تختیدل ھم نیمہ بہادری دا‘ کہانیاں اور تین "ج"

پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے کہ چہ پہ جھگڑا کے تیختہ ھم نیمہ بہادری دہ‘ یعنی جھگڑے میں بھاگ جانا بھی آدھی بہادری ہے‘ اب لگتا ہے اس مثل کو یوں لکھنا پڑے گا کہ صحافی کے سخت سوالوں کے جواب سے بچنے کیلئے پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر بھاگ جانا بھی بڑی بہادری ہے.اور یہ بہادری تبدیلی والی سرکار کے عمران خان نے گذشتہ روز دکھادی جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے وزیراعلی ہاؤس اور گورنر ہاؤس کو یونیورسٹیاں بنانے کے دعوے کئے تھے وہ تو دیکھنے میں نہیں آئے. البتہ انہوں نے میڈیا کے حوالے سے شکوہ کیا کہ دیگر وزراء کے مقابلے میں صرف وزیراعلی خیبر پختونخواہ کا رابطہ بہتر ہے.. سوال کرنے والے صحافی کا انداز گو کہ سوال کرنے کا نہیں تھا البتہ شکوے کا تھا.. لیکن یہ صحافی کی بھی غلطی نہیں کیونکہ گذشتہ تین سال اور سات ماہ میں عمران خان دورہ پشاور میں اپنے ساتھ امپورٹڈ صحافی اسلام آباد سے بھر کر لاتے تھے وہی سوال کرتے تھے جو پہلے سے پلانٹڈ ہوتے تھے. زیادہ تر سوال خان صاحب کے خوشامد میں ہوتے تھے ان کے دورے میں پشاور کے مقامی صحافیوں کو نظر انداز کیا جاتا تھا کہ یہ سخت سوال کرتے ہیں اس لئے انہیں نظر انداز کیا جاتا رہا.اب جبکہ حکومت نہیں رہی تو تبدیلی والی سرکار کو نسوار کھانے والے پٹھان یاد آگئے ہیں ور انہوں نے ڈیرا بھی یہاں پر جما لیا ہے اور صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹرسمیت دیگر سرکاری وسائل استعمال کررہے ہیں نرگسیت کا شکار سابق وزیراعظم کو سخت سوال سننے کی عادت نہیں اس لئے سخت سوال پر برا مان جاتے ہیں لیکن یہ ان کی غلطی بھی نہیں کیونکہ کرسی کا نشہ ایسا نشہ ہوتا ہے جو ایک دفعہ سر پر چڑھ جائے تو پھر بہت کم ہی نکلتا ہے.

تبدیلی والی سرکار کے دعوے تو بہت سارے ہیں‘ جوانہوں نے حکومت میں آنے سے قبل کئے تھے‘ کیا گورنر ہاؤس یونیورسٹی بن گئی‘ وزیراعلی ہاؤس یونیورسٹی بن گئی یا پھر احتساب کے نام پر آنیوالے اور اپنے پارٹی کے لڑکوں اور لڑکیوں کو نچانے والے اپنے تین سال سات ماہ کی کارکردگی بتانا پسند کرینگے‘ صحافی نے سوال کیا کہ پہلے کونسے آپ نے وعدے کئے تھے جو پورے کئے اور اب کونسے نعرے کیساتھ آپ اسلام آباد جائیں گے ساتھ میں انہوں نے تبدیلی والی سرکار کے سوشل میڈیا پر بدتمیزی کرنے والے کارکنوں کے حوالے سے بات کی. ویسے سوشل میڈیا پر بنائے جانیوالے ٹرینڈ و بوٹس کے علاوہ ان کے پاس کچھ ہے بھی نہیں‘ اگر ان کے پاس ڈنڈے والی سرکار نہ ہوتی جنہوں نے آغاز میں سب کو کہا تھا کہ مثبت رپورٹنگ کرنی ہے اور پھر ڈنڈے کے زور پر مثبت رپورٹنگ کروائی بھی صرف تبدیلی والی سرکار کیلئے..

