتایا تھا کہ نور بول پڑی---
اسے کہو جلد از جلد رشتہ بیجھے---
نور کے لہجے میں چھپی بے چینی بہت واضح تھی محمل محسوس نہ کر سکی اسے تو نور کے منہ سے نکلے الفاظ پر ہی یقین ہی نہیں آرہا تھا اسے نور سے اتنی جلدی مان جانے کی توقع نہیں تھی----
وہ--- وہ--- بابا اور بھائی----
میں وقت آنے پر بابا سے بات کر لوں گی--- اس کی فکر نہ کرو تم---
نور اس کو بیچ میں ہی ٹوک گئی تھی۔
××××
محمل نے اگلے دن ہی رضا کو ہاں کر دی تھی رضا بہت خوش ہوا تھا-- محمل کو نور کی رشتہ لانے والی بات کہنے کی ضرورت ہی نہ رہی تھی کیونکہ رضا نے خود ہی اسے کہا کہ اگلے ماہ اپنی ماں کو محمل کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر بھیجے گا-- وہ بہت نیک اور دیندار انسان تھا وہ جلد از جلد محمل سے نکاح کرنا چاہتا تھا-- وہ اس دوستی والے رشتے کو جائز رشتہ بنانا چاہتا تھا---- محمل کو اپنی قسمت پر رشک آیا تھا اتنی اچھی سوچ والا پیارا انسان اس سے چاہتا ہے محبت کرتا ہے اس کے دل میں رضا کی اور بھی قدر و قیمت بڑھ گئی تھی
وہ دونوں اب پہلے سے زیادہ آن لائن ہو کر چیٹ کرنے لگے تھیں سارا سارا دن باتیں کرتے-- بے تحاشہ باتیں کرتے-- اور یہ باتیں کبھی ختم ہونے میں نہ آتی تھیں کیونکہ یہ محبت کی باتیں تھیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے--- وقت آگے بڑا تو ایک دوسرے کے ساتھ کا اصرار اور چاہت بڑھتی گئی--- ہر دن کے ساتھ رضا کی محبت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا محمل ایک ایسی ساحرہ تھی جس نے رضا کو ہر طرح سے اپنے بس میں کر لیا تھا--- اس کے ساتھ کی چاہ کے علاوہ انہیں اپنی زندگی کا جیسے کوئی اور مقصد ہی نظر نہیں آرہا تھا--- محمل ان دنوں محبت کی فضا میں تتلی بن کر اڑنے لگی تھی---- محبت کی کہانیاں لکھنے اور پڑھنے والی لڑکی کو اب پتا چلا تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے -- محمل رائٹر تھی ان کے تحریروں میں اب پہلے سے زیادہ محبت کا زکر ہونے لگا تھا-- خود محبت کرنے کے بعد اس کے کردار زیادہ اثر انگیز ہوگئے تھٰیں --- اس کے ہر تحریر کا انتساب رضا کے نام ہونے لگا تھا--- دونوں ایک دوسرے کو پانے کے خواب دیکتے ہوئے بے انتہاہ خوش تھے مگر یہ خوشی بہت مختصر مدت کے لیے تھی--- شاید ان کی محبت کو خود کی نظر لگ گئ تھی۔
××××
وہ ایک بہت ہی خوبصورت دن تھا محمل اور رضا کے لیے----- رضا بے حد خوش تھا کیونکہ کل اس کی ماں محمل کے گھر جا رہی تھی اس کا ہاتھ مانگنے --- وہ محمل کو یہ خوشخبری سنانے کے بعد آف لائن ہو کر آفس سے نکل آیا تھا --- وہ وابڈا میں جاب کرتا تھا -- اس کے ساتھ اس وقت بلز کے چھ لاکھ روپے تھے جو اس کو بینک میں جمع کرانے تھے--- اور پھر جیسے ہی وہ پارکنگ میں کھڑی گاڑی تک پہنچا--- پتا نہیں کہا سے دو نقاب پوش آئے اور اس کے کنپٹی پر گن رکھ کر اس سے سارے پیسے لے کر بھاگ گئے تھے وہ حق دق رہ گیا تھا --- یہ کیا ہوا اس کے ساتھ --- اف اب وہ باس کو کیا کہے گا کیا وہ بد مزاج باس اس کے بات کا یقین کرے گا؟ اور پھر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا اس کے باس نے سارا الزام اس کے سر ڈال دیا تھا --- رضا ان دنوں سخت پریشان تھا --- وہ اب اتنے پیسے کہا سے لائے گا --- اس سخت وقت میں اپنوں اور غیروں میں سے کسی نے بھی اس کی مدد نہیں --- وہ سخت ٹینشن میں تھا باس نے اس کی ڈیوٹی ٹائم بڑھا دیا تھا ---- اس کی ڈیوٹی سخت کر دی گئی تھی --- اس کی چالیس ہزار تنخواہ تھی جو اب باس نہیں دیتا تھا جب تک اس کے چھ لاکھ پورے نہ ہو جاتے---- ان ہی دنوں اس کے فادر کو ہارٹ اٹیک ہوا مصیبت پر مصیبت رضا پاگل ہونے کو تھا -- اس کے فادر ہارٹ پیشنٹ تھا--- اس کے دل کا بائی پاس سر جری کر نا تھا جس کے لیے لاکھوں روپوں کی ضرورت تھی -- اب وہ اتنے پیسے کہا سے لائے --- ان دنوں ٹینشن کی وجہ سے ہر کسی کو کھاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا--- اور یہی سے اس کے اور محمل کے جھگڑوں کا آغاز ہوا تھا---- وہ اب محمل کو بالکل بھی ٹائم نہیں دیتا تھا--- کیونکہ اس کے پاس ٹائم ہوتا ہی نہیں تھا --- وہ اس سب حالات کی وجہ سے بہت بدل گیا تھا --- ہر وقت چڑچڑا ہوتا بلاوجہ غصہ کرتا--- محمل کے چھوٹے چھوٹے پیار بھرے شکوے اب اس کو فضول لگتے تھے وہ اس سے بہت پیار کرتا تھا اس میں کوئی شک نہ تھا جب محمل ناراض ہو کے آف لائن ہو جا تی تھی تو تب اس کا ٹینشن ڈبل ہو جاتا تھا تب اس کا دل چاہتا پوری دنیا کو آگ لگائے اور اس کی شروعات وہ خود سے کرے - وہ بہت کوشش کرتا کہ محمل اس کی وجہ سے ہرٹ نہ ہوں مگر اتنے کوششوں کے باوجود وہ اپنے غصے پر کنٹرول نہیں کر پاتے تھے --- محمل کے لیے رضا کا یہ رویہ بہت تکلیف دہ تھا مگر وہ برداشت کر رہی تھی اس کی غلطی نہ ہونے کے باوجود سوری میں پہل ہمیشہ وہ ہی کرتی تھی کیونکہ وہ رضا سے سچا پیار کرتی تھی -- نور دونوں کے جھگڑوں سے بہت پریشان تھی -- اس نے محمل کو مشورہ دیا کہ وہ استخارا کر لے --- محمل نے جب استخارا کیا تو وہ ٹھیک نہیں تھا --- دوسرا --- تیسرا---- تینوں استخارے رضا کے حق میں نہ تھے --- اس کے باوجود بھی اس نے رضا کا ساتھ نہ چھوڑا------ مگر جب پرسوں رضا تین دن بعد آن لائن ہوا تو اس کا موڈ بہت اچھا تھا اور اس کے لیے بہت کیئرنگ تھا--- تو محمل نے باتوں باتوں ایسے ہی پوچھ لیا تھا-
رضا آپ مجھے مس کرتے ہے----
ہاں یار بہت مگر پلیز محمل دوبارا ایسے بچوں جیسے سوال نہ پوچھا کرو---
حسب معمول وہ غصہ کر گیا تھا
اوکے نہیں پوچھتی اور نہ اب کبھی مس یو نہ لو یو اور نہ پیار کا اظہار کروں گی -- تین دن بعد بات ہو رہی ہے کچھ نہیں کہنا اب --- آپ کا موڈ خراب ہے مجھے چپ ہی رہنا چایئے اگر کچھ بولوں گی تو آپ کو غلط ہی لگنا پھر فائٹ ہو جانی----
محمل کو بھی غصہ آگیا تھا----
نہ پوچھا کرو فضول سوال ایسے فضول سوالوں سے تم میرا دماغ خراب کرتے ہوں مجھے مس کرتے ہوں میری نظر میں انتہائی فضول سوال ہے---
جب آپ پوچھتے ہوں تب فضول نہیں ہوتا؟
میں نے کب پوچھا تھا؟
سوال کا جواب سوال مٰیں ہی آیا---- تو وہ رپلائی ٹائپ کرنے لگی-----
