جذبے کسی کے بس میں نہیں (گیارہویں ،آخری قسط)

ہادی :کہاں لگی ہے۔
نایاب:دیکھائی دینے والی چوٹ نہیں ہے۔وہ ہادی کی معصومیت اور اپنی بے بسی کو آج جس شدت سے محسوس کر رہی تھی ،کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔اس کا جی چاہا کہ آفتاب کو فون کر کے بولے کے وہ ہادی کو یہاں سے لے جائے، لیکن اس کی ہمت نہ ہوئی۔
ماہم:کافی دیر بعد ماہم نے نایاب کواس کی کہی ہوئی چیزیں لا کر دیں۔ بہت رات ہو گئی ہے ،نایاب۔اب سو جاو۔
نایاب:ہاں رات تو ہو ہی گئی ہے۔ماہم کمرے سے چلی گئی۔ نایاب نے سوچا ایسی رات ہو گئی ہے ،کہ جس کی صبح ہونا اس کی زندگی میں ممکن نہیں۔کیسی بھیانک رات ہے ،کاش میں آفتاب کی منت سماجت کر کے ہی طلاق دینے سے روک لیتی ،کیوں مجھے اِتنا غصہ آگیا تھا۔
وہ تو پہلے ہی غصے میں تھے ،اور میں نے مذید انہیں غصہ دلایا۔جانتے بوجھتے اپنے پاوں پر کلہاڑی مار لی ہے میں نے۔اے میرے اللہ اب میں کیا کروں۔وہ پھر سے رونے لگی۔کاش یہ کوئی خواب ہو اور سب پہلے سا ہو جائے۔وہ اسی طرح سے روتی رہی ۔اسے اپنا اور اپنے بچوں کا وجود ایک بوجھ لگ رہا تھا۔اس کی سوچیں اسے سونے نہیں دے رہی تھیں۔
کاش کہ میں مذید پڑھنے لکھنے کی ضد کرتی تو آج اس قابل ہوتی کہ اپنے بچوں کو اور اپنی ذات کو سنبھال سکتی۔محبت کی تکمیل کے شوق میں پڑھائی میں بھی من نہیں لگا پائی میں تو ۔ صرف آفتاب کو ہی سب کچھ سمجھتی رہی اور آج اس نے اتنے سالوں کی میری خدمت کو یکسر فراموش کر دیا۔
کاش کہ میں نے کبھی اس کے بارے میں سوچا ہی نہ ہوتا، مگر کیسے نہیں سوچا ہوتا ،میری ماں اور میری خالہ نے میرے دل میں آفتاب کی ،خواہش کا بیج پیوست کر دیا اور میں اسے پانی دیتی رہی اپنے جذبوں کی دھوپ سے اسے پروان چڑھاتی رہی ،کاش ہمارے بڑے بچوں کے اندر اس قسم کے بیج پیوست نہ کریں۔ان کے اندر خود کچھ بننے کا جذبہ ڈالیں ۔آج میں کچھ بھی نہیں۔کیا ہے میرے پاس؟اس کی بے چینی بڑھنے لگی۔اس نے موباہل اُٹھا کر دیکھا ،رات کے سوا تین بجے تھے،سب لوگ سو رہے ہیں۔ہم سوتے ہوئے ہی تو ساری عمر گزار دیتے ہیں ۔بس کبھی انکھیں کھول کر سوتے ہوئے اور کبھی انکھیں بند کر کے سوتے ہوئے۔
ساری زندگی کا ایک بڑا حصہ کیسے گزار دیا ہے میں نے۔بچھے مڑ کے دیکھتی ہو تو کچھ بھی نہیں۔اگے دیکھتی ہوں تو بھی کچھ بھی نظر نہیں آتا۔اُسے گھٹن کا احساس ہونے لگا تو وہ اُٹھی وضو کیا اور تہجد ادا کی ،اسے عجیب سا سکون محسوس ہوا۔وہ نماز پر ہی سو گئی۔ آفتاب اور وہ ایک خوبصورت سے باغ میں بیٹھے ہیں ،نایاب کہتی ہے کیا یہ جنت ہے؟آفتاب مسکرا کر کہتا ہے ،جہاں سکون ہو وہی جنت ہے،جہاں رُک جانے کا من کرئے وہی جنت ہے،جہاں سوچیں منجمند ہو جائیں وہی جنت ہے۔اگر تمہیں لگتا ہے کہ یہ جنت ہے تو ہاں یہ جنت ہی ہے۔
نایاب اب ہم کبھی جدا نہیں ہوں گئےکیا؟تم کیسی پاگل ہو نایاب،انسان کبھی نہیں مل سکتے ،مٹی کے دو الگ الگ جسم ،رب کی بنائی دو مختلف روحیں کیسے مل سکتی ہیں؟ہم ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں سمندر کے دو کناروں کی طرح،ایک دوسرے کی ضرورت ہو سکتے ہیں لیکن مل نہیں سکتے۔ہم کبھی مل ہی نہیں سکتے تو جدائی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
نایاب :تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد،تو پھر کیوں کسی کے لیے دل تڑپتا ہے،اس کے مل جانے پر سکون مل جاتا ہے ،پھر کیوں انکھیں کسی کے لیے روتیں ہیں اور دل اس ہی کی خوشی کی دعا کرتا ہے۔
آفتاب:سب جذبے ہیں۔نایاب سب جذبے ہی تو ہیں۔ بادشاہ کو فقیر اور فقیر کو بادشاہ بنا دیتے ہیں۔انچینی کو محبت کی تلاش میں لگاتا ہے تو کبھی تخلیق میں،کبھی زمین کے اندر گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو کبھی آسمان سان کو رب نے بنایا ہی ایسے ہے، کہ اس کی بے چینی ختم نہیں ہوتی خواہ وہ کہیں بھی رہے ،کبھی وہ اس بے میں اُڑنے کی۔کبھی کسی کے دل میں بسنے کے لیے مرا جاتا ہے تو کبھی کسی کا دل توڑ کر بے نیاز رہتا ہے،یہ دل کا تڑپنا بھی وقتی ہے اور سکون کا ملنا بھی۔ہر وہ چیز جو ہم چاہتے ہیں وہ ہی سب سے قیمتی ہو جاتی ہے خواہ وہ قیمتی ہو یا نہ ہو۔رب جو کرتا ہے اچھے کے لیے کرتا ہے۔اس بات کو مان لینے سے ساری بے چینیاں دم توڑنے لگتی ہیں۔انسان اپنی ذات میں کامل ہونے لگتا ہے۔
