میرا فیصلہ قرآن کرے گا :قسط :١٣

ایک معصوم لڑکی کی سچی داستان جسے کاروکاری جیسی بے رحم رسم کا نشانہ بنایا گیا جس نے اپنا منصف قرآن کو بنایا اور قرآن نے اس کا فیصلہ کردیا

مولوی صاحب کی حالت غیر تھی ۔ دن میں بھی ان کے دل کی دھڑکن غیر معمولی رہی ۔تراویح میں جب گاؤں کے کچھ لوگ آئے تو تراویح پڑھانے کے بعد مولوی صاحب نے کہا ٌ اس گاؤ ں میں کوئی غیر معمولی واقعہ تو نہیں ہوا؟ تمام لوگوں نے نفی میں سر ہلایا حالانکہ ان کے چہرے صاف گواہی دے رہے تھے ۔اس پر مولوی صاحب نے کہا عجیب وحشت ہے یہاں ۔میرے ساتھ ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہو ئے۔ لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور رمضو کا مسئلہ بھی تھوڑا تھوڑا سمجھ آرہا تھا ۔پینو کی موت کے بعد اس گاؤں میں وہ رونق نہ رہی تھی ۔حالانکہ پینو ایک شرمیلی لڑکی تھی جو اپنے دوپٹے کے پلو کو منہ میں دبا کر نیچے منہ کرکے بات کرتی تھی اور اس کا حیا ہی تھا جو گاؤں کے سب بزرگ اس سے پیار کرتے تھے اب اس کو کالی کرنے کے بعد سب لوگ جیسے خاموش ہوگئے تھے جانتے تھے جس کو سردار کی طرف سے کالی کا خطاب دے دیا جاتا ہے اسے اچھے لفظوں میں یاد کرنا اور اس کا ویسے بھی ذکر کرنا اس گاؤں میں کتنا بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔اس لیۓ وہ بس یہی کہہ سکے کہ مولوی صاحب روزوں کا مہینہ ہے آپ بس اس مسجد کو خالی چھوڑ کر مت جائیں ۔اتنے عرصے بعد تو آباد ہوئی ہے ۔خالی تھی شاید اس لئیے ۔مولوی صاحب نے لوگوں کے بہت اصرار پر جانے کا فیصلہ ترک کردیا ۔