کیا انہوں نے صحافتی اداروں کو بند نہیں کیا ان کے اقدامات کی وجہ سے صحافی بیروزگار نہیں ہوئے‘ جو سچ بولتے اور لکھتے تھے.‘ اخبارات سے لیکر ٹی وی چینل میں اپنے بندے آغاز ہی سے لگا دئیے تھے. جو ان کیلئے سب کچھ کرتے رہے ہیں اور کرتے بھی رہینگے کیونکہ ان کو تنخواہیں اس بات کی ملتی ہیں وہ تبدیلی والی سرکار کو خالق و رازق سمجھتے ہیں سو ان کیلئے ہر غلط بات کو ٹھیک بتانا اور انہیں ڈیفنڈ کرنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں.یہ نہیں کہ اس سے پہلے والے حکمران بہترین تھے‘ وہ بھی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور اب ان کے آنے کے بعد آنیوالے بھی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں انہیں عوام کی کوئی پروا نہیں‘ لیکن اسی تبدیلی والی سرکار نے عوام کو وہ خواب دکھائے تھے جو سب کے سب جھوٹ تھے‘ اور جھوٹے ہی نکلے‘ لیکن سب سے بڑا جھوٹ یہ بھی ہے کہ اپنی جھوٹ کو بڑی ڈھٹائی سے ڈیفنڈ بھی کرتے ہیں‘ خود کو عقل کل سمجھنے والے ساری دنیا کو بے وقوف سمجھتے ہیں.بے وقوف بھی ہیں لیکن سارے صحافی ایک مخصوص چینل والے مخصوص صحافی بھی نہیں ہوسکتے جو خوشامد‘ مکھن بازی اور چیری بلاسم سمیت جھوٹ میں اپنی مثال آپ ہیں.

بطور صحافی راقم کو وہ دن بھی یاد ہے کہ جب پشاور کے رنگ روڈ پر تبدیلی والی سرکار کے جلسے شروع ہوئے تھے اس سے قبل راقم کورٹس رپورٹنگ کیساتھ ساتھ صحت کے تحقیقاتی سٹوریز پر کام کرتا تھاجس میں سینئر صحافی اور بیورو چیف صفی اللہ گل کا بڑا ہاتھ تھا‘ اللہ تعالی انہیں مزید کامیابیاں عطا کرے. ڈی ایس این جی لیکر جب رنگ روڈ پر جلسے کی کوریج کیلئے پہنچا تو کرسیوں کے بارے میں پتہ کیا کہ کتنی کرسیاں لگائی گئی ہیں کتنے لوگ آنے ہیں اور کتنے متوقع ہیں‘ لاہور سے اس وقت ہمار ہیڈ آفس سے ایک صاحب نے فون کیا اور پوچھا کہ کیا صورتحال ہے‘ لائیو کوریج سے آدھ گھنٹے پہلے لاہور کے ایک صاحب کا فون آیا کہ کیا صورتحال ہے‘ راقم نے جواب دیا کہ جس جگہ جلسہ ہورہا ہے وہاں پر دو ہزار کرسیاں لگی ہیں اور اتنے ہی لوگ سڑک پر آسکیں گے اس میں زیادہ کی گنجائش نہیں‘ ان صاحب نے میرا جواب سن لیا‘ اور پھر کچھ دیر بعد فون آیا کہ آپ دفتر جائیں ایک اور صاحب آرہے ہیں وہ لائیو کوریج کرینگے. راقم بھی بڑا خوش ہوا کہ چلو جان چھٹی‘ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ جس دوسرے صحافی کو بھجوایا گیا تھا اس نے لائیو میں یہ کہہ دیا کہ ہزاروں کی تعداد میں کرسیاں ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ آرہے ہیں‘ وہ دن پھر تبدیلی والی سرکار کے سرکاری جلسوں میں راقم کو لائیو کوریج کیلئے نہیں بھیجا جاتا -اگر بہت مجبوری بھی ہوتی تو پھر لائیو سے گریز ہی کیا جاتا‘ کیونکہ یہ شائد اوپر سے آرڈر تھے یا پھر وہ یہ سمجھ گئے تھے کہ اس نے یہی کہنا ہے جو اس وقت ان کے مفاد میں نہیں تھا.

