مبادیات فکر اسلامی

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

فکر کیا نہیں ؟
انسان وہ نہیں جو خدا کی نعمتوں کے ذریعے حاصل کی گئی نعمتوں پر اترائے۔ ہر تخلیقی و تعمیری فکر و سوچ خدا کی نعمت ہے اب اس سے انسان کوئی بھی عمل کرے کچھ بھی تخلیق کرے کچھ بھی تعمیر کرے اگر وہ مخلوق خدا کی مادی و روحانی بقا اور رفعت شعور کیلئے ہے، ان کی زندگی کو سکون دینے کیلئے ہے تو وہ کبھی ان ایجادات پر گھمنڈ نہیں کرتا فرعون یا قارون نہیں بن جاتا کہ تمام نعمات حاصل کرکے اس پر سانپ بن کر بیٹھ جائے۔ انسان صرف خدا کی نعمات یا وسائل کو جوڑ کر خدا کی دی ہوئی فکر سے جدت پیدا کرتا ہے، ان تخلیقات پر کسی بھی طرح اترانا تکبر و خودنمائی کی علامت ہے۔ معاشرہ کا کوئی بھی شعبہ ہو مومن انسان کبھی بھی انسان کے لئے بقا کا ضامن بن بقا "چھین" نہیں لیتا بلکہ انسان کی فکر و شعوری ارتقاء و بقا اور روحانی و مادی بقا کی خاطر مخلوق خدا کی خاطر خود کو فنا کردیتا ہے۔ یہ فنا فی اللہ کا مطلب۔
نہ ہی وہ معاشرہ سے کٹ کر گوشہ نشین ہوجاتا ہے یا پھر خود کو نعمتوں کے پہچانوانے کا وسیلہ جان کر فرعون بن کر بیٹھ نہیں جاتا اور نہ ہی معاشرے کے سطحی فکر و شعور رکھنے والے افراد پر قہر بن کر ٹوٹ پڑتا ہے بلکہ ارتقاء کی کوششوں میں تخلیقی و تعمیری سوچ و فکر و عمل کے ذریعے بیداری پیدا کرتا ہے اور ان کوششوں میں جب وہ خود کو معاشرے میں گم کردیتا ہے یعنی اس ارتقائی سفر کا راہنما بن کر اپنی تمام صلاحیتیں صرف کردیتا ہے تو یہ محبوب الہی، مومن اور خلیفتہ اللہ کہلاتا ہے ۔ نہ تو وہ خدائی نعمتوں پر قابض ہوکر کہ کسی کو کچھ نہ دے اور خدا سے تعلق صرف اسلئے قائم کرتا ہے کہ اس کی ترقی ہوتی رہے اور نہ ہی ارتقاء کے سفر کا خود کو ٹھیکیدار سمجھ کر ظلم و جبر و اکراہ کا راستہ اپناتا ہے اور نہ ہی جھوٹی خدا خواہی اختیار کرکے گوشہ نشین ہوجاتا ہے۔ بلکہ افراد معاشرہ کے درمیان رہتے ہوئے خدا سے تعلق قائم کرکے خود اپنی فکر و شعور اور مادی و روحانی ارتقاء کے ساتھ ساتھ معاشرہ جہان کیلئے بھی ایسی ہی کوششیں سرانجام دیتا ہے کہ انسانیت کو قرار آجائے۔
خدا فرماتا ہے:
"وہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنی انتہائی ضرورتوں اور احتیاجات کے موقع پر وہ دوسروں کی کمتر ضرورتوں کی خاطر اپنی انتہائی ضرورتوں کو قربان کرکے دوسروں کا سہارا بنتے ہیں۔"[ سورہ حشر/ آیت نمبر ۹]
ایسی کوششیں جس میں معاشرے کی روحانی و مادی فلاح ہو ایسے مومن یا عالم باالعمل باصلاحیت اور مقرب خدا عاقل انسان کیلئے خدا فرماتاہے:
"شاباش اب تو ایسی منزل پر ہے کہ میں تجھ سے کہوں اس لئے تجھے دعوت دیتا ہوں کہ آ خوشی خوشی اپنے رب کی جانب لپک، اب تو میرے خالص بندوں کی صف میں داخل ہوکر میری جنت میں آجا۔" [سورہ فجر/ آیت نمبر ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰]