نایاب :کیا واقعی جو ہوتا ہے۔ اچھے کے لیے ہوتا ہے؟رونے کی آواز سے نایاب کی انکھ کھل گئی ۔میرے اللہ یہ خواب تھا۔
وہ اُٹھی حریم کے لیے دودھ بنانے لگی ،لیکن ایک عجیب سا اطمینان اس کے دل میں بھر آیا تھا۔جب انسان کبھی مل ہی نہیں سکتے تو پھر میں اپنی آخرت انسانوں کے لیے کیوں برباد کروں۔میرے بچے وہی سنبھالے گا جس نے اِنہیں زندگی دی ہے ،میں خواہ مخواہ رو رہی ہوں۔ اگر میں آج مر جاتی تو کیا ساتھ لے کر جاتی ۔صبح کی اذان کی آوازآ رہی تھی ،نایاب کو احساس ہوا کہ وہ کیسے بعض اوقات رب کی طرف جانے کی بجائے اپنے گھر کے کاموں کی طرف جانے کو فوقیت دیتی تھی۔
حریم کو دودھ دینے کے بعد وہ پھر نماز کے لیے وضو کر کے کھڑی ہو گئی ۔رب سے صبر اور سکون کی دعا اس کے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھی۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ہمیں سیدھا راستہ دیکھا۔راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ گمراہوں کا۔اس کی انکھوں میں سے پھر برسات ہونےلگی۔وہ کبھی بھی اس طرح کے جذبہ کے ساتھ نماز پر کھڑی نہ ہوئی تھی۔درد انسان کو رب سے قریب کر دیتا ہے۔وہ اس حقیقت سے آشنا ہو چکی تھی۔

آفتاب:اسلام علیکم ،عارف کیسے ہو؟
عارف :کہاں ہو تم سے میں نے کہا تھا ۔میری طرف آنا ۔
آفتاب تمہارے گھر کے باہر کھڑا ہوں ،باہر آو پھر چلتے ہیں۔
عارف:اندر آو ،چائے واے پی کر چلتے ہیں۔
آفتاب:نہیں ،بلکل دل نہیں۔
عارف:اچھا میں آتا ہوں۔
عارف :بہت غلط کر دیا تم نے ،لیکن جو ہو چکا ہے بدلا نہیں جا سکتا۔دیکھتے ہیں کیا کہتے ہیں سفیر صاحب۔
آفتاب :خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا۔عارف نے اسے راستہ سمجھایا۔
سفیر صاحب:کے پاس۔ ان سے پہلے ہی کمرے میں کافی لوگ بیٹھے تھے۔ان کے چہرے پر کوئی دھاڑی نہیں تھی ،چالیس ،بیالیس سال کے ہوں گئے۔آفتاب نے انہیں دیکھ کر سوچا ،ان کے چہرے پر تو مولویوں والی کوئی علامات نہیں ہیں۔یہ کیا بتائیں گئے میرے مسلوں کا حل۔
سفیر صاحب :نے اشارے سے آفتاب کو اپنی طرف بلایا۔عارف نے پاس آتے ہی سفیر صاحب کے ہاتھ کو چوم لیا۔آفتاب کو یہ سب حرکتیں بُری معلوم ہوتیں تھی،وہ پیروں فقیروں کو مانتا ہی نہیں تھا اس کا دل و دماغ یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ کوئی انسان کسی کے مسلہ حل کر سکتا ہے ہاں کوئی دین کی تعلیمات کے تحت مسلہ کا حل ذیاددہ بہتر بتا سکتا ہے ۔وہ اسی سوچ کے تحت آیا تھا۔سفیر صاحب نے مسکرا کر آفتاب کو دیکھا اور بولے ،بھائی اگر کسی کے بارے میں تمہارا دل بدگمان ہو جائے تو انکھوں کو جھکالو مبادا یہ ہو گا کہ اس انسان کو تکلیف ہو گی جس سے متعلق تم بدگمانی کر رہے ہو۔
آفتاب:اسلام علیکم ۔آفتاب نے دل میں سوچا ۔میرے دل کی بات ،اسے کیسے معلوم ہوئی۔
سفیر صاحب : واعلیکم اسلام۔ بات یہ ہے کہ انسان کی انکھیں دل کا آئینہ ہوتی ہیں وہ بتا دیتی ہیں اس کے حالات اور اس کی سوچیں۔
آفتاب:عارف نے آپ کو بتایا ہےکچھ میرے بارے میں۔
سفیر صاحب:نہیں،تم خود بتاو ۔تم یہاں کیوں آئے ہو۔
آفتاب:مجھے عارف نے بتایا کہ آپ دین کا علم رکھتے ہیں، میں جاننا چاہتا ہوں کہ میرے مسلہ کا کوئی حل ہے کیا دین میں۔
سفیر صاحب:اوہ اچھا ،بولو مسلہ کیا ہے۔
آفتاب :غصے میں میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے ،جبکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری زوجیت میں واپس آجائے ،کیا یہ ممکن ہے؟
سفیر صاحب:تم نے کتنی طلاقیں دیں ہیں؟
آفتاب :تین طلاقیں دیں ہیں؟
سفیر صاحب :ایسے بولا تھا ،تمہیں طلاق ،طلاق ،طلاق دیتا ہوں یا پھر توقف کیا تھا۔میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔پھر میں تمہیں طلاق دیتا ہوں؟
آفتاب:توقف کیا تھا۔
سفیرصاحب:پھر تو طلاق ہو گئی ۔
آفتاب:کوئی حل نہیں؟میرے دو چھوٹے بچے ہیں۔کچھ گنجائیش نہیں ہے کیا؟
سفیر صاحب:دیکھو گنجائش تو ہے ؟لیکن بہت سخت آزمائش کے ساتھ۔ ۔
