حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مثالی دورِ حکومت

حضرت عمر فاروقؓ کی اصلاحات اور کارناموں پر بڑے بڑے فلاسفر اور حکمران سردھن چکے ہیں۔ دنیا کا کوئی مؤرخ اور اسکالر حضرت عمرؓ کی اصطلاحات کو نظرانداز کیے بغیر سستے انصاف کے حامل اصول رقم نہ کر سکا۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو26 ذولحجہ23 ھ کو فیروز نامی پارسی غلام نے دوران نماز زخمی کر دیا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے یکم محرم کو دنیا سے رخصت ہوگئے دس برس چھ ماہ چار دن حکومت کر کے عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عدل و انصاف کے ایسے کارنامے سرانجام دیے جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی جب سے دنیا میں نظام حکومت قائم ہوا اس میں ایسے بھی حکمران آئے جن کے لیے لاکھوں انسانوں کو قتل کرنا ان کی املاک کو تباہ برباد کرنا کوئی مسئلہ نہ تھا ۔ ان میں سے بعض نے تو تفریحی کیلئے انسانوں کی کھوپڑیوں کی مینار بنائے تھے ان کی نظر میں انسان کی قدر بھیڑ بکری سے زیادہ نہ تھا ۔ کچھ حکمران ایسے بھی تھے تیئس لاکھ مربع میل کے علاقے کو فتح کر کے حکومت کرنے والا زاروں قطار رو رہا ہے۔کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ نہر کے پل سے بھیڑ بکریوں کا اجڑ گزرہا تھا پل میں ایک سوراخ تھا اس سوراخ میں آکر ایک بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی میں اس لیے رو رہا ہوں کہ کل خدا نے پوچھا کہ بتا تیری حکومت میں بکری کی ٹانگ ٹوٹی تو کیوں ٹوٹی ہے ۔ تو اس پل کو مرمت نہیں کروا سکتا تھا ۔ معزز قارئین اکرام یہ ہے حضرت عمر بن خطابؓ ۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے عدل و انصاف ، مساوات، امانت دیانت ، صداقت کا وہ درس دیا جس کی وجہ سے آپکو تمام حکومت کرنے والوں پر برتری حاصل ہے آئیے ان کی خوبصورت نظام حکومت پر روشنی ڈالتے ہیں۔
محمد کے صحابی کا وہ زمانہ یاد آتا ہے ۔
بدل کر بھیس گلیوں میں وہ جانا یاد آتا ہے ۔
نجف اس عہد کی مائیں جب آٹے کو ترستی ہے ۔
عمرؓ تیری خلافت کا وہ زمانہ یاد آتا ہے ۔
 

image
نام عمر والد کا نام خطاب ، تاریخ پیدائش مشہور روایات کے مطابق ہجرت نبوی سے چالیس سال قبل پیدا ہوئے ۔ شباب کا آغاز ہوا تو حضرت حضرت عمر فاروق ؓ ؓ ان شریفانہ مشغلوں میں مشغول ہو گئے جو شرفائے عرب میں معمول تھے پہلوانی اور کشتی میں خاص مہارت حاصل کی۔ دنگل اور کشتیاں لڑتے تھے ۔ حضرت عمرؓ 27سال کے تھے کہ عرب میں آفتاب رسالت طلوع ہوا ۔ حضرت عمر فاروق ؓ ؓ کیلئے اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے دعا کی کہ اے میرے رب عمر کو ہدایت دے اور اسلام کے نور سے منور فرما۔ حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں میں جوش اور ولولہ پیدا ہوا۔حضرت عمر فاروق ؓ نے جن غزوات میں شرکت کی ان میں غزوہ بدر، غزوہ سویق،غزوہ احد، غزوہ خندق، جنگ خیبر، غزوہ حنین شامل ہیں۔ اسلام میں خلافت یا حکومت کی بنیاد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے عہد سے شروع ہوئی۔ لیکن نظام حکومت کا دور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد سے شروع ہوتا ہے ۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی دوسالہ خلافت میں اگرچہ بڑی بڑی مہمات کا فیصلہ ہوا یعنی عرب کے مرتدوں کا خاتمہ ہوا اور بیرونی فتوحات شروع ہوئی۔ تاہم حکومت کا کوئی خاص نظام قائم نہیں ہوا ۔ اور نہ اتنا مختصر زمانہ اس کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ حضرت عمر ؓ نے ایک طرف فتوحات کو وسعت دی کہ قیصروکسرہ کی وسیع سلطنیتں ٹوٹ کر عرب میں شامل ہو گئیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور حکومت میں جن ملکوں اور علاقوں کو فتح کیا گیا ان میں عراق، شام، دمشق، حمس، یرموک، بیت المقدس، کساریہ، تکریت ، خوزستان، آذر بائیجان،تبرستان ، آرمینیہ، فارس، کرمان، سیستان، مکران ،خراسان، مصر، سکندریہ سمیت دیگر علاقوں کو فتح کیا اور اسلام کا پرچم سربلند کیا ۔ فتوحات فاروقی کی وسعت کا جائزہ لیں تو حضرت عمر فاروقؓ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ 2251030مربع میل میں تھا۔ حضرت عمرؓ نے جو فتوحات حاصل کی ان میں مسلم اور غیر مسلم مورخین نے بھی ان فتوحات کو سنہری حروف میں قلمبند کیا ۔ فتوحات کے اسباب کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام کی بدولت جو جوش ، عزم استقلال، بلند حوصلگی اور دلیری پیدا ہو گئی تھی ۔ جس کو حضرت عمر فاروقؓ نے زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا ۔ روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانہ میں اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھی البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئیں جنہوں نے فتوحات میں ہی نہیں بلکہ قیام حکومت میں بھی مدد دی ۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانتداری تھی جو ملک فتح ہو جاتا وہاں کے لوگ مسلمانوں سے اس قدر متاثر ہو تے کہ باوجود اختلاف مذہب کے سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے ۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلوں کے حقوق کا خیال رکھا حضرت عمر فاروقؓ کی دور خلافت میں مجلس شورہ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔مجلس شورہ کے ارکان مختلف علاقوں کا دورہ کرتے اور موقع پر ہی لوگوں کے مسائل حل کرتے اور ان کو مکمل انصاف فراہم کرتے ۔خلیفہ کو عام لوگوں کی طرح کے حقوق دیے گئے ملک کو صوبہ جات اور اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔

آج کے عہد کی جمہوری، اشتراکی، شورائی اور سرمایہ دارانہ حکومتوں کی اصلاحات، قواعد و ضوابط، طرز ہائے زندگی، ہر ہر شعبے اور ہر ہر سوسائٹی کا موازنہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور سے کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ محمدی شریعت کو چند ہی سالوں میں انسانوں کی فلاح کا سب سے آسان اور سہل ترین ذریعہ قرار دینے والے اس خلیفہ نے جو کام 1400 سال قبل کیا تھا، سارے طریقے آزمانے کے بعد بھی رعایا پروری کے ان اصولوں تک جدید حکومتیں نہیں پہنچ سکی ہیں۔

حضرت عمر فاروقؓ کی اصلاحات اور کارناموں پر بڑے بڑے فلاسفر اور حکمران سردھن چکے ہیں۔ دنیا کا کوئی مؤرخ اور اسکالر حضرت عمرؓ کی اصطلاحات کو نظرانداز کیے بغیر سستے انصاف کے حامل اصول رقم نہ کر سکا۔ حضرت عمرؓ کا عدالتی نظام عصر حاضر کی طرح نہ تھا۔ انتہائی آسان اور سہل انصاف آپؓ کی خصوصیات میں ہے۔ یہاں کسی قسم کی رشوت، سفارش، جھوٹی گواہی، جانبداری اور بے ایمانی کا تصور ہی نہ تھا۔ خود خلیفہ وقت بھی عدالت کے روبرو پیش ہو کر جواب دینے کا پابند تھا۔
 

image

18 ہجری میں نیشاپور، الجزیرہ، 19 ہجری میں قسیاریہ، 20 ہجری میں مصر، 21 ہجری میں اسکندریہ اور نہاوند پر اسلام پرچم لہرایا گیا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے دنیا کے تمام مفتوحہ ممالک کا دورہ کیا۔ ہر ہر شہر اور ہر ہر علاقے میں کھلی کچہریاں لگائیں، موقع پر احکامات جاری کیے، حکمرانوں کے دروازے پر دربان مقرر کرنے پر پابندی لگائی، ساری ساری رات بازاروں اور گلیوں کے پہرے دیے، بھوکوں، پیاسوں، بے خانمائوں اور ضرورت مندوں کے لیے خود چل کر گئے۔ رعایا کے ہر طبقے کی ضروریات کی تکمیل کے لیے رات اور دن کا آرام چھوڑ دیا تھا۔ قحط میں آپ نے گھی اور زیتون ترک کر دیا تھا۔ آپ کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا لیکن آپ رعایا پروری اور غریبوں کے دکھ درد میں برابر شریک رہے۔