پوچھا تھا old msgs میں دیکھ لیں ----
میں remove کر دیتا ہوں ساتھ ساتھ-----
آُپ نے جب پوچھا تب میں نے کہا تھا بہت کرتی ہوں ہر پل، ہر لمہہ--- میں نے بھی ڈیلیٹ کر دی ہے اگر ہوتے تو کاپی پیسٹ کرتی---- خیر میں یہ سوال پوچھ کر اپنی انسلٹ کرنی تھی سو کر دی آپ نے جو کہنا تھا کہہ دیا اب میں چپ ہوں -----
اوکے جاؤں پھر یہاں کیا کر رہی ہوں جاؤں ----
محمل کے دل کو دھچکا لگا تھا اس کو رضا سے اس بات کی امید نہیں تھی کیا یہ وہی شخص تھا جو اس سے بہت پیار کرتا تھا ----- وہ روتے ہوئے رپلائی ٹائپ کرنے لگی تھی
میں یہاں آؤں گی پر آپ سے بات کرنے نہیں یہاں میری کچھ اچھی یادیں ہے چاہے بلاک کر دو اب فرق نہیں پڑتا کیونکہ جب بات کرتی ہوں تو ڈانٹ غصہ اس سے بہتر ہے میں اب بات نہ ہی کروں تو اچھا ہے-----
فضول کی بک بک نہیں فضول بولتی ہوں فضول سوچتی ہوں تمہاری اس گندی عادت کی وجہ سے کبھی میں اور تم ایک نہیں ہو سکتے-----
اس کا فورا رپلائی آیا ----
ہاں نہیں ہو سکتے ایک کیونکہ آپ میں غصہ بہت ہے----
حد سے زیادہ فضول بولتی ہوں اور سوچتی ہوں تم محمل،،،،
مجھے ایسا سوچنے پر آپ مجبور کرتے ہے---
یہ ڈرامہ اب بند کروں محمل تمہاری اس فضول بک بک کی وجہ سے میرا سر درد سے پھٹ رہا ہے -----
آپ کی سوچ میرے بارے میں بہت اچھی ہےthanks----- اللہ حا فظ آپ نے بہت بنا لیا مزاق میرا میرے پیار کا--- آپ کو میرا پیار میں ڈرامے باز لگتی ہوں آپ کو یقین نہیں جب آپ مجھ سے خوش نہیں جب میں ڈرامہ ناٹک کرتی ہوں تو پھر بات ہی کرو----- مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے آپ وہی شخص ہوں جس سے میں کل بات کی تھی پیار کیا تھا---- قدر نہیں کی رضا ایک دن روؤں گے مگر میں نہیں ہوگی----- رضا کسی کو اتنا نہ ستاؤ کہ وہ اللہ کے سامنے آپکا نام لے کر رو پڑے ---- جا رہی ہوں میں آپ کو بلاک کر کے روز رونے سے بہتر ہے کچھ دن رو لیا جائے-----
ہچکیوں سے روتے ہوئے اس نے یہ مسیج ٹائپ کیا--- رضا آج کل غصے میں بالکل پاگل ہو جاتا تھا جو دل میں آتا بول دیتا زرا خیال نہیں تھا اس کو کہ اس سے اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی-----
مجھے بلیک میل نہیں کروں جانا ہے تو شوق سے جاؤں میرے سامنے اب تمہارے یہ ڈرامے نہیں چلے گے---
میرا پیار ڈرامہ ہے thanks آج یہ ڈرامہ ختم ہمیشہ کے لیے بائے---
وہاں سے فورا رپلائی آیا ---
یہ سب ڈرامے stories میں اچھے لگتے ہے محمل تم ڈرامے لکھنے کے ساتھ ساتھ ڈرامے کرتی بھی ہوں اپنی لائف میں ----
یہ مسیج ریڈ کرنے کے بعد اس نے رضا کو بلاک کر کے لاگ آؤٹ کیا ---- اور وہی دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی--- رضا نے آج غصے میں ہو حد کراس کر دی تھی اس کا ایک ایک لفظ محمل کے دل میں تیر کی طرح پوست ہو رہا تھا -- اس توہین پر اس کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا--- عورت ہر درد سہہ لیتی ہے-- مگر توہین نہیں --- آنسو اس کے تکلیف میں اتنے نہیں نکلتے جتنے وہ الفاظ اسے رلاتے ہیں جس میں اس کی توہین کی گئی ہوں شاید اس لیے لوگ عورت کو کمزور سمجھتے ہے کیونکہ وہ الفاظوں سے ٹوٹ جاتی ہے