سفیر صاحب:طلاق دینے کے بعد اگر کوئی میاں بیوی اپنی غلطی کو سدھارنا چاہیں تو ان کو ایک سخت آزمائش سے گزرنا ہوتا ہے اسے حلالہ کہتے ہیں۔اس شرط کو پورا کرنے کے لیے عورت کو شادی کرنا ہوتی ہے کسی دوسرے آدمی کی زوجیت میں آنا ہوتا ہے اور پھر وہ آدمی اپنی خوشی سے اسے طلاق دے تو وہ اپنے پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے۔
آفتاب:حلالہ ،وہ نہیں مانے گی۔اس نے خود سے بات کرتے ہوئے ،دھیرے سے کہا۔
سفیر صاحب:کیا ہوا؟مشکل ہے نا؟بہت مشکل ۔اسی لیے تو رب نے غصہ کو حرام کہا ہے ۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ انتہائی غصہ اور خوشی میں فیصلہ نہ کرو۔
آفتاب:کوئی اور حل نہیں ہے؟کچھ اور نہیں ہو سکتا۔اللہ کوئی اور راستہ نہیں نکال سکتا؟
سفیر صاحب : نے انتہائی سنجیدگی سے آفتاب کو دیکھا اور بولے ،اللہ سب کچھ کر سکتا ہے،راستے بھی نکال سکتا ہے وہ تو مسبب الاسباب ہے۔مگر یہ تم پر ہے کہ تم مانگتے ہوئے اس کو متاثر کر سکتے ہو کہ نہیں۔لگن سچی ہو تو رب انسان کے لیے اپنے اصول توڑ دیتا ہے۔
آفتاب:میری سمجھ میں نہیں آیا آپ کیا کہہ رہے ہیں۔
سفیر صاحب: میں تمہیں ایک چھوٹی سی کہانی سناتا ہوں شاہد کہ تمہیں میری بات سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔ایک حکایت ہے ،ایک دفعہ ایک عورت حضرت موسؑی کے پاس آئی اور اپنے لیے اولاد کی درخواست کی اور کہا،کہ آپ جب رب کے ہاں ملنے جائیں تو میری درخواست پہنچائیں۔حضرت موسؑی نے اللہ سے التجاؑ کی اور عورت کی درخواست پیش کی ۔رب نےفرمایا کہ اے موسیؑ اس عورت کی تقدیر لکھی جا چکی اس کی اولاد نہیں ہو گی۔اے موسؑی اب جب اگلی بار آو تو میرے بندوں سے کہنا کہ اپنے جسم سے گوشت کا ایک چھوٹا ٹکڑاکاٹ کر دو ۔جو تم میں رب سے محبت کا دعویٰ کرتا ہو،اس کو کہنا کہ تمہارا رب مانگتا ہے وہ لیتے آنا۔حضرت موسؑی واپس آئے اور عورت کو تقدیر کا لکھا بتایاکہ تیری اولاد کبھی نہیں ہو گی۔
دوسری بار جب رب سے ملاقات کے لیے جانا تھا تو رب کا حکم بندوں تک پہنچایا کہ رب چاہتا ہے کہ اس کا کوئی بندہ جو اس سے بہت محبت کا دعوی کرتا ہے ۔اپنے جسم کے گوشت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹ کر دے ،دینا لازمی نہیں ہے جو سمجھتا ہے کہ وہ پیار کرتا ہے بہت ذیادہ اپنے رب سے۔ اس کے لیے حکم ہے۔سب لوگ خاموش رہے ان میں سے ایک فقیر اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے جسم کے مختلف حصوں سے گوشت کاٹنے لگا یہاں تک کہ لہو لہان ہو گیا۔حضرت موسؑی نے فرمایا۔رب نے تو صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا مانگا تھا تو نے یہ کیا کیا؟
وہ فقیر بولا حضرت مجھے کیا معلوم کہ رب کو جسم کے کون سے حصے کا گوشت چاہیے تھا اور محبوب سے اس کی خواہش جاننے کے بعد دوسری بار سوال کرنا تو محبت کی توہین ہے ،جاو جا کر میرے رب کو میرے یہ گوشت کے ٹکرے دے کر کہنا کہ میں نے جسم کے ہر حصے کا گوشت دیا ہے جو پسند ہو قبول فرمائے۔
آفتاب: اس کہانی کا میرے مسلہ سے کیا تعلق ہے وہ تھوڑا الجھ گیا۔
سفیر صاحب:بھائی یہی تو ہے کہ انسان بڑا ہی بے صبرا اور ناشکرا ہے تم نے کہانی پوری کہاں سنی ہے بول پڑے ہو۔سنو مکمل سنو۔
جب حضرت موسؑی اسی عورت کے گھر کے پاس سے کچھ عرصہ بعد گزرے تو اس کے گھر میں بچوں کی کلکاریوں کی آواز سنی ،اندر دیکھا تو وہ اسی کے بچے تھے جن سے وہ پیار کر رہی تھی۔حضرت موسؑی جب رب سے ملے تو استفسار کی یا اللہ اس عورت کے ہاں تو اولاد پیدا ہو گئی تو نے تو کہا تھا اس کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی ،یہ کیسے ہو گیا؟
اللہ تعالی نے فرمایا،اے موسؑی تجھے یاد ہے میرا وہ بندہ جس نے جسم کے سارے حصوں کا گوشت میری نذد کیا تھا ،دوبارہ سوال نہیں کیا کہ مجھے جسم کے کون سے حصے کا گوشت چاہیے تو جب اس عورت نے اس کو دُعا کا کہا اور اس نے دُعا کی تو میں کیسے دوسری بار اس سے سوال کرواتا میں نے اس کی دُعا قبول کر لی اور اس عورت کو اولاد بخش دی اس کی خواہش کے مطابق۔
سفیر صاحب نے آفتاب کی طرف دیکھا۔رب راستے نکال لیتا ہے جب نکالنا چاہتا ہے۔جب اس سے یقین سے دعا کی جاتی ہے تو قبول ہوتی ہے وہ عطا کر دیا جاتا ہے جو چاہت ہو۔میں نے ایسا بھی دیکھا ہے کہ لوگ اپنی چاہت لے کر رب کے پاس جاتے ہیں اور رب ان کی چاہت بن جاتا ہے ۔
