طلاق کی عدت پر سیاسی ہنگامہ آرائی

 گزشتہ کچھ دنوں سے محترمہ بشری مانیکا کی عدت اورعمران خان سے نکاح کی الجھنوں بھری خبریں عام ہیں۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے، ہمیں کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس میں کسی بھی طرح کی دخل اندازی کرتے۔ معاملہ خالصتا دینی تھا لیکن میڈیا میں بے جا قسم کے الجھاؤ کا شکار ہوچکا ہے۔ اسلام میں عدت کے حکیمانہ اور مدبرانہ حکم کی تشریح دینی علوم سے ناواقف لوگ اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کے مطابق کر رہے ہیں، لھذا اسلامی نکتہ نظر کی وضاحت کیلئے مجبورا اس پر قلم اٹھانا پڑ ا۔ اس کالم کو پڑھنے سے پہلے ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ راقم نے کسی بھی سیاسی شخصیت کی مخالفت یا حمایت سے قطع نظر فقط قرآن و سنت کے احکام کو کو ملحوظ خاطر رکھا ہے ۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلامی نظام معاشرت میں نسب کی ایک خاص اہمیت ہے کیونکہ خاندانی زندگی کا انحصار اور دار و مدار اسی پر ہوتا ہے۔باپ کی شناخت گم ہونے کی صورت میں اولاد کو اس کا حقیقی خاندان میسر نہ آنامسلمان سماج کا بڑا المیہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ’’عدت ‘‘کا بنیادی مقصود اسی نسبی وقار کا تحفظ ہے۔’’ عدت‘‘ کے لغوی معنی شمار کرنے کے ہیں جبکہ شرعی اصطلاح میں عدت اس معین مدت کو کہتے ہیں جس میں شوہر کی موت، طلاق یا خلع کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جدائی کی صورت میں عورت پر چند مخصوص شرعی احکامات کی پابندی لازم ہوتی ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں امت مسلمہ متفق ہے کہ ان حالات میں عورت کے لئے عدت واجب (فرض) ہے۔البتہ عورت کے فطری احوال کے اختلاف کی وجہ سے عدت کی مدت مختلف ہوتی ہے۔ شوہر کے انتقال کی وجہ سے عد ت چارماہ اور دس دن کی ہوگی جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور بیویاں چھوڑجائیں تو وہ عورتیں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن عدت میں رکھیں‘‘۔ (سورۃ البقرۃ 234)۔اگر طلاق یا خلع کے وقت بیوی حاملہ ہے تو Deliveryہونے تک عدت رہے گی خواہ تین ماہ سے کم مدت میں ہی بچے کی ولادت ہوجائے۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ’’حاملہ عورتوں کی عدت ان کے وضع حمل تک ہے‘‘(سورہ الطلاق4)۔ اگر طلاق یا خلع کے وقت عورت حاملہ نہیں ہے تو ماہواری آنے والی عورت کے لئے عدت تین حیض (ماہواری) رہے گی۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ’’مطلقہ عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں‘‘ (سورۃ البقرۃ 228)۔تیسری ماہواری ختم ہونے کے بعد عدت مکمل ہوگی۔ عورتوں کے احوال کی وجہ سے یہ عدت تین ماہ سے زیادہ یا تین ماہ سے کم بھی ہوسکتی ہے۔جن عورتوں کو عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے ماہواری آنا بند ہوگئی ہو تو طلاق کی صورت میں ان کی عدت تین مہینے ہوگی۔ جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ’’ تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوچکی ہیں، اگر تمہیں ان کی عدت کی تعیین میں شبہ ہو رہا ہے تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور اسی طرح جن عورتوں کو حیض آیا ہی نہیں ہے، ان کی عدت بھی تین ماہ ہے‘‘ (سورہ الطلاق4) ۔نکاح کے بعد لیکن ازدواجی تعلقات یا تنہائی میں ان تعلقات کا موقع میسر آنے سے قبل اگر کسی عورت کو طلاق دے دی جائے تو اس عورت کے لئے کوئی عدت نہیں ہے جیساکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے (یعنی صحبت کرنے) سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان عورتوں پر تمہارا کوئی حق عدت کا نہیں ہے جسے تم شمار کرو (سورۃ الاحزاب49)۔