حضرت امام حسینؓ کے فضائل و مناقب

نواسۂ سیّد المرسلین ﷺ ، جگر گوشہ بتول اور لخت جگر شہنشاہ ولایت حضرت امام حسینؓ ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں جن کو امت مسلمہ میں مقتداء و پیشوا کی حیثیت حاصل ہے۔ حضرت امام حسینؓ راہِ عزیمت اختیار کرنے والی بہادر ہستیوں میں سے ہیں۔ کتاب و سنت ، اہل بیت اطہارؓ اور حسنین کریمینؓ کے ذیل میں ان کی شان بیان کرنے کے ساتھ خاص طور پر بھی ان کے بلند رتبہ کو بیان کرتا ہے۔ کتاب و سنت کی ان نصوص کا ذکر حسب ذیل ہے:
۱۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ آیت مباہلہ ’’ اے حبیب ﷺ آپ فرما دیجیئے آؤ ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلائیں‘‘ (آل عمران، ۳/ ۶۱) نازل
ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ ، حضرت فاطمہؓ ، امام حسینؓ اور امام حسنؓ کو بلایا اور فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں۔ (مسلم)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ
امام حسینؓ اہل بیت اطہار میں سے ہیں۔ سو وہ اہل بیت کے لیے بیان کردہ تمام فضائل و مناقب کے مستحق ٹھرتے ہیں۔
۲۔ اہل بیت اطہارؓ کے بارے قرآن حکیم فرماتا ہے: ’’اللہ تعالیٰ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ وہ تم اہل بیت سے میل کچیل دور کر دے اور تمہیں خوب پاک صاف کر دے‘‘
(الاحزاب ، ۳۳/ ۳۳) اس آیت کریمہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے: (i ) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اہل بیتؓ کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں کی الائشوں سے
پاک صاف کر دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ کسی چیز کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو فرماتا ہے ہو جا سو وہ ہو جاتی ہے۔ (البقرہ ، ۲/ ۱۱۷) (ii ) حضرت امام
حسینؓ کے حوالے سے یہ کلمات ہرگز درست نہیں کہ انہوں نے دنیوی اقتدا کے لیے خود اور اپنے خاندان کو قربان کیا اور بغاوت کے مرتکب بھی ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ
نے آپؓ کو تمام آلائشوں سے پاک فرما دیا ہے۔
۳۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے ایک صبح کالی چادر میں حسنین کریمینؓ اور ان کے والدین کو داخل فرمایا اور یہی آیت تطہیر
تلاوت فرمائی۔ (مسلم)
۴۔ حسنین کریمینؓ رسول اللہ ﷺ کے ہم شکل تھے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ امام حسینؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔ (بخاری)
۵۔ حسنین کریمینؓ کو رسو ل اللہ ﷺ نے دنیا میں اپنے پھول قرار دیا ۔ (بخاری) سو جس طرح خوشبو سے انسان کو راحت و سکون ملتا ہے اسی طرح حسنین کریمینؓ سے بھی
رسول اللہ ﷺ کو سکون و اطمینان حاصل ہوتا ۔
۶۔ رسو ل اللہ ﷺ نے حضرت امام حسینؓ اور امام حسنؓ کو اہل جنت کے جوانوں کے سردار قرار دیا۔ (ترمذی) اس فرمان رسالت سے آپ کی بلند شان واضح ہوتی ہے کہ
یہ دونوں شہزادے جنتی ہی نہیں بلکہ جنتیوں کے سردار بھی ہیں۔
۷۔ رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں شہزادوں کو اپنی رانوں پر رکھا ہوا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔ اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو
بھی ان سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے اس شخص سے بھی تو محبت کر۔ (ترمذی) اس حدیث سے درج ذیل امور ثابت ہوئے: (i) حسنین کریمینؓ سے
کمال درجہ محبت کا اظہار (ii) ان کو اپنے بیٹے قرار دینا (iii) محبوب کائنات ﷺ کا ان سے محبت کرنا (iv) ان شہزادوں سے محبت کرنے والے افراد کے
بارے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے اللہ تو ان سے محبت کر۔ گویا ان کے محبین اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے محبوب ہو جاتے ہیں۔
۸۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان دونوں شہزادوں کو سونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹاتے۔ (ترمذی) رسول اللہ ﷺ کا حسنین کریمینؓ کو سونگھنا اور اپنے
جسم اقدس کے ساتھ لپٹانا ان سے انتہائی محبت کا اظہار ہے۔
۹۔ حضرت بریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسنین کریمینؓ سرخ قمیص پہنے آئے۔ وہ چلتے تھے اور گر جاتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ منبر سے