آفتاب:مطلب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر میں دل سے دعا مانگوں تو حلالہ کے بغیر بھی میری بیوی مجھے مل سکتی ہے ،آفتاب نے بے یقینی سے کہا۔
سفیر صاحب:دل سے دُعا کا مطلب یقین سے بھرپور دعا ہے۔
قرآن پڑھا ہے کبھی ترجمہ کے ساتھ۔اگر نہیں تو قرآن پڑھو مکمل ترجمہ کے ساتھ۔جب پڑھ چکے تو میرے پاس آنا۔پڑھنے سے مراد صرف پڑھنا نہیں ،سمجھنا ہے۔
آفتاب: قرآن پڑھنے سے میرے بیوی بچے گھر آجائیں گئے؟
سفیر صاحب :تم کیا سوچتے ہو۔اسی بات پر ہی ہر بات کا انحصار ہے۔میں تمہاری طرف منہ کر کے بیٹھا ہوں اور تم میری طرف۔ہم دونوں کے درمیان اگر کوئی شے رکھ دی جائے اور مشاہدہ کرنے کا بولا جائے تو تم وہ نہیں دیکھ پاو گئے جو میں دیکھ رہا ہوں اور میں وہ نہیں دیکھ پاوں گا جو تم دیکھ رہے ہو ۔اب شے کا درست مشاہدہ کرنے کے لیے لازم ہے کہ شے کو دوسرے کی جانب سے بھی دیکھا جائے۔میں نے تو اپنی ناقص رائے دے دی۔ قرآن مجید کو خود ترجمے سے پڑھو۔ممکن ہے کہ تمہیں وہ حل مل جائے جس کی تمہیں تلاش ہے۔
آفتاب: قرآن میں جو ہے وہی رہے گا میری چاہت سے بدلے گا تھوڑا ہی۔
سفیر صاحب:مسکرائے،ہماراسب سے بڑا مسلہ یہ ہی ہے کہ ہم خود کچھ نہیں کرنا چاہتے اور پھر دوسرے کے کیے میں نقص بھی نکالتے ہیں۔قرآن بہت آسان ہے سمجھنے والوں کے لیے ،کیونکہ اسے رب سمجھاتا ہے ،تمہاری دنیا بکھر گئی ،بیوی ۔بچے دور ہو گئے۔سوچو جب دنیا چھوڑ کر جاو گئے تو بھی بیوی بچوں نے ساتھ نہیں جانا۔انسان رب کے بغیر ادھورا ہے ،رب کو انسان نہیں انسان کو رب چاہیے۔اپنے اندر جھانک کر دیکھو ،ہر مسلہ حل کے ساتھ موجود ہے۔ بس ذات میں وہ خاموشی اتارنا سیکھو جو رب اور بندے کے درمیان ہوتی ہے۔اگر تم وہ دیکھ پائے جو میں تمہیں دیکھنے کا بول رہا ہوں توتمہارے سارے سوال ختم ہو جائیں گئے۔
آفتاب :عارف چلیں اب ،عجیب مایوسی میں آفتاب نے عارف سے کہا۔
عارف :میں پھر حاضری دو گا ،میرے دوست کو اپنی دعا میں یاد رکھیے گا ،عارف نے سفیر صاحب کے ہاتھ کو چومتے ہوئے کہا۔
آفتاب:دھیرے سے اللہ حافظ کہہ کر نکلنے لگا۔تو سفیر صاحب نے اسے نماز کی ٹوپی اور ایک تسبیح دی۔یہ آپ کو یاد دلائے گی کہ آپ یہاں ایک دوست سے ملنے آئے تھے۔اپنی دعا میں مجھے یاد رکھیے گا۔
آفتاب نے حیرت سے سفیر صاحب کو دیکھا۔آپ مجھے دعا کا بول رہے ہیں۔مجھ جیسے کو۔
سفیر صاحب:کون رب کے کتنا قریب ہے یہ تو رب ہی جانتا ہے،ہم تو سب اسی کے بندے ہیں خطا کار و گنہگار ،انسان کبھی گناہ سے پاک نہیں ہوتا۔وہ پھر بھی بندہ رہتا ہے اپنے رب کا بندہ ،۔۔۔۔۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد سفیر صاحب نے کہا غلام۔
آفتاب:نے ٹوپی اور تسبیح لی اور عارف کو چلنے کا نظروں ہی میں بولا۔
عارف:کیسا سکون ہے نا اس شخص کے پاس۔
آفتاب :مجھے تونہیں محسوس ہوا ،حلالہ تو بہت مشکل شرط ہے ،میری بیوی تو کبھی نہیں مانے گی۔
عارف:کہہ کر دیکھ لو ،تمہارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔
آفتاب :مایوسی کے عالم میں گھر لوٹ آیا۔باقی کا پوا دن اس نے سو کر ہی گزارا۔دوسرے دن آفتاب نے ہادی اور نایاب کے کپڑے ان کے کھلونے اور چاکلیٹ کے ڈبے وغیرہ جا کر نایاب کوپہنچا دیے۔ احمر نے آفتاب کو گھر کے اندر نہیں آنے دیا ،دروازے سے ہی واپس بھیج دیا۔
نایاب:ماہم میں تمہارا ہاتھ بٹاتی ہوں۔ ویسے بھی تمہیں اس حالت میں آرام کرنا چاہیے۔
ماہم:نہیں اگر تم یہاں نہیں ہوتی تو بھی تو کرتی کام ،کام سے کچھ نہیں ہوتا۔تم ہادی کو دیکھو وہ احمر کے پاس نہ جائے بس۔
نایاب:خاموش ہی رہی۔زندگی بدلتی ہے تو لوگوں کے لہجے اور رویے بھی بدلنے لگتے ہیں ۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔آج چار دن ہو چکے تھے ،اسے یہاں آئے ہوئے۔
دروازے پر دستک ہوئی ۔سمن اپنی کسی دوست کے ساتھ آئی تھی۔
سمن:نایاب سے ملتے ہوئے ،کیسی ہو یار ،تمہاری ڈیووس کا سن کر بہت دُکھ ہوا ،نور جہاں خالہ سے پتہ چلا کیا کیا ہوا۔امی کی طبیعت اتنی خراب تھی تین دن سے آفس بھی نہیں گئی میں تو ،آج آفس گئی تھی۔تو سوچا تمہاری طرف چکر لگا لوں۔
ماہم:میں چائے لاتی ہوں۔
نایاب:آنٹی اب کیسی ہیں؟
ماہم:کافی بہتر ہیں ۔فل ٹائم ماسی بھی ہوتی ہے ،جب میں آفس سے گھر جاتی ہوں تو وہ جاتی ہے،پر امی کی فکر لگی رہیتی ہے۔تم بتاو،