فکر کیا ہے؟؟
اسلام ایک زندہ دین و مذہب ہے جو فرد کو کائناتی شعور کیساتھ ساتھ انفرادی شعور بھی عطا کرتا ہے اس پر سے غفلت اور زنگ کی چادریں اتارتا ہے اور اس کو خود اسکی شناخت کراتا ہے اس کے اندر جو قوتیں اور استعدادیں اور قابلیتیں ماحول کی وجہ سے سو جاتی ہے اس کو جگاتا ہے اسلام ایک فکری علمی مکتب ہے جو انسان کو اپنے ہم جنسوں کیلئے جینا سکھاتا ہے مخلوق خد اکی خدمت خود خدا کی خدمت ہے اسلام کی خدمت ہے خدا کے ناعوذبااللہ کوئی ہاتھ پیر تو ہیں نہیں جس کو دابا جائے اور خدمت کی جائے خدا کے ہاتھ پیر یہی عام سے بندے ہیں جن کے روحانی اور مادی بقا کا سامان فراہم کرنا خدا کی خدمت ہے۔ اس کائنات میں ایسے بندے ہیں اور خدا پیدا کرتا رہتا ہے جو نیک سیرت، خدا ترس، انسان دوست ہیں جس کے باعث خدا اور اسلام کا نام زندہ ہے جن کے دم سے جہان میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ یہ افراد ایک ایسے فطری مکتب فکر سے وابستہ ہیں جو انسان کی مادی و روحانی بقا چاہتا ہے رفعت شعور چاہتا ہے جو ایک عام انسان کو انسانیت کا درس پڑھا کر انسانیت کے شعور اور اس کی بقا کو اس شخص کے ذریعے بلند کرتا ہے جس کو خدا منتخب کرے، اور اس کی زندگی میں اضافہ کرتا ہے اسلام انسان کی صلاحیتوں کو بیدار کرکے خود اس کیلئے اور معاشرہ جہان کیلئے زندگی کے اسباب مہیا کرتا ہے ، تعلیمات اسلام انسان کو اس کی شناخت اور وجود کی اہمیت کی تعلیم دیتا ہے اس کو عالم ملکوت سے پیوست کرتا ہے اسلام انسان کی بقا چاہتا ہے کوئِ بھی خالق یہ نہیں چاہتا کہ اس کی تخلیق کی بے عزتی کی جائے اور جس طرح اس کو استعمال کرنے کا حق ہے اس کو اس طرح استعمال نہ کیا جائے، انصاف نہ کیا جائے۔ خدا انسان کو اس عروج و ملکوت پر دیکھنا چاہتا ہے جس کیلئے اس نے انسان کو خلق کیا ہے۔ کسی شہ کا بہترین استعمال یہی ہے کہ اس سے تخلیقی و تعمیری کارنامے انجام دیئے جائیں، جس سے انسانیت کی روحانی و مادی زندگی کمال پر پہنچے ، اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ اس شہ کو ان اصولوں اور نکات پر کاربند رہتے ہوئے استعمال کیا جائے جو موجد یا خالق نے بتائے ہیں۔