××××
رات کے دو بجے کا عمل تھا کمرے میں زیرو پاور کے بلب کی غیر واضح سی روشنی اور سرد سی خاموشی تھی-- ساری کائنات ہو کے عالم میں ڈوبی ہوئی لگ رہی تھی -- رات کے اس پہر رضا گم صم ، شعور سے بے بگانہ جاگتے ہوئے تیسری رات بتا رہا تھا -- اس کے گھنے بال خاصے الجھے ہوئے تھے اس کا ہلکا سانولہ رنگ سیاہی مائل لگ رہا تھا آنکھوں کے پپوٹے رت جگے کی وجہ سے سوجے ہوئے تھے نیند بہت بے کل سی اس کے کھلی آنکھوں کو بند کرنے کے لیے کروٹیں بدل رہی تھی-- مگر اس کے ماتم کناہ وجود کا نیند اور سکون سے رابطہ ٹوٹ چکا تھا اس کے کئے گئے پختہ ارادے ، سجائے گئے خواب لاحاصل کا دکھ اس کے اندر بین ڈال رہے تھے -- متضاد سوچوں کی آما جگا بنا بوجھل اور بھاری سر اس نے بمشکل اٹھایا -- خالی خالی نظروں سے سارے کمرے کو اجنبیت سے دیکھا کمرے کے ایک ایک چیز اس نے اپنے ہاتھوں سے اجاڑ دی تھی-- بیڈ کی چادر زمین پر رل رہی تھی -- تکیے ادھر ادھر کارپٹ پر پڑے تھے، ڈریسنگ ٹیبل پر دھری پرفیومز ، لوشن وغیرہ زمین پر پڑی تھے کچھ پرفیومز کی بوتلیں ٹوٹ چکی تھیں --- جب بھی محمل اس سے ناراض ہو جاتی تھی تو اس کی حالات ایسی پاگلوں جیسے ہو جاتی تھی -- اور اس بار تو محمل نے ہمیشہ کے لیے بائے کہا تھا--- کسی کا چھوڑ جانے کا احساس کچھ اور چیز ہے اور کسی کا دور جانے احساس کچھ اور--- دور جانے والے کی واپسی کا یقین ہوتا ہے ایک امید تو ہوتی ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ دور ہے مگر ہمارا ہی ہے جبکہ چھوڑ کر جانے والے جب اپنی واپسی کے سارے دروازے بند کر جائے جب انسان کس امید پر زندہ رہے--- اس خیال سے ہی اس کا دل بند ہو رہا تھا کہ محمل نے اسے چھوڑ دیا ہے اس نے ان دنوں بے تحاشہ اسموکنگ کی تھی حالانکہ وہ سگریٹ پینے کا عادی نہ تھا ایش ٹرے سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھر گیا تھا--- اس نے کمرے کا جائزہ لے کر سر کو دائیں بائیں جھٹکا اس دوران اس کے زہن میں محمل کی کتنی ہی یادیں ابھرنے لگی تھیں اس کی باتیں ، دھیمی دھیمی مسکان ، چھڑ چھاڑ اسے خود سے بے گانہ کرنے لگے--- اف مجھے کیا ہو جاتا ہے میں نے کیوں محمل کو ناراض کیا آخر میرا اپنے غصے پر کنٹرول کیوں نہیں اس سب حالات کی زمہ دار وہ تو نہیں پھر میں بلاوجہ اس پر کیوں غصہ کرتا ہوں کیوں -----اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں سر گرا دیا--- وہ اس سے ناراض تھی اور کتنے ہی دنوں سے اس سے بات نہیں کر رہی تھی مگر آج اسے کسی پل چین نہیں آرہا تھا-- وہ اس وقت کسی زہنی مریض کی طرح لگ رہا تھا--- پتا نہیں وہ کس حال میں ہوگی رو رو کر تو اس نے اپنا برا حال کر دیا ہوگا--- یہ خیال آتے ہی وہ بے چینی سے اٹھ کر بکھری چیزوں کو مزید بکھیرتا موبائیل ڈھونڈنے لگا-- تھوڑی سی کوشش کے بعد موبائیل مل گیا--- جلدی سے محمل کا نمبر ڈائل کیا -- اسے ابھی اور اسی وقت محمل کو منانا تھا صبح تک وہ انتظار نہیں کر سکتا تھا--- اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنے کے لیے کھڑکی کے دونوں پٹ کھول دیئے اور موبائیل کان سے لگا لیا۔۔۔۔۔۔