نایاب:کیا بتاوں؟کچھ دیر کی خاموشی کے بعدتمہاری زندگی اچھی ہے۔ کاش میں بھی تمہاری طرح تعلیم مکمل کرتی تو آج سب پر بوجھ نہ بن کر بیٹھ جاتی۔
ماہم:کسی نے کچھ کہا تم سے ،ماہم نے؟سمن نے افسردگی کے لہجے میں کہا؟
نایاب:نہیں ،احمر کو ہادی اور حریم اچھے نہیں لگتے اب ،وہ ہادی کو بُری طرح سے ڈانٹتا ہے ۔میں اُسے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔
سمن :تم میرے ہاں آکر رہو ،تم امی کے ساتھ رہو گی تو مجھے ان کی فکر بھی نہیں ہو گی۔بچوں کے ساتھ ان کا دل بھی بہل جائے گا۔
نایاب:تم چاہتی ہو کہ میں تم پر بوجھ بن جاوں ۔نایاب کی انکھوں میں آنسو تھے ،جنہیں وہ آنکھوں کے اندر روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
سمن:کوئی کسی پر بوجھ نہیں ہوتا۔رب ہر کسی کا رزق لکھنے والا ہے ۔تم اگر ہمارے ہاں رہو تو مجھے خوشی ہو گی۔
آفتاب:نے نایاب کو فون کیا۔رات کے ایک بجے تھے۔اسلام علیکم کیسی ہو نایاب؟مجھے معاف کر دو۔
نایاب:آپ ابھی تک سوئے نہیں؟
آفتاب :تم مجھے معاف نہیں کر سکتی،آفتاب کی آواز بہت مختلف محسوس ہو رہی تھی ،نایاب نے نرمی سے کہا میں نے آپ کو معاف کر دیا ،میرا رب بھی آپ کو معاف کرئے۔
آفتاب:مجھے کسی نے بتایا ہے کہ حلالہ کرنے سے ہم دوبارہ مل سکتے ہیں ۔نایاب کیا ایسا نہیں ہو سکتا ،کہ ہم دوبارہ مل جائیں؟
نایاب:نہیں ،مجھے معلوم ہے حلالہ کیا ہوتا ہے،وہ رونے لگی ، غلطی آپ نے کی اور آپ چاہتے ہیں سزا مجھے ملے۔آفتاب آپ ایسا کہہ بھی کیسے سکتے ہیں مجھ سے؟
آفتاب:نایاب ،تمہیں کیا معلوم یہ سزا تم سے ذیادہ مجھے ہی ملنے والی ہے ،اس بنانے والے رب نے یوں ہی نہیں رکھی یہ سزا،وہ رونے لگا۔
نایاب:آفتاب کو پہلی بار اس نے روتے ہوئے سنا تھا۔وہ کبھی اس کے سامنے نہیں رویا تھا ۔آپ خود کو سنبھالیں۔ آج گیارہ دن ہو گئے ہیں ،آپ بچوں سے دستبردار نہیں ہو سکتے ،آپ سن رہے ہیں نا ۔ میں کیا کہنا چاہ رہی ہوں۔
آفتاب :نے دھیرے سے کہا،ہاں میں سن رہا ہوں۔ہادی کی فیس دینی ہے،آفتاب نے اس کی آواز میں بےبسی محسوس کی۔
میں کل ہی تمہارے اکاونٹ میں پیسے ٹرانسفر کردوں گا۔آفتاب نے نرمی سے کہا۔میری ہادی سے بات کروا دو گی کل ،اس کی آواز سننے کو بہت جی چاہتا ہے۔وہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔کافی دیر دونوں خاموش ہی رہے۔
نایاب :آپ سو جائیں ، صبح آفس جانا ہے آپ کو۔
آفتاب :نیند ہی نہیں آتی تم تو نماز پڑھتی ہو نا،تم دُعا کرو میرے لیے۔ رب مجھے معاف کر دیے ،سب کچھ پہلے سا ہو جائے۔اس نے ایک آہ بھری۔
نایاب:آپ بھی پڑھا کریں نا نماز دل کا سکون اللہ کی یاد ہی میں ہے۔جو ہو چکا ہم اسے بدل نہیں سکتے ۔ اپنے اعمال پر نظر ثانی تو کر ہی سکتے ہیں۔ امی کہا کرتی تھیں۔ کہ جب ہماری نیکیاں کم اور گناہ ذیادہ ہو جاتے ہیں تو غم ہم پر مسلط کر دیا جاتا ہے۔آپ کے ساتھ شادی کے بعد میں نے تہجد پڑھنا بلکل چھوڑ دی تھی ،شاہد یہ اسی کی وجہ سے ہے۔اللہ تعالی نے مجھ پر غم مسلط کیا۔اب مجھے پتہ چلا کہ میں کس قدر ناشکری ہو گئی تھی۔اس نے کیا کچھ نہیں عطا کیا مجھے۔اب بھی میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔
آفتاب:تمہیں شکایت نہیں ہے کوئی مجھ سے ،رب سے؟
نایاب:نہیں، مجھے تو خود سے شکایت ہے۔آپ نے کہاں طلاق دینی تھی مجھے اگر میں اپنی زبان پر قابو رکھ لیتی تو۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد نایاب نے کہا۔رب نے کب کب اور کہاں کہاں میری مدد نہیں کی ،میرے رب نے مجھے کبھی مایوس نہیں کیا۔آپ کو اپنے کیے پر پچھتاوا ہے ،یہ بھی بہت ہے میرے لیے۔ آپ سے شکایت تو تب ہوتی جب آپ اپنے بچوں سے بھی منہ موڑ لیتے یا مجھ سے بچوں کو لے لیتے ،تب بھی میں کیا کر سکتی تھی۔
آفتاب:کچھ دیر خاموش ہی رہا،اس کا جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا ،اسے تیز بخار تھا۔ نایاب مجھے تہجد پڑھنی ہے اس کے لیے سونے کی شرط ہے آپ بھی سو جائیں۔
آفتاب :دل ہی دل میں سوچنے لگا ،کیسی پیار کرنے والی اور نیک بیوی کھو دی ہے میں نے۔اس نے اُٹھ کر دوا لی۔دوسرے دن آفس سے چھٹی کی ،سب سے پہلا کام ۔ اس نے نایاب کے اکاونٹ میں رقم بھیجنے کا کیا ۔نایاب کے فون میں بیلنس بھیجا۔اس نے آفس سے چھٹیاں لیں۔ اس کا دل کام میں بلکل نہیں لگ رہا تھا۔
