نظریہ سید احمد شہید

سعدی کے قلم سے
اﷲ تعالیٰ میری اورآپ سب کی ’’قسمت‘‘ اچھی فرمائے. اور ہم سب کو بد نصیبی سے بچائے. آمین یا ارحم الراحمین.’’ابو لہب‘‘ بدقسمت تھا حالانکہ اُس نے رسول اکرم ﷺ کا زمانہ پایا. صرف زمانہ ہی نہیں قریب کی رشتہ داری بھی. جی ہاں آدمی بدنصیب ہو تو اُسے’’پیغمبر ﷺ ‘‘ کی رشتہ داری بھی کام نہیں آتی. جبکہ دجّال کے زمانے میں ایسے مسلمان ہوں گے جو سیدھے جنت میں جائیں گے. جی ہاں آدمی’’خوش نصیب‘‘ ہو تو پھر اُسے ’’دجّال‘‘ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا. مجھے حیرت ہوتی ہے اُن لوگوں پر جو خود کو مسلمان کہلواتے ہیں. مگر جہاد کی مخالفت کرتے ہیں. شہدا کرام کے گرم لہو جنازے بھی اُن کی سوچ اور ہٹ دھرمی نہیں بدل سکتے. جہاد کے خلاف وہی پرانی باتیں اور پُرانے اعتراضات. اﷲ تعالیٰ بد نصیبی سے بچائے. قرآن پاک جہاد کے تذکرے بار بار فرماتا ہے. مگر بدنصیب لوگ نہیں سمجھتے. ان کو ’’سائنس‘‘ کی کوئی بات بتادو تو فوراً مان لیتے ہیں. مگر سورۂ انفال اور سورۂ برأۃ کی پکار اِن کے کانوں پر اثر نہیں کرتی. بس یہی کہتے ہیں کہ آج کا جہاد’’ بے مقصد‘‘ ہے. ان کو کون سمجھائے کہ جہاد اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے. اور اﷲ تعالیٰ کا حکم ماننا اور زندہ کرنا خود بہت بڑا مقصد ہے. شہدا بالاکوٹ کا تذکرہ بار بار اسی لئے کیا جارہا ہے کہ اُس تحریک کا ظاہری نتیجہ بھی لوگوں کو نظر نہیں آیا. مگر اُس تحریک کے مجاہدین کو جنت کی حوریں آسمان سے اُترتی ہوئی اپنی آنکھوں سے نظر آگئیں. ’’دعوتِ جہاد‘‘ دینے والے رفقا سے بار بار یہی عرض کرتا ہوں کہ فضول سوال و جواب میں جہاد کے عظیم الشان فریضے کی توہین نہ ہونے دیں. بس مسلمانوں کو رو رو کر سمجھائیں کہ جہاد اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے. اے مسلمانوں! رب تعالیٰ کے حکم کو پورا کرو. جہاد کی فرضیت، جہاد کے فضائل، جہاد کے مناقب، جہاد کی شان، شہادت کے فضائل اور ترک جہاد کی وعیدیں بیان کرو جو خوش نصیب ہوگا وہ ایک حدیثِ پاک سن کر ہی کھڑا ہو جائے گا. باقی آج کے جہاد کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے؟. مسلمانوں سے نہیں کافروں سے جا کر پوچھو کہ وہ آج کے جہاد سے کس قدر ہیبت زدہ ہیں. اور کس طرح سے اُن کے منصوبے خود اُن کے منہ کی کالک بن رہے ہیں. ہمارے لئے تو بس اتنا ہی کافی ہے کہ اﷲ پاک ہمیں اپنے راستے کا ’’مجاہد‘‘ بنا دے. اور ہمارے دل میں ’’اعلائ کلمۃ اﷲ‘‘ کا جنون ہو اور ہمارا جسم اپنے محبوب رب کے راستے میں بکھر جائے.