مومن انسان پر دوسرے سطحی فکر و شعور رکھنے والوں سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ جہان کے شعور کی بقا اور فکری رفعت کیلئے محنت کرے اسن کی صلاحیتیں بیدار کرے ان میں تخلیقی و شعوری فکر و عمل کو بیدار کرے ھر وہ شہ جو مادی و روحانی بقا کیلئے اھم ہے اس میں کردار پیدا کرے۔ مومن انسان کائنات میں یا اس کی تخلیقی و تعمیری عمل کا روح و رواں ہوتا ہے۔ انسان کی فکری و شعوری بقا انسان کی مادی بقا سے زیادہ اھم ہے جسطرح کسی مسکین کو کھانا کھلانا کسی پیٹ بھرے کی دعوت سے بہتر ہے اور اھم ہے، جسطرح کشتی چلنے کیلئے پانی اشد ضروری ہے اسی طرح اس مادی کائنات کو بقا دینے کیلئے، مصائب و مشکلات سے پاک رہنے اور زندگی کی کشتی کو چلنے کیلئے علم، شعور، فکر کی ضرورت ہے۔ انسان کا مادی وجود پانی و غذا کے بغیر نہیں رہ سکتا اسی طرح انسان کی فکر و شعوری زندگی و بقا علم کے بغیر ناممکن ہے۔ علم ہی انسان کو اس فکری و شعوری ملکوت میں پہنچا دیتا ہے جہاں وہ خدا کا خلیفہ یعنی جانشین کہلاتا ہے اور اس میں وہ خدا صفات جلوہ فگن ہوجاتی ہیں جو خدا کی صفات ہیں اس خلوص و لگن کے نتیجیے میں جو اس نے مخلوق خدا کی خدمت میں دکھائی ہے تو یہ انسان خدا کا ہاتھ بن جاتا ہے، پیر بن جاتا ہے، آنکھ بن جاتا ہے پھر وہ اپنی مرضی سے نہیں حرکت نہیں کرتا بلکہ خدا کی رحمت کے سائے میں حرکت کرتا ہے اس انسان میں خدا کی خدائی کا جلوہ ہوتا ہے۔ اس نعمت ہدایت کیساتھ جب وہ خالق کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہے تو مخلوق خدا کے خوش ہونے کے ساتھ خالق بھی اسے شفیع بہشت بنا دیتا ہے
خدا فرماتا ہے:
ان تنصرو اللہ ینصروکم و یثبت اقدامکم
"اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں ثابت قدمی عطافرمائے گا۔" [ سورہ محمد/ آیت نمبر ۷]

وہ انبیاء ، رسل، آئمہ اور اولیاء کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے یہ وہ انسان ہے جس نے شعور کی رفعت کو پایا منزل مقصود کو پایا اور بقا کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے خلیفتہ اللہ ہونے کا لقب پایا جس نے معاشرہ جہان کو بقا دی تو خدا نے بھی اسے ہمیشہ کیلئے بقا دی۔

ہم سب کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ایسے انسان بنیں اور اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کریں اس نعمت کو دریافت کریں جو خدا نے ہمارے اندر پوشیدہ کیں ہیں۔ جس طرح زمین کے سینے میں خزانے پائے جاتے ہیں اور ان کیلئے محنت کی جاتی ہے اسی طرح ہم کو اپنے سینے میں موجود پنہاں عظیم دولت و خزانے کو دریافت کرنا ہے۔ تاکہ ہم اس معرفت کے ساتھ مخلوق خدا کی خدمت انجان دے سکیں۔

اس ماہ مبارک میں یہ بہترین موقع ہے کہ ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود اپنی بھی شناخت پیدا کریں اور دوسروں کو بھی خود ان کی شناخت پیدا کرنے کیلئے ابھاریں۔

خدا ہم سب کو معرفت کامل عطا فرمائے اور حصول علم کے بعد تفکر و تعقل کی توفیق عطا فرما کر ہمیں ایسے جہاد کی قوت عطافرمائے جس میں عالم انسانیت کی فلاح مضمر ہو۔ اور ہمارے محبوب ہمارے قائد ہمارے آخری امام سے ہم کو ملحق فرمادے کہ وہ ہم سے راضی ہوں۔ آمین یا رب العالمین
مصنفہ: سید جہانزیب عابدی
شعبان المعظم ۱۴۳۱
کراچی، پاکستان
سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 57781 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.