××××
رات کے بارہ بجے کا ٹائم تھا وہ گم صم سی ٹیرس میں کھڑی تھی -- سرد ہوائیں چل رہی تھی اس کو سردی لگ رہی تھی مگر اسے کوئی پرواہ نہ تھی-- تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں آگئی اور صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنا سر گھٹنوں میں لیا--- سامنے بیڈ پر نور بے خبر سو رہی تھی ---- اسے اس وقت رضا کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی اور وہ چپ چپ کر روتی رہی --- اس نے بہت کوشش کی مگر اسے بھول نہیں پارہی تھی اس کی باتیں ،اس کے دعوے ، وعدے اور محبت یاد آتی تو وہ اس کع چھوڑنے والے فیصلے پر ڈگمگا جاتی تھی مگر جب اس کا وہ توہین آمیز رویے کا سوچتی تو پھر سے اپنے فیصلے پر ڈٹ جاتی تھی --وہ اس کو پانا بھی نہیں چاہتی تھی اور کھونا بھی عجیب بے بسی تھی-- دیر تک رونے کے بعد اس نے فیصلہ کر لیا ک اسے کیا کرنا ہے-- وہ بہت انا پرست باوقار ، اور خودار لڑکی تھی اور اسے لوگ محبت اور اور عزت میں ہمیشہ انا اور عزت نفس کا ہی انتخاب کرتے ہیں اور اس نے بھی عزت کی وجہ سے رضا کو چھوڑنے کا فیصلہ بلاآخر کر ہی لیا عزت جیت گئی محبت ہار گئی اور وہ اپنی محبت کی ہار پر ہچکیوں سے رو ہی رہی تھی کہ ایسے میں صوفے پر رکھا اس کا موبائیل بجنے لگا اور دیر تک بجتا رہا--- سکرین پر رضا کالنگ لکھا نظر آرہا تھا -- وہ رضا کی کال اٹینڈ نہیں کرنا چاہتی تھی مگر پھر جانے کیا سوچ کر ریسیو کیا لیکن چپ رہی---
محمل----
رضا اس کا نام لے کر آگے بولنا ہی بھول گئے---
محمل نے کوئی جواب نہیں دیا -- ان کے آنکھوں سے آنسو اپنے آپ گرنے لگے تھے ----
محمل تم ٹھیک ہو نا؟ رضا نے ہمت کر کے کہہ دیا ----
ٹھیک ہو یا نہ ہوں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے رضا ----
وہ کہہ کر جیسے مسکرائی ---
رضا پر بجلی سی گر ی---
تم ابھی تک مجھ سے ناراض ہوں ؟
اس کے حالت کے مقابلے میں یہ سوال بہت بودا سا تھا---
ناراض اور میں ---- نہیں ---- ناراض تو آپ مجھ سے ہو سکتے ہیں --- میں نہیں یہ حق آپ نے مجھے کہا دیا گیا ہے-----
پلیز محمل طنز نہیں کروں میں واقعی تم سے بہت شرمندہ ہوں سوری رئیلی سوری آج معاف کر دو next time ایسا نہیں کروں گا----
طنز اور میں یہ گستاخی میں کیسے کر سکتی ہوں ؟ اور رہی بات آپ کے شرمندہ ہونے کی تو وہ تو آپ ہر بار ایسا بولتے ہیں کہ next time ایسا نہیں کروں گا مگر وہ next time کبھی آیا ہی نہیں ----
اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں ----
پلیز محمل مجھے معاف کر دو میں تمہارے بنا ایک پل کو بھی نہیں رہ سکتا --- تمہاری ناراضگی سے میرا دل بند ہو جانے کو ہے----
آپ کو معلوم ہے دل بند ہو جانا کسے کہتے ہیں ؟---- ہاں -----
اس نے اپنی ناک رگڑی اور ایک گہری سانس لی----
جب جان سے پیارا ناراض ہو تب یہ دل بند ہوتا ہے-----
رضا کو بولنا ہی پڑا----