حضرت سیّد احمد شہید(رح) نے پوری زندگی مسلمانوں کو یہ مسئلہ سمجھایا کہ ایمان کا سب سے اونچا مقام جہاد فی سبیل اﷲ سے حاصل ہوتا ہے. اسلام کی سب سے بلند چوٹی جہاد فی سبیل اﷲ ہے. اور اﷲ تعالیٰ سے محبت کا سب سے اہم تقاضہ جہاد فی سبیل اﷲ میں قربانی پیش کرنا ہے. پس وہ شخص جو اسلام، ایمان اور محبت الہٰی کا دعویٰ کرتا ہے وہ جہاد فی سبیل اﷲ میں نکل کر اپنے دعوے کو سچّا ثابت کرے. اور اﷲ تعالیٰ کے ہاں کامیابی کا مقام پائے. حضرت سیّد صاحب(رح) کی جماعت میں چوٹی کے علما کرام موجود تھے. خانوادۂ ولی اللّہی کا پورا علمی نچوڑ اُن کے قافلے میں شامل تھا. آج جو لوگ جہاد فی سبیل اﷲ پر سوالات کرتے ہیں اُن کو چاہئے کہ بدنصیبی سے نجات حاصل کرنے کی دعا کریں اور حضرت سیّد احمد شہید(رح) کے قافلے کے مکمل حالات پڑھیں. انشا اﷲ نظریے کی اصلاح ہو جائے گی. جہاد پر اشکالات اور سوال کرنے والے لوگ کئی طرح کے ہیں.

﴿۱﴾ بعض لوگوں نے اپنے دل میں یہ تہّیہ کر رکھا ہے کہ وہ کبھی بھی جہاد کے لئے نہیں نکلیں گے. جی ہاں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں. ایسے لوگوں کے ہر سوال کا جواب اگر قرآنی آیات سے بھی دے دیا جائے تب بھی اُن پر کوئی فرق نہیں پڑتا. وہ صرف الفاظ سے کھیلتے ہیں. کبھی کہتے ہیں ہم مطمئن ہیں اور کبھی پھر غیر مطمئن ہونے کا اعلان کر دیتے ہیں. ان کی قسمت میں نہیں ہوتا کہ اُن کا ایک روپیہ جہاد میں قبول ہو. یا اُن کو جنت کے زیورات یعنی جہادی اسلحہ نصیب ہو. وہ روز نئے سوالات ڈھونڈتے ہیں. مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ابتدا میں’’جیش محمد ﷺ ‘‘ کا اعلان ہوا تو بعض لوگوں نے ایک ’’صاحب‘‘ کے بارے میں بہت اشکالات کئے کہ ان کو’’جیش ‘‘ میں کیوں شامل کیا ہے؟. چند سال بعد اُن ’’صاحب‘‘ کی’’جیش‘‘ سے علیحدگی ہو گئی تو انہی لوگوں نے پھر شور مچایا کہ ان کو کیوں نکالا گیا ہے؟. بہرحال وہ کبھی بھی کسی بھی حال میں جہاد یا مجاہدین کی جماعت کے حامی نہیں ہوتے. اُن کے نزدیک جہاد ایک عظیم فریضہ نہیں. بلکہ نعوذباﷲ ایک کھلونا ہے. ایسے لوگوں سے بحث کرنے کا کیا فائدہ؟