آفتاب :کی طبعیت آج کافی دنوں کے بعد کچھ بہتر تھی ۔آج اس نے آفس جانے کا ارادہ کیا۔اس کا کسی چیز میں دل نہیں لگ رہا تھا۔بچوں کی آوازیں سننے کو اس کے کان ترس گئے تھے۔
آفس سے واپس آرہا تھا کہ گاڑی میں پڑی تسبیح اور ٹوپی دیکھ کر اس کو سفیر صاحب کا خیال آیا۔اس آدمی کی ساری باتیں اس کے ذہین میں گردش کرنے لگیں۔آفتاب جیسے ہی گھر پہنچا اس نے وضو کیا اور قرآن کو ترجمہ سے پڑھنا شروع کیا ۔وہ لگا تار پڑھتا جا رہا تھا۔اسے وقت کے گزرنے رات کے ہونے کا احساس تک نہ ہوا۔اب اس کا یہ معمول تھا ۔آفس سے آنے کے بعد نایاب کو فون کرتا ،ہادی کی باتیں سنتا ۔اُسے جلد آنے کی یقین دہانی کرواتا۔حریم کی آواز سنتا۔ساتھ لایا ہوا کھانا کھاتا۔عشاہ کی نماز کے بعد قرآن کی آیتوں کو ترجمہ کے ساتھ پڑھتا۔
وہ چوتھا پارہ پڑھ رہا تھا سورت آل عمران کی آیت۔ایک سو پچیس اور ایک سو چھبیس۔
ترجمہ:
جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورااللہ کا ذکراور اپنے گناہوں کا استغفار کرنے لگتے ہیں ،فی الواقع اللہ کے سوا اور کوئی گناہوں کو بخش بھی نہیں سکتا ،یہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ انہی کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اور جنتیں ہیں۔ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب بہت ہی اچھا ہے۔
آفتاب رونے لگا اور اپنے کیے ہوئے گناہ کی معافی مانگنے لگا۔میرے مالک تو خوب جانتا ہے میں نے کبھی دانستہ کسی کا دل نہیں دُکھایا۔میں تو بس جو ٹھیک سمجھتا تھا کرتا تھا ۔اب جب کہ میں جانتا ہوں کہ میں غلط تھا اور غلط ہوں تو تو مجھے درست ہونے کا ایک موقع دے دے۔اے میرے مالک مجھے معاف کر دے تو ہی معاف کرنے والا ہے۔مجھے اطمینان قلب نصیب کر۔وہ کافی دیر تک روتا رہا۔کب اس کی انکھ لگ گئی اسے خبر ہی نہ ہوئی۔
اس کی انکھ کھلی تو ساڑھے تین بجے تھے ،اس کے دل میں نایاب کا خیال آیا ،وہ تہجد پڑھ رہی ہو گی۔اس نے وضو کیا اور تہجد پڑھی ،وہ زندگی میں پہلی تہجد پڑھ رہا تھا۔اُسے احساس ہوا کہ نایاب کہاں سے اِتنا سکون اور صبر لائی ہے ،تہجد پڑھنے کے بعد اسے اپنے اندر خاموشی اُترتی ہوئی محسوس ہوئی ،اپنے رب سے قربت کا جو احساس اس نے محسوس کیا۔وہ انمول تھا۔
اس نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ اس امید سے پڑھنا شروع کیا تھا کہ رب اس کی غلطی کی سزا کچھ کم کر دے نایاب کے واپس گھر آنے کی کوئی راہ نکل آئے لیکن اب اس کے دل کی دنیا ہی بدل چکی تھی ۔وہ اپنے ہر عمل کو قرآن کی آیات کی روشنی میں دیکھنے لگا تھا۔
اس کے بات جیت کرنے کا طریقہ ،اس کی زندگی کا انداز ہی بدل گیا تھا۔وہ رات کو جلدی تلاوت قرآن کے بعد جلدی سو جاتا اور تہجد کے بعد بھی قرآن کی تلاوت کرتا ۔اس کا قرآن آج ختم ہو رہا تھا ، اِتنے کم دنوں میں اِتنی غور وفکر کے ساتھ اس نے قرآن ختم کیا تھا،اسے خوشی سے زیادہ شرمندگی ہو رہی تھی۔سچ ہے قرآن مجید میں انسان انتہائی ناشکرا ہے۔ مجھے جب رب نے ہر نعمت دے رکھی تھی تب میں قرآن کو کھول کر دیکھتا بھی نہ تھا اور اس تھوڑے سے عرصے میں نماز کا بھی پابند بن گیا اور قرآن کو بھی اس طرح پڑھا جس طرح پڑھنے کا حق تھا۔اس نے عارف کے ساتھ سفیر صاحب کے ہاں جانے کا ارادہ کیا۔
سفیر صاحب:اسلام علیکم۔عارف نے پھر سفیر صاحب کا ہاتھ چوما۔ آفتاب نے صرف اسلام علیکم ہی کہا لیکن اس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
آپ تو خوش لگ رہیں ہیں ،آفتاب صاحب۔کیا آپ کی بیوی حلالہ کے لیے مان گئی۔
آفتاب :نہیں میں خوش ہو کیونکہ آپ نے مجھے ٹوپی اور تسبیح دے کر ایک سوچ دی ،جس نے میری اندر کی دنیا ہی بدل دی۔ میری بیوی نے میری غلطی معاف کر دی۔میرے بچوں سے میری بات ہو جاتی ہے ۔مجھے اور کیا چاہیے۔میں رب کی رضا پر راضی ہوں ۔
سفیر صاحب:آپ نے قرآن پڑھا ترجمہ سے ۔
آفتاب:جی ہاں پڑھا اور سمجھنے کی کوشش بھی کی۔
سفیر صاحب :رب کی عطائیں بھی دیکھیں نا کیسی ہوتی ہیں۔ ایک ہی چیز کا اثر کیسا مختلف ہوتا ہے کوئی تو غم ملنے پر ٹوٹ جاتا ہے بکھر جاتا ہے ؟میں نے لوگوں کو نشہ کرتے ،خود کشی کرتے اوررب کو کوستے دیکھا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ خوشی بھی آزمائش ہے اور غم بھی۔