رضا دل تب بند نہیں ہوتا جب جان سے پیارا ناراض ہوں یہ تب بند ہونے لگتا ہے جب کوئی جان سے پیارا آپ کو ڈرامے باز کہے جب وہ کہے --- جانا ہے تو شوق سے جاؤں اور جب بات بے بات بے عزتی کرے زلیل کرے تب یہ دل بند ہوتا ہے----
آنسو آنکھوں سے ٹپ ٹپ گر رہے تھے---
محمل میری بات سنو خدا کے لیے-----
رضا کانپ گئے اس کے انداز پر-----
آج مجھے آپ کی کوئی بھی بات نہیں سننی ہے آپ چپ کر کے صرف مجھے سنو میں نے اسی دن آپ کو چھوڑ دیا تھا اور اس فیصلے پر ابھی بھی قائم ہوں کیونکہ آپ کی نظر میں میری کوئی عزت نہیں ہے----
تمہارے اس فیصلے نے میرے لب سی دیئے ہیں محمل میرے ہونٹوں پہ قفل پڑگیا ہے--- گو کہ میرے زہن و دل میں ان گت سوال اٹھ رہے ہیں میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر تم کو جدا ہی ہونا تھا تو ملی کیوں تھیں مجھے ---- لیکن جانتا ہوں تمہارے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہوگا تم مجھے لاجواب کر دو گی مگر محمل مجے ایک بات بتاؤں ---- کیا تم خوش رہ پاؤگی میرے بغیر----
عجیب سوال تھا---
اس کی آنکھوں میں کرچیاں چبھنے لگیں ---
جب کتاب زیست سے محبت کا باب ہی مٹا ڈالا ہے تو خوشی غم کا سوال کیسا --- جینا تو پڑتا ہے نا چاہے خوشی سے جیو یا اداسی سے --- زندگی کے دن تو پورے کرنے پڑتے ہے نا ----
تم نے ٹھیک نہیں کیا میرے ساتھ محمل ----
وہ رو دینے کو تھا ---
آپ نے کونسا میرے ساتھ اچھا کیا ہے آپ پر جو بھی مشکلات آئے اس سب میں میرا کیا قصور تھا -----
اس کی کئی گھنٹوں تک رو چکی آنکھوں نے پھر سے خود کو آنسو ؤں کے حوالے کر دیا----
محمل ---- رضا اتنا ہی بول پائے----
مجھے عزت کے ساتھ محبت چایئے--- میں محبت کو داغ نہیں بنانا چاہتی ---- اور بے وفائی میری فطرت نہ تھی لیکن اس فیصلے پر آپ نے مجھے مجبور کیا ہے --- میری ایک طرف محبت ہے اور دوسری طرف عزت --- میرا فیصلہ عزت کے حق میں گیا ہے --- اور ایک بات اور میں بے وفا نہیں ہوں -- یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا اور ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا ---- اللہ حا فظ----
محمل--- رضا نے بے اختیار اس کو آواز دی لیکن وہ فون بند کر چکی تھی
فون بند ہوتے ہی رضا کے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور اس کو ایسا لگا جیسے وہ اندھیروں میں ڈوب گیا ہے۔
محبت جیت ہوتی ہے
مگر یہ ہار جاتی ہے
کبھی دل سوز لمہوں سے
کبھی بے کار رسموں سے
کبھی تقدیر والوں سے
کبھی مجبور قسموں سے
محبت جیت ہوتی ہے
مگر یہ ہار جاتی ہے
کبھی یہ پھول جیسی ہے
کبھی یہ دھول جیسی ہے
کبھی یہ چاند جیسی ہے
کبھی یہ دھوپ جیسی ہے
کبھی مسرور کرتی ہے
کبھی یہ روگ دیتی ہے
کسی کا چین بنتی ہے
کسی کو رول دیتی ہے
کبھی لے پار جاتی ہے
کبھی یہ مار جاتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے
مگر یہ ہار جاتی ہے
××
ختم شد
 

umama khan
About the Author: umama khan Read More Articles by umama khan: 22 Articles with 51944 views My name is umama khan, I love to read and writing... View More