اگلی چند راتیں اسی طرح ہوا ۔مولوی صاحب کو پھر ایک لڑکی قرآن سر پر رکھے اور منہ میں چٹیا دبائے خواب میں نظر آتی ۔اور خواب اتنا حقیقت کے پاس تھا کہ مولوی صاحب پسینے میں شرابور ہوجاتے ۔راتوں کو مولوی صاحب جاگ کر اور سورتیں پڑھ کر گزارتے ۔فجر کی نماز کے بعد انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ اس گاؤں میں کسی پر کوئی ظلم ہوا ہے کیا ؟ لوگ جاننے کے باوجود بولے ٌ نہیں مولوی صاحب ! ایسا تو کچھ نہیں ہوا ؟ مولوی صاحب نے پھر اپنے خواب کے بارے میں بتایا اور مسلسل ایک ہی جیسے خواب کا دکھنا انہیں اچنبھے میں مبتلا کر رہا تھا ۔ان کے بہت پوچھنے پر ایک بزرگ نے کہا ٌ اوہ سائیں! ایک لڑکی نے منہ کالا کیا تھا ۔اس کو رواج کے مطابق اور اللہ سائیں کے حکم کے مطابق مار دیا ہے ۔ اس کو ایک غیر شخص کے ساتھ بات کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا یہی کیا کم ہے ظاہر ہے وہ اس شخص کو جانتی بھی ہوگی اور اس سے ملتی بھی ہوگی ۔اور بدنامی ہوگئی تھی ۔پھر سردار نے اسے کالی کہہ دیا تھا اب وہ قرآن سر پر اٹھاتی یا کچھ بھی کرتی یہ کوئی پہلی دفعہ تھوڑی ہوا ہے۔ساری کالیوں کا انجام یہی ہوتا ہے ۔آپ کو ویسے ہی شیطانی خواب آرہا ہے ۔بزرگ نے اس بات کو اتنی اہمیت نہ دیتے ہوئے کہا۔ تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ اللہ کا حکم اس پر واضح ہوگیا تھا ؟ کیا اس کے گناہ کے کوئی گواہ تھے ؟ مولوی صاحب نے سوال کیا ؟ نہیں سائیں ! گناہ بھلا لوگوں کے سامنے کوئی کرتا ہے ؟ اسی بزرگ نے جواب دیا ۔وہ رب نواز کا باپ تھا اور جانتا تھا کہ اس کا بیٹا بھی اس قتل میں ملوث تھا اس لئیے مولوی صاحب کی بات اسے پسند نہیں آئی ۔لیکن بزرگو ! ابھی آپ نے فرمایا یہ اللہ کا حکم تھا تو کیا آپ کو یہ نہیں پتا کہ اللہ نے عینی شاہد کے ہونے کی صورت میں سنگسار کا حکم دیا ہے اور دوسری صورت میں جب گواہ نہ ہوں اور صرف الزام لگایا گیا ہو تو اس صورت میں اپنی سچائی کی قرآن کی قسم اٹھا کر گواہی دی جاسکتی ہے ۔اس میں جھوٹے شخص کو خود قرآن کی مار پڑ تی ہے ۔کیا یہ آپ لوگوں کو کسی نے نہیں بتایا ۔بحرحال !لگتا ہے آپ سب سے بہت بڑا گناہ سرزد ہوا ہے ۔آپ لوگ اللہ سے معافی مانگیں ورنہ ہر وہ شخص جو کسی بھی طرح سے اس قتل میں ملوث تھا وہ بھی اور جس نے ان کو یہ گناہ کرتے ہوۓ نہیں روکا سب اللہ کی عدالت میں حاضر ہونگے ۔آپ لوگ یہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ اللہ پاک کسی پر ظلم کرسکتے ہیں ۔میرے خواب کی تعبیر بتاتی ہے کہ وہ لڑکی بے گناہ تھی اور اپنی بے گناہی کو ثابت کرے گی ۔ جو کچھ آپ لوگوں نے بتایا کہ اس کے قتل کے بعد ہوا اس سے تو ظاہر ہوتا ہے اللہ اس کے ساتھ ہے اور جلد مجرموں کو عبرت ناک سزا ہوگی ۔مولوی صاحب یہ کہہ کر خاموش ہوگۓ وہ حیران بھی تھے اور پریشان بھی کیونکہ جو کچھ انہوں نے کہا تھا عموما وہ غیرت کے قتل پر تبصرہ نہیں کرتے تھے جانتے تھے کہ ان کی ان باتوں سے نہ صرف سردار بلکہ مولوی حضرات بھی ان کے خلاف ہو جائیں گے لیکن کوئی ایسی طاقت تھی یا اس لڑکی کا ڈر ۔شاید وہ یہی چاہتی تھی کہ میں اس کے بے گناہ ہو نے کو ثابت کروں اور اس پر ہونے والے ظلم کے خلاف نہ صرف آواز بلند کروں بلکہ ان لوگوں کو اللہ کے صحیح حکم کے بارے میں بھی بتاؤں۔ مولوی صاحب کی باتیں سن کر سب لوگ حیران تھے کیونکہ یہ پہلا مولوی تھا جو عورت کو مظلوم کہہ رہا تھا ورنہ تو جتنے بھی مولوی آئے یوں لگتا تھا صرف عورت کے پردے ۔عذت کے لیکچر دینے ہی آئے ہیں اور عورت کو ٹیڑھی پسلی ہی کہتے سنا یا جنت سے نکلوانے پر حقارت کا اظہار ہی کرتے دیکھا یہ کیسا مولوی تھا جو عورت کو نا حق قتل کرنے پر فتوی سنا رہا ہے ۔ یا تو یہ مولوی پاگل ہے یا پھر سائیں کے بارے میں جانتا نہیں ورنہ یہ سب کہنے سے پہلے سوچتا ضرور کہ اس کے یہ الفاظ جو اس کے جس حلق سے نکلتے ہیں سردار اس پہ موجود شہ رگ کو کس طرح سے کاٹے گا ۔ یہاں صرف سائیں کی بادشاہت تھی ۔سائیں کے اصول ،سائیں کا حکم اور سائیں کا سکہ چلتا تھا یہاں بھلا کون سنے گا اس مولوی کو ۔بالی کی طرح اس کی نصیحتیں بھی دم توڑ جائیں گی ۔بالی کی کس نے سنی تھی ۔اس نے کتنا انصاف دلا دیا تھا پینو کو۔اس کی تو بیوی تھی تب بھی وہ کچھ نہ کرسکا تو اب مولوی کی کیا مجال تھی۔

صبح کا کا مسجد میں داخل ہوا اور بہت عذت سے سینے پر ایک ہاتھ رکھ کر دوسرا مولوی صاحب کی طرف مصا فحہ کے لئیے بڑھاتے ہوئے ادب سے جھک کر کہا ٌ استاد جی ! آپ کو سائیں وڈا نے جی ڈیرے پہ جی بلایا ہے ٌ مولوی صاحب نے کہا ٌ خیریت ہے ۔کوئی کام تھا ان کو مجھ سے ۔ابھی چند دن پہلے تو ملاقات ہوئی تھی ۔ پتا نہیں جی ۔سائیں سے پوچھنے کی جی جسارت کون کرسکتا ہے جی ۔ان کا حکم تھا جی کہ بلا کر لاؤ مولوی صاحب کو ۔کاکے نے معصومیت سے کہا ۔ ٹھیک ہے تم جاؤ میں اشراک کی نماز ادا کرکے آ رہا ہوں ۔مولوی صاحب نے کہہ کر اشراک کی نماز کی نیت باندھی۔

(کیا ہوگا مولوی صا حب کے ساتھ ؟ دیکھئے اگلی قسط میں
 

azra faiz
About the Author: azra faiz Read More Articles by azra faiz: 47 Articles with 86466 views I am fond of writing stories, poetry, reading books.
I love to help and motivate the people who are for some reason helpless. I want to raise the vo
.. View More