حضرت عمر فاروقؓ کا دور اسلامی تاریخ کا درخشندہ اور بے مثال دور ہے۔ اس عہد کی کہانیاں تمام مذاہب میں ضرب المثل بن گئی ہیں۔ ایڈورڈ گبن، روسو، ویدرک، برنارڈشا، گاندھی، نہرو اور عیسائی، یہودی، کمیونسٹ سبھی حکمران آپ کے طرزِ زندگی، دستورِ مملکت پر آج تک رطب اللسان ہیں۔

حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں مندرجہ ذیل محکموں کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ جن میں محکمہ افتاء ، مفتی ،فوج اور پولیس، جیل خانہ کی ایجاد، بیت المال یا خزانہ، پبلک و نظارات نافعہ، فوجی چھاؤنیاں ۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے جو نہریں تیار کروائیں ان میں نہر ابی موسیٰ ، نہر معقل ،نہر سعد، نہر امیر المومنین۔ حضرت عمر فاروقؓ نے جو عمارتیں تعمیر کروائی ان میں مہمان خانے، قید خانے ، مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں تعمیر کروائیں۔ سڑکوں اور پلوں کا انتظام کیا۔ مختلف علاقوں میں شہر آباد کیے گئے ان میں بصرہ، کوفہ، موصل وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایسے ایسے کارنامے سرانجام دیے پوری دنیا کے تاریخ دان ان کے کارناموں کو سنہری حروف میں لکھتے آئے ہیں۔ 23لاکھ مربع میل کے علاقے پرحکومت کرنے والا کسی عالی شان محل میں نہیں بلکہ ایک کمرہ کے مکان میں رہتا تھا ۔ فتح خیبر کے وقت جو زمین ملی وہ غریبوں میں تقسیم کر دی۔ حضرت عمر فاروقؓ کے دسترخوان کا جائزہ لیں تو روٹی اور روغن زیتون سے گزارا کرتے ۔ لباس کی بات کریں تو لباس بھی معمولی ہوتا تھا۔ برنس کی ایک خاص ٹوپی تھی سادگی اس حد تک کہ ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے معلوم ہوا کہ پہننے کیلئے کپڑے نہ تھے اس لیے انہیں کپڑوں کو دھو کر سوکھنے کے لیے ڈال دیا تھا ۔ خشک ہو گئے تو وہی پہن کر باہر نکلے ۔ یہ ہے حکمران 23لاکھ مربع میل کے علاقے پر حکومت کرنے والا حضرت عمر فاروق ؓ ۔ جس کے خزانہ میں سونے ، چاندی، ہیرے جواہرات اور ریشم کے انبار تھے ۔ اس کے پاس نہ کچھ پہننے کیلئے نہ کھانے کیلئے ۔دوسری طرف ہمارے چھوٹے سے خطے پر حکومت کرنے والے ہیں جن کے کچن کا خرچہ کروڑوں روپے ہے۔ لاکھوں روپے کا پٹرول صدر اور وزیر اعظم کی گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے ۔ کروڑوں روپے مالیت کی سینکڑوں گاڑیاں ان کے پاس ہیں ۔ قلعوں نما عالیشان محل ہیں۔ ان کے پاس ہزاروں ملازمین ہیں۔ لوٹ مار کے اربوں ڈالر باہر کے ملکوں میں پڑے ہیں۔ایک وہ تھا جو بکری کی ٹانگ ٹوٹنے سے رو رہا تھا اور ایک یہ ہیں سینکڑوں انسانوں جن میں اکثریت معصوم بچوں اور عورتوں کی ہوتی ہے ۔ ڈرون حملوں اور دیگر دہشت گردی کے واقعات میں مر رہے ہیں۔ اور یہ اپنے اقتدار کو بچانے میں لگے۔ اپوزیشن والے ان سے اقتدار کھینچنے میں لگے ہیں۔ سیاستدانوں ہوش کے ناخن لو ۔ خدا کے قہر سے بچو اور آج تمہاری پید ا کی ہوئی مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور غربت سے ہزاروں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ اکثر فاقوں سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ اپنے آپکو حضرت عمر فاروق ؓ کے جانشین بناؤ اور انکے نقشے قدم پر چلو ۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔لوٹی ہوئی تمام دولت واپس لے آؤ ورنہ کل قیامت کے دن اللہ کی عدالت ہو گی اور ہر ایک کے ساتھ برابر انصاف کیا جائے گا۔
YOU MAY ALSO LIKE:

Hazrat Umar (R.A) belonged to the Adi family of Quraish tribe. In the 8th generation, his lineage joins with Rasulallah (s.a.w). He was born in 583 A.C., about forty years before the great Hijrah. The early life of Hazrat Umar is not known in detail. In his youth he was a famous wrestler and orator, and a spirited person. He was one among the few people in Makkah who knew how to read and write. His main occupation was business.