سال 2020 میں جب ایک میراثی جو اپنے پروگراموں میں دنیا جہاں کے بہترین انسان اور فلاسفر ہیں‘ وہ بھی تبدیلی والی سرکار کے بڑے فین ہیں‘حالانکہ انہی میراثی کی چوریوں کی وجہ سے پورا ایک ادارہ بند ہوا اور پاکستان بھر میں سینکڑوں صحافی بیروزگار ہوگئے لیکن دو سال میں میراثی نے اپنا الگ سیٹ اپ بنا لیا تھا.ادارے کے ختم ہونے کے بعد ان بیروزگار صحافیوں میں راقم بھی شامل تھا اس میں اللہ تعالی کا رازہی تھاجو شائدراقم جیسے انسان سمجھ ہی نہیں سکتے‘ چونکہ راقم ایشین کالج آف جرنلزم چنائی کے موبائل تربیتی سیشن کا طالب علم رہا‘ اس لئے کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد مخصوص اداروں سے وابستگی ہوئی ساتھ میں اپنا ایک سیٹ اپ بھی شروع کیا‘ تو لاہور سے ایک صاحب نے باقاعدہ فون کرکے راقم کو بتایا کہ آپ تبدیلی والی سرکار کے نرگسیت کا شکار لیڈر کی تعریف کرو‘ تو آپ کے فالورز بھی بڑھیں گے اور اس طرح آپ کو کچھ نہ کچھ ملے گا. الحمد اللہ‘ راقم نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹوں کے شہنشاء کی دلالی کرنے سے بہتر ہے کچھ اور کام کیا جائے‘ جس پر انہی صاحب نے جواب دیا کہ مجھ پتہ ہے کہ تم کریک ہو اس لئے تم اسی طرح ہی رہو گے.