﴿۲﴾ بعض لوگ جہاد کو ایک اچھا کام سمجھتے ہیں. مگر خود کو اور اپنے غیر جہادی کام کو جہاد سے بہت زیادہ افضل مانتے ہیں. ان کے سامنے نہ قرآن پاک کی وہ نصّ قطعی ہے جس میں مجاہدین کی افضلیت کا صاف اعلان ہے. اور نہ ان کے سامنے رسول اﷲ ﷺ کے جہادی فرمودات اور آپ ﷺ کی زندگی ہے. یہ لوگ چونکہ شریعت کی ایک ترتیب کو الٹتے ہیں اس لئے یہ بھی وساوس میں غوطے کھاتے رہتے ہیں. اور جہاد کے مبارک عمل میں دو لفظوں کی شرکت بھی ان کو نصیب نہیں ہوتی. کہ کسی مجاہد کی حوصلہ افزائی کردیں. یا کسی مجاہد کو اخلاص کے ساتھ دعائ دے دیں. حالانکہ یہ’’ختم نبوت‘‘ کی برکت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جو جہاد شروع فرمایا تھا وہ آج بھی تروتازہ، سرسبز اور شاندار ہے. میں آپ سب مسلمانوں کو کھلی دعوت دیتا ہوں کہ آج بھی شرعی جہاد کے کسی محاذ پر جا کر دیکھیں. آنے اور جانے میں جو ایمانی کیفیات نصیب ہوتی ہیں. اُن کو الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا. الیکشن لڑنے والوں سے پوچھیں کہ تیس دن کی انتخابی مہم چلانے سے’’ایمان‘‘ کی کیا حالت بنتی ہے. تجربہ کار لوگ بتاتے ہیں کہ ایمان، نماز، دینی کیفیات کا جنازہ نکل جاتا ہے. یوں محسوس ہوتا ہے کہ سینے میں دل نہیں ایک کالا پتھر رکھا ہو اہے. اب یہی تیس دن آپ جہاد کا سفر کریں. اﷲ اکبر کبیرا. زندہ راتیں، حسین دن، جاندار نمازیں. اور عرش تک پہنچتی دعائیں. ذکر کا الگ مزہ، مراقبے کا الگ لطف. اور دل پر رحمت اور نور کی برسات. جہاد کی تو آج بھی یہ شان ہے کہ کوئی مسلمان عورت اپنے ہاتھوں سے سونے کی ایک چوڑی جہاد میں دینے کے لئے اُتارتی ہے تو اُسی وقت اُس کے دل کی حالت بدل جاتی ہے. اندھیرے اور شہوات غائب اور نور ہی نور، نور ہی نور. اﷲ نورالسمٰوٰت والارض.آج بھی کوئی پریشان حال آدمی اچانک ’’فدائی جہاد‘‘ کی نیت کرتا ہے تو اُسی وقت سے اُس پر سکینہ طاری ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور جب آدمی جہاد میں مال خرچ کرنے کے لئے اپنی جیب یا تجوری میں ہاتھ ڈالتا ہے تو اُسی وقت اُس کی روح آسمانوں کے اوپر کی سیر کر آتی ہے. اﷲ کے بندوں! جہاد بہت بڑی چیز ہے. بہت بڑی چیز ہے. یہ بات خود اﷲ تعالیٰ نے اور آقا مدنی ﷺ نے سمجھائی ہے. اُمتِ مسلمہ کے جن خوش نصیب لوگوں نے اﷲ تعالیٰ اور رسولِ پاک ﷺ کی اس بات کو سمجھا ان میں حضرت سیّد احمد شہید(رح) بھی تھے. حضرت سیّد صاحب(رح) ارشاد فرماتے ہیں.

تمام عبادتوں کی بنیاد، تمام طاعتوں کی اصل اور تمام سعادتوں کا مدار یہ ہے کہ بندے کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ عبودیت یعنی بندگی کا رشتہ قائم ہو جائے. یہ رشتہ قائم ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت تمام رشتوں اور چیزوں کی محبت سے بڑھ کر نصیب ہو جائے. اب اس بات کا پتہ کس طرح چلے گا کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت سب سے بڑھ کر ہے تو اس محبت کی سب سے بڑی امتحان گاہ’’میدان جہاد‘‘ ہے. پس جہاد کے لئے قدم اٹھانا جسے حدیث شریف میں اسلام کی چوٹی کی بلندی قرار دیا گیا ہے اس بات کی مضبوط علامت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت تمام مخلوقات کی محبت پر غالب ہو گئی ہے۔
﴿سیّد احمد شہید ص ۲۵۲ تسہیل﴾

یہ ہے جہاد کے بارے میں صحیح اسلامی نظریہ. خوش قسمت ہیں وہ مسلمان مرد اور عورتیں جو اس زمانے میں کسی بھی طرح جہاد فی سبیل اﷲ کے عظیم اور مبارک عمل کے ساتھ منسلک ہیں. ان سب کو پوری اُمت مسلمہ کی طرف سے بہت بہت مبارک. اﷲ تعالیٰ تو فیق دے تو’’فتح الجوّاد‘‘ کا مطالعہ کر لیں. ’’فضائل جہاد‘‘ کو ایک بار پڑھ لیں. حضرت سیّد احمد شہید(رح) کے متعلق حضرت مولانا سیّد ابوالحسن ندوی(رح). اور مولانا غلام رسول مہر(رح) کی کتابیں پڑھ لیں.حضرت سیّد صاحب(رح) کے بیانات اور واقعات پڑھ لیں.انشا اﷲ آپ ضرور کہیں گے کہ بے شک جہاد کی نعمت صرف’’سعادت مندوں‘‘ کو نصیب ہوتی ہے. اﷲ تعالیٰ میری اور آپ سب کی قسمت اچھی فرمائے اور ہم سب کو شقاوت اور بدبختی سے بچائے. آمین یا ارحم الراحمین
وصلی اﷲعلی النبی الطاہر الزکی الکریم الہاشمی محمد والہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا. صلوٰۃ تحل بھا العقد وتفک بھاالکُرب
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 194863 views A Simple Person, Nothing Special.. View More