آفتاب:آپ سچ کہہ رہے ہیں۔
سفیر صاحب :میں آپ کو کچھ مذید کتابوں کے نام دیتا ہوں ۔ان کو بھی پرھیں ۔آپ کی سوچوں میں مذید بہتری آئے گی۔
آفتاب :نے ان کی کتابوں کے ناموں والی لسٹ کو دیکھا۔یہ تو دیگر مذاہب کے لوگوں کی کتابیں ہیں گیم آف لائف اینڈ ہاو ٹو پلئےاِٹ ،سیکرٹ، سیون ہیبٹ آف ہائیلی ایفیکٹیو پیپلز۔
سفیر صاحب:آپ کو کس نے کہا یہ کتابیں مذہب پر ہیں ، آپ نے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے نا۔ہر جگہ غور وفکر اور مشاہدہ کی دعوت ہے ۔کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ اپنا سارا وقت دین میں عبادت میں گزار دیں۔میرا ذاتی خیال ہے ،آپ چاہیں تو مانیں اور اگر چاہیں تو نہ مانیں۔رب کی ذات یہ نہیں چاہتی کہ ہم اس سے پیار کریں اور دنیا کو چھوڑ دیں ،بلکہ رب تو یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کے بندوں سے پیار کریں ،انسانیت کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔آپ کی سچائی ،ایمانداری اصل میں عبادت ہی ہے۔ آپ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔
آفتاب :جی اب کرنے لگا ہوں۔کچھ لوگوں کے نزدیک اشراق و چاشت ،پڑھنا ،تہجد پڑھنا بھی فرض نمازوں کی طرح ہی ہے۔لیکن میرا خیال ہے کہ ممکن ہے غلط ہی ہو لیکن میرا خیال ہے کہ آپ اپنے وقت کو ذیادہ بہترین عبادت میں لگا سکتے ہیں ۔وہ عبادت انسانیت کی خدمت ہے ،بھوکوں کو کھانا کھلانا ،غریبوں کی مدد کرنا ہے۔آپ اگر لیٹ کے سارا دن تسبیح کرتے رہے تو اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ آپ محنت سے پیسہ کمائیں اور ان لوگوں پر خرچ کریں جو کمانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ایسے طریقے سوچیں جن سے دوسرے انسانوں کی خدمت ہو سکتی ہے۔
آفتاب :مطلب آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ تہجد پڑھنا اچھا نہیں ہے؟
سفیر صاحب :ہر گرز نہیں ،میں کہنا چاہ رہا ہوں کہ تہجد بھی پڑھیں اور اپنے عملوں پر نظر ثانی بھی کریں،ایسا تو نہیں کہ کوئی فرد آپ سے مدد کا خواہاں ہےاور آپ بیٹھ کر تسبیح کر رہے ہیں اور اُسے مدد دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
آفتاب:سوچنے لگا،سچ ہے وہ آج کل کسی سے ملتا جلتا ہی نہیں ،کیسے پتا چلے گا کہ کسی کو اس کی ضرورت ہے بھی کہ نہیں۔
سفیر صاحب :کیا سوچ رہے ہیں؟مسکراتے ہوئے ،آپ یہ کتابیں پڑھ چکے تو بھی مجھ سے ملنے آئیے گا۔
آفتاب:تو پھر آپ مجھے کیا دیکھائیں گئے،پہلے آپ نے دین دیکھایا ،اب دنیا دیکھا رہے ہیں؟
سفیر صاحب:دین بنیاد ہے ہر علم کی تا کہ آپ کھوٹا اور کھرا پہچان سکیں۔دنیا کو چھوڑنا ہمارے دین میں ہے ہی نہیں۔رہی بات دیکھانے کی ،تو کوئی کسی کو کچھ بھی نہیں دیکھا سکتا ما سوا اس کے کہ کوئی خود دیکھنا چاہے۔
ماہم :نایاب چلو تم بھی ہمارے ساتھ چلو کچھ اوٹینگ ہی ہو جائے گی۔
نایاب:میرا کہیں جانے کو دل نہیں کر رہا ،کچھ دنوں سے عجیب سی طبیعت ہو رہی ہے۔
ماہم :اچھا ،ماہم اور احمر کا مزار قائد پر جانے کا ارادہ تھا۔وہ ابھی دروازے پر ہی پہنچے تھے کہ نایاب کو چکر آیا اور وہ نیچے گر گئی۔
احمر:میں اسے ڈاکڑ کے پاس لے کر جاتا ہوں ،احمر نے منہ بنا کر کہا۔
کو کچھ دیر بعد ہوش آگیا ،ڈاکڑ نے اسے بتایا کہ وہ ماں بننے والی ہے،وہ خوشی سے رونے لگی
آفتاب:جی ، میں کتابیں پڑھوں گا جو آپ نے مجھے پڑھنے کا کہا ہے۔آفتاب نے اس پیپر کو دیکھا اس پر صرف تین ہی کتابوں کے نام لکھے تھے۔
آفتاب:نے گھر جا کر نیٹ پر سرچ سٹارٹ کی اسے گیم آف لائف ہاو ٹو پلئے اِٹ فورا ہی مل گئی۔اس نے کتاب پڑھنا شروع کی۔
"Whatsoever a man soweth that shall he also reap." This means that whatever man sends out in word or deed, will return to him; what he gives, he will receive.If he gives hate, he will receive hate; if he gives love, he will receive love; if he gives criticism, he will receive criticism; if he lies he will be lied to; if he cheats he will be cheated. We are taught also, that the imaging faculty plays a leading part in the game of life.