نیچے اتر ے ان دوونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ سے سچ فرمایا ’’تمہارے مال اور اولاد صرف آزمائش ہیں‘‘ ۔ (الانفال ، ۸/ ۲۸) میں نے
ان بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھا اور مجھ سے صبر نہ ہو سکا سو میں نے اپنی بات ختم کر دی اور ان کو اٹھا لیا۔ (ترمذی ؛ ابو داؤد)
۱۰۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ (ترمذی) یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے ساتھ امام حسینؓ کے
باہمی تعلق کو بیان کرتی ہے۔ اس طرح کلمات دو وجوہات کی بنا پر کہے جاتے ہیں: (i) خونی رشتہ کی بنا پر ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں کیونکہ آپؓ نواس�ۂ رسول ﷺ
ہیں اور پھر رسول اللہ ﷺ ان کو اپنے بیٹے بھی قرار دیتے ہیں۔ (ii) مشترکہ صفات کی بنا پر ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سو باطل کے خلاف ڈٹ جانے جیسی کئی
صفات مصطفوی اور حسینی کردار کا حصہ ہیں۔ جیسے اشعری قبیلے کے اس عمل کے بارے فرمایا کہ جب ان میں سے بعض لوگوں کے پاس کھانے پینے کی بنیادی اشیاء ختم ہو
جاتیں تو سارے لوگ ایک کپڑے میں سارا سامان اکٹھا کر لیتے پھر برابر آپس میں تقسیم کر لیتے ۔ اس عمل کو دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا وہ قبیلہ مجھ سے ہے اور میں اس
سے ہوں۔ (بخاری) سو اس سے معلوم ہوا کہ مشترکہ صفات کی بنا پر بھی ایسے الفاظ کہے جاتے ہیں۔ سو حضرت امام حسینؓ کے بارے میں ایسے کلمات خونی رشتے کے
ساتھ ساتھ مشترکہ صفات کی بنا پر بھی فرمائے گئے۔
۱۱۔ حضرت ام فضلؓ ایک دن بارگاہ رسالت مآب ﷺ حاضر ہوئیں۔ حضرت امام حسینؓ کو ان کی گود میں دیا پھر میرا دھیان بٹ گیا۔ اچانک دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی
آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے نبی اللہﷺ آپ پر میرے ماں باپ قربان ہو جائیں ۔یہ کیا ہے؟ فرمایا میرے پاس جبریل امین
آئے اور مجھے خبر دی کہ میری امت میرے اس فرزند کو قتل کر دے گی۔ میں نے عرض کیا ۔ ان کو۔ فرمایا ہاں اور وہ (جبریل )میرے پاس وہاں کی سرخ مٹی میں سے کچھ
مٹی لائے ۔ (بیہقی، دلائل النبوۃ؛ مشکوۃ المصابیح) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کو آپؓ کی شہادت کی خبر عطا فرما دی گئی۔ جبریل امین آپؓ کے
جائے شہادت سے سرخ مٹی بھی ساتھ لائے۔
۱۲۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک دن دوپہر کے وقت خواب میں دیکھا کہ پراگنندہ اور گرد آلود بال مبارک ہیں۔ آپ ﷺ کے ہاتھ
میں ایک شیشی تھی۔ اس میں خون تھا۔ میں نے عرض کیا کہ میرے والدین آپ ﷺ پر فدا ہوں۔ یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کا خون ہے۔ آج میں
اس خون کو اٹھا رہا ہوں۔ میں نے اس وقت کو یاد میں رکھا تو وہی وقت شہادت حسینؓ کا پایا۔ (بیہقی ، دلائل النبوۃ ؛ مشکوٰۃ المصابیح )
۱۳۔ حضرت ام سلمہؓ نے بھی ایسے ہی خواب کو بیان کیا ہے ۔اس خواب میں آپ ﷺنے فرمایا ’’شھدت قتل الحسین اٰنفاً ‘‘ میں نے ابھی جائے شہادت حسینؓ کا مشاہدہ کیا۔ (ترمذی)ان احادیث مبارکہ سے درج ذیل امور ثابت ہوئے: (i) حضرت ابن عباسؓ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ نے امام حسینؓ کی جائے شہادت کا مشاہدہ کیا اور خون والی شیشی بھی ہاتھ میں تھی۔خواب کی بابت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا ۔ شیطان میری مثل نہیں بن سکتا۔ (بخاری) پھر یہ خواب کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ صحابہ کرامؓ میں سے بہت بڑے مفسر صحابی حضرت ابن عباسؓاور ام المومنین حضرت ام سلمہؓنے دیکھے۔ دونوں خوابوں میں فرق یہ ہے کہ حضرت ام سلمہؓ نے یہ خواب واقعہ کربلا سے پہلے دیکھا جبکہ حضرت ابن عباسؓ نے اسی وقت دیکھا (ii)حضرت ابن عباسؓ کے مطابق وقت خواب اور شہادت حسینؓ کا وقت ایک تھا۔ (iii) وصال مبارک کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کی امام حسینؓ کے ساتھ محبت کا ثبوت ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کتاب و سنت سے حضرت امام حسینؓ کا مرتبہ و مقام سمجھنے ، ان سے محبت کرنے اور ان کی اقتداء و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1278579 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.