اتنی لمبی کہانی اس لئے لکھ دی کہ تبدیلی والی سرکار نے جو کچھ کیا‘ اس پر یوٹرن لیا‘ جو وعدے اور دعوئے کیے‘ سب کے سب جھوٹے پر مبنی تھے اور انہی جھوٹ کو ڈیفنڈ کرنے والے بھی ہمارے ہی صفوں کے کچھ لوگ تھے اور رہیں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے کے سارے صحافی "قلابے ملا کر " خا ن کی تعریف کرینگے‘ وہ پشتو مثل کے بقول امرسو سرہ... یعنی امرسہ کھانے کیساتھ دھکے بھی کھانے پڑتے ہیں‘ سو تبدیلی والی سرکاروہ احتساب کمیشن کدھر گیا‘ جس میں ایک مخصوص صاحب کے بنگلوں کو کرائے پراحتساب کمیشن کا دفتر بنا کر احتساب شروع کیا گیا‘ اور پھر احتساب کمیشن ہی غائب ہوگیا‘ راقم کو اس لئے یاد ہے کہ احتساب کمیشن کی رپورٹنگ راقم کی ہی ذمے تھے‘ راقم کو یہ بھی یاد ہے کہ صوبے میں ان سے قبل ایزی لوڈ کے نام سے جانے جانیوالے حکومت حیات آباد کے ٹول پلازہ کو بارہ کرو ڑ روپے میں ٹھیکیدار کو دیا کرتے تھے جس میں سیکورٹی اور بجلی بھی ٹھیکیدار کی ہوا کرتی تھی لیکن پھر تبدیلی والی سرکار آئی اور ٹھیکہ آٹھ کروڑ میں ایک سرکاری ادارے کو دیا گیا اور چوکیدار اور بجلی کے استعمال سے لیکر تمام وسائل سرکاری ادارے کے استعمال ہوتے رہے‘ کیونکہ اس وقت وہاں پر تعینات صاحب ایک بڑی سیاسی شخصیت کے رشتہ دار تھے.یہ سارا ریکارڈ اب بھی موجود ہے.جس کی گواہی حیات آباد ریذیڈنٹس سوسائٹی کے اہلکار بھی دے سکتے ہیں بجائے اس کے اس پر کاروائی ہوتی‘ سب کچھ ہی تبدیل کیا گیا‘ ہسپتالوں میں شروع کئے گئے کارڈ سسٹم کے تحت کونسی مخصوص فارمیسی کو نوازا جارہا ہے‘ اور مخصوص فارمیسی کونسے وزیر کی ہیں‘ ا ن جیسے بہت سارے سوال آنے ہیں..‘ اسی تبدیلی والی سرکار کے دور میں بیوٹیفیکیشن کے نام پر کروڑوں روپے رنگ روڈ سمیت جی ٹی روڈ پر حیات آباد تک لگادئے گئے اور سب کچھ کاغذات میں ہوا‘ اور پھر چھ ماہ میں بی آر ٹی کے چکر میں سب کچھ ختم کردیا گیا‘ اس وقت جواب آیا کہ بی آر ٹی کی وجہ سے سب کچھ تبدیل کیا گیا‘ حالانکہ یہ سب کچھ پری پلان تھا‘ ریکارڈ بھی نہیں رہا‘ جب ریکارڈ ہی نہیں رہا تو پھر کیسی کرپشن اور کہاں کی کرپشن...
ایک مخصوص یونیورسٹی کی وائس چانسلر کے چارسدہ میں گھر کو صوبے کے کن صاحب کے گھر پر کئی کلومیٹر سڑک کیوں راتوں رات بنائی گئی‘ کونسے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کو صوبے کے ایک اہم شخصیت کیلئے پارٹی کے لوگوں کو بھرتی کرنے پر نیب کی کاروائی کا سامنا کرنا پڑا‘ اور یہ کیس ابھی بھی التواء کا شکار ہیں‘ کونسی خاتون کو ایک اہم شخصیت کی طرف سے بھرتیوں میں انکار پر آج تک پریشانی کا سامنا ہے.یہ اور ان جیسے بہت سارے سوالات ہیں‘ جو وقت گزرنے کے ساتھ اٹھنے ہیں اور اٹھتے رہیں گے.. یہاں بھی اور وہاں پر بھی جہاں کا ہمیں یقین ہی نہیں‘“ تاہم پھر بھی...

تبدیلی والی سرکار "دل بڑا کرکے رکھیو" کرنے کیساتھ صبر اور برداشت بھی پیدا کرلو‘ ابھی تو ٹریلر کا آغاز ہوا ‘ پوری فلمیں آنی ہیں‘غبارے کی صرف ہوا نکال دی گئی ہیں اسے پھاڑا نہیں گیا‘حالانکہ پارٹی کے بعد غبارے کو پھاڑا ہی جاتا ہے‘ بھلے سے جتنا بھی بڑا غبارہ ہو‘ اور آواز جتنی بھی بڑی نکال دے پارٹی کے بعد غبارے کی وقعت نہیں رہتی‘ ہاں یہ الگ بات کہ چرب زبانی‘ بدتمیزی اور مدینے کی نام پر سیاست کرنے والے جھوٹ تو چلے گا لیکن سچ کہیں نہیں چھپتاہاں یہ کہ سچ آنے میں وقت لگتا ہے اور یہ کڑوا سچ برداشت کرنا پڑے گا.بھاگنے سے کام نہیں چلے گا..بھلے سے جتنے بھی تین "ج " آپ کے ساتھ ہوں..
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 585 Articles with 413772 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More