اس کتاب کے پہلے ہی ورق کو پڑھ کر آفتاب کو محسوس ہوا کہ جس عورت نے یہ لکھی ہے ،واقعی تعریف کی مستحق ہے۔ اس نے کچھ دنوں میں ہی یہ کتاب بھی پڑھ لی اور پھر سفیر صاحب کی بتائی ہوئی دوسری کتاب سیکریٹ کی سرچ کی۔
جس کا لب لباب یہ تھا کہ انسان جو سوچتا ہے ،اس کی زندگی میں ہونے لگتا ہے۔
آفتاب کی نظر میں ایک مفتی صاحب کی کتاب جو کہ اسلامی مساہل پر مبنی تھی،اس میں بھی کچھ دن پہلے اس نے یہی پڑھا تھا۔مطلب یہی تھا الفاظ مختلف ،اس میں لکھا تھا کہ رب کہتا ہے میں اپنے بندوں کے لیے ویسا ہی ہوں جیسا وہ گمان کرتے ہیں۔
جو یہ سمجھتے ہیں کہ میں آسانیاں دینے والا ہوں ،تو انہیں آسانیاں ملتی ہیں،جو یہ سوچتا ہے کہ میں ان کی نہیں سنتا تو میں ان کی نہیں سنتا۔
آفتاب :دل ہی دل میں سوچنے لگا۔کیا ہی اچھا ہو کہ ابھی گھر کے دروازے پر دستک ہو اور نایاب اور میرے بچے آ جائیں۔
نایاب بولے سب کچھ بدل گیا ہے ،آپ خوش ہو جائیں۔ ہادی مجھ سے لپٹ جائے۔وہ یہی سوچ رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
نایاب:دروازے پر کھڑی تھی۔آفتاب نے دیکھا کہ نایاب نے حریم کو گود میں لیا ہے اور ہادی بھاگ کر گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ پاپا ،پاپا کہہ کر اس سے لپٹ گیا۔
احمر: نے سوٹ کیس رکھے ۔اچھا مجھے جلدی ہے میں چلتا ہوں کہہ کر وہاں سے نکل گیا۔
نایاب :آپ دروازے سے ہٹیں مجھے اندر آنا ہے۔
آفتاب :فوراً سے ہٹ گیا۔ کچھ دیر خاموشی سے وہ نایاب کو دیکھاتا رہا۔وہ آئینہ کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی ،اپنا سکارٖف اُتارا۔آفتاب ابھی تک نایاب کو دیکھ رہا تھا۔
نایاب:میں آج ہوسپٹل گئی تھی۔اس نے نظریں نیچے کرتے ہوئے کہا،میں امید سے ہوں۔ اللہ تعالی نے آپ کی اور میری سن لی۔ ہمیں ایک اور موقع دیا ہے ،زندگی کو سنوارنے کا۔
آفتاب :وہیں بیٹھ کر اونچی اونچی آواز سے رونے لگا۔اسے دیکھ کر نایاب کی انکھوں سے بھی آنسوجاری ہو گئے۔ہادی کیا ہوا پاپا کیوں رو رہے ہیں؟
ہادی نے نایاب کی طرف دیکھا ماما کیوں رو رہی ہیں،آپ دونوں کو کیا ہوا؟
آفتاب نے روتے ہوئے کہا اے اللہ تیرا شکر۔

نایاب:آج بہت دنوں کے بعد اپنے گھر میں سوئی تھی ،پھر بھی اس کی انکھ تہجد میں ٹھیک وقت پر کھل گئی اس نے تہجد ادا کی اور اپنے رب کا شکر ادا کیا جس نے اس کو پھر سے وہ سب کچھ عطا کر دیا تھا۔جس کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے اندر ننھے سے وجود کا بھی شکر ادا کیا ،جو اللہ کا انعام تھا۔
اس نے اپنا لیب ٹاپ کھولا۔ آفتاب کی تصویروں والا فولڈر کھول کر کچھ لمحے دیکھا ۔ ایک نیا فولڈر بنایا ۔اس پر شکر اللہ نام لکھا اور کچھ دیر سوچنے کے بعد کچھ شعر لکھے۔

لمہےسبھی قبولیت کے ہوتے ہیں۔
دل میں اگر یقین آ کر بس جائے۔
کیسے گِرنا اس کا پھر ممکن ہو۔
دل میں اگر دین آ کر بس جائے
دل روشن ہوتا ہے مثلِ چراغ۔
مالک مثلِ مکین آکر بس جائے۔
ختم شد۔
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 263221 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More