اسلام کا سیاسی نظام - آخری حصہ

گزشتہ سے پیوستہ

اسلام کا مستقل تقاضہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی اصولوں کی پابندی کی جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست کے لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کردیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف، بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو، وہ ملک یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر راعی اور رعیت کے باہمی تعلقات ہوں یا ملک کے باہر دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف کو اغراض و مصالح پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد کی طرح مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے کے پیمانے یکساں رکھو، جو کچھ کہتے ہو وہی کرو اور جو کچھ کرتے ہو وہی کہو، اپنے حق کے ساتھ اپنے فرض کو بھی یاد رکھو، اور دوسرے کے فرض کے ساتھ اس کے حق کو بھی نہ بھولو، طاقت کو ظلم کے بجائے انصاف کے قیام کا ذریعہ بناؤ۔ حق کو بہرحال حق سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار کو خدا کی امانت سمجھواوراس یقین کے ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا حساب تمہیں اپنے خدا کو دینا ہے۔

اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے مگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافی حد میں محدود رکھتی ہے اور نہ شہریت کے حقوق کو۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اسلام ہر انسان کے لیے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے، اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلح رکھتا ہو یا برسر جنگ ہو۔ انسانی خون ہر حالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جاسکتا۔ عورت، بچے بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ عورت کی عصمت بہرحال احترام کی مستحق ہے، اور اسے بےآبرو نہیں کیا جاسکتا۔ بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی کپڑے کا، زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمارداری کا بہرحال مستحق ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے حقوق اسلام نے انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست کے دستور میں ان کو بنیادی حقوق کی جگہ حاصل ہے۔ رہے شہریت کے حقوق تو وہ بھی اسلام صرف انہی لوگوں کو نہیں دیتا جو اس کی ریاست کی حدود میں پیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے میں پیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے(یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ مسلمان کسی اسلامی ریاست کا شہری ہو۔ اگر وہ کسی غیر اسلامی حکومت کی رعایا ہو تو وہ صرف اس صورت میں اسلامی ریاست کا شہری بن سکتا ہے جبکہ وہ ہجرت کر کے آئے۔)اور پیدائشی شہریوں کے برابر حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں گی ان سب کے درمیان شہریت مشترک ہوگی۔ مسلمان کو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہ ہوگی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر اسلامی ریاست میں کسی بڑے سے بڑے ذمہ داری کے منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔

غیر مسلمانوں کے لیے، جو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں، اسلام نے چند حقوق متعین کردیے ہیں اور وہ لازماً دستور اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو "ذمی" کہا جاتا ہے، یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذمی کی جان و مال اور آبرو محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذمی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمیوں کے پرسنل لاء میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گے۔ ذمیوں کو ضمیر و اعتقاد اور مذہبی رسوم و عبادات میں پوری آزادی حاصل ہوگی۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا کو دیے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنہیں اس وقت تک سلب نہیں کیا جاسکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہوجائیں۔ کوئی غیر مسلم حکومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ حتیٰ کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کردیے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذمی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔ اسلامی ریاست کے انتظام کی ذمہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدر جمہوریہ کے مماثل سمجھنا چاہیے۔ امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کا حق ہوگا جو دستور کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ انتخاب کی بنیاد یہ ہوگی کہ روح اسلام کی واقفیت، اسلامی سیرت، خداترسی اور تدبر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کااعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو امارت کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ پھر اس کی مدد کے لیے ایک مجلس شوریٰ بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کو منتخب کردہ ہوگی۔ امیر کے لیے لازم ہوگا کہ ملک کا انتظام اہل شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ ایک امیر اسی وقت تک حکمران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ عدم اعتماد کی صورت میں اسے جگہ خالی کرنی ہوگی مگر جب تک وہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے اسے حکومت کے پورے اختیارات حاصل رہیں گے۔

امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نکتہ چینی کا پورا حق حاصل ہوگا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی ان حدود کے اندر ہوگی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔ خدا اور رسول کے واضح احکام صرف اطاعت کے لیے ہیں۔ کوئی مجلس قانون ساز ان میں ردوبدل نہیں کر سکتی۔ رہے وہ احکام جن میں دو یا زیادہ تعبیریں ممکن ہیں تو ان میں شریعت کا منشا معلوم کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو شریعت کا علم رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات مجلس شوریٰ کی اس سب کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے جو علما پر مشتمل ہوگی۔ اس کے بعد ایک وسیع میدان ان معاملات کا ہے جن میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں مجلس شوریٰ قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔

اسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہے بلکہ براہ راست خدا کی نمائندہ اور اس کو جوابدہ ہے۔ حاکمانِ عدالت کو مقرر تو انتظامی حکومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا کے قانون کے مطابق لوگوں کے درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس کے انصاف کی زد سے خود حکومت بھی نہ بچ سکے گی، حتیٰ کہ خود حکومت کے رئیسِ اعلیٰ کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے اس کے سامنے اسی طرح حاضر ہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری حاضر ہوتا ہے۔

یہ ہم نے آپ کے سامنے اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے کچھ گزارشات رکھی ہیں۔اس میں لوگ اپنی بات رکھ سکتے ہیں اس میں لوگوں کو کچھ اختلاف بھی ہوسکتا ہے، کیوں کہ انسانوں میں کبھی بھی کسی کی بھی بات حتمی اور حرف آخر نہیں ہوتی ہے، البتہ اس میں ایک بات واضح ہے کہ آج کل جو پروپگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اگر اسلام کا نظام نافذ ہوگیا تو بڑا مسئلہ ہوگا ( سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی ایک دفعہ طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا لوگ چاہتے ہیں کہ میں آدھے پاکستان کو ٹنڈا کردوں ) تو ایسی کوئی بات نہیں ہے اسلام ایک مکمل دین ہے جو دنیا کے ہر معاملے میں رہنمائی کرتا ہے۔ اور اسلام نے حکومت کے بنیادی اصول بتا دیے ہیں جن پر عمل کر کے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ انشاء اللہ اسلام کے معاشرتی نظام کے حوالے سے کچھ باتیں آئندہ آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1448771 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More