نکاح کے بعد لیکن ازدواجی تعلقات یا اس کا موقع میسر آنے سے قبل طلاق دینے کی صورت میں آدھے مہر کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ (سورۃ البقرہ 237) ۔عدت کو واجب قرار دینے کی اہم مصلحت اس بات کا یقین حاصل کرنا ہے کہ نسب میں کوئی شبہ باقی نہ رہے۔کسی وجہ سے شوہر کے گھر عدت گزارنا مشکل ہو تو عورت اپنے میکے یا کسی دوسرے گھر میں بھی عدت گزار سکتی ہے (القرآن سورہ الطلاق1) ۔ عورت کے لئے عدت کے دوران دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے، البتہ رشتہ کا پیغام عورت کو اشارۃًدیا جاسکتا ہے(البقرۃ235/ 234)۔ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو اس کو عدت کے دوران بناؤ سنگھار کرنادرست نہیں ہے۔عدت کے دوران عورت کے مکمل نان ونفقہ کا ذمہ دار شوہر ہی ہوگا۔عدت کے ان اسلامی اصولوں کے تناظر میں عمران خان کے نکاح اور بشری مانیکا کی عدت کے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مفتی سعید نے ان کا نکاح پڑھایا۔ایک عالم دین کے طور پر انہیں سو فیصد یقین ہونا ضروری تھا کہ اسلامی اصولوں کے مطابق عدت کی مدت گزر چکی ہے۔ ان کا دینی و اخلاقی فرض بنتا ہے کہ منظر عام پر آکر اس الجھن کو دور کریں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق مفتی سعید سے رابطہ کیا تو انہوں نے تردید کی اور نہ تصدیق بلکہ بضد رہے کہ وہ شادی کے معاملے پر کوئی بات ہی نہیں کرینگے۔ ان کی سنسنی خیز خاموشی ناقابل فہم ہے ۔ جانتے بوجتے ہوئے عدت کے دوران نکاح پڑھانے کی صورت میں، ’’حرام قطعی‘‘ کو ’’ حلال ‘‘کرنے کی بناء پر نکاح خواں کا نکاح بھی خطرے سے دوچار ہو سکتا ہے ۔ جب تک طلاق اور نکاح کی مکمل اور مستندتاریخیں معلوم نہ ہوں کسی بھی عالم دین یا مفتی کیلئے فیصلہ کرنامشکل ہے کہ بوقت نکاح عدت مکمل ہوئی یا نہیں۔ابھی تک ہمارے پاس جو کچھ بھی آیا ہے صرف میڈیا کے ذریعہ آیا ہے۔ عمران خان کے خاندانی ذرائع اس الجھن کو ختم کر رہے ہیں اور نہ ہی نکاح خوان کچھ بتا رہے ہیں۔ طلاق کس تاریخ کو ہوئی اور نکاح کب ہوا یہ ایک سر بستہ راز ہے۔ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق چودہ نومبر2017 کو طلاق ہوئی تھی اور 18فروری کو نکاح کی تصاویر شائع کی گئیں ۔ اگر اسی تاریخ کو نکاح ہوا تو پھر نکاح بلا شک و شبہ جائز ہے۔ بصورت دیگر ہر عورت کا اپنا ایک فطری معمول ہوتا ہے۔شریعت کے مطابق عورت کیلئے ماہواری کے کم از کم تین دن جبکہ اس کے بعد پاکی کے کم سے کم پندرہ دن ممکن ہیں ۔ اس طرح یہ ایک سرکل کم از کم اٹھارہ یا اس سے زیادہ دنوں میں بھی مکمل ہو سکتا ہے۔ لھذا ماہواری والی عورتوں کیلئے عدت کی مدت تین ماہ سے کم بھی ہو سکتی ہے اور زیادہ بھی جس کا کماحقہ تعین ممکن نہیں کیونکہ ہر عورت کے طبعی احوال مختلف ہوتے ہیں۔ مثلا کسی عورت کو پاکی کے آخری دن اور مہینے کی آخری تاریخ کو طلاق ہوئی۔ پہلی سے تین تاریخ تک ماہواری رہی۔ پھر پندرہ دن پاک رہی۔ پھر تین دن کی ماہواری اور پندرہ دن کی پاکی کی حالت میں رہ کر تیسری ماہواری تین دن کے بعد ختم ہوئی۔ اس طرح (3+15+3+15+3=Total 39) کم از کم انتالیس دنوں میں بھی عدت کا مکمل ہونا شرعا ممکن ہے۔ماہواری والی مطلقہ عورتوں کیلئے عدت کی مدت تین مہینے ہی خیال کرنے والے کم فہمی میں مبتلا ہیں۔یہ تو تھی شرعی وضاحت البتہ مذکورہ بالاکیس میں صورت حال واضح نہیں لھذا کوئی حتمی فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ عمران خان اس ملک کی بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہیں چاہیے کہ پوری ذمہ داری کے ساتھ کنفیوژن دور کریں۔ عام حالات میں یہ ان کا ذاتی معاملہ ہو سکتا تھا لیکن ایک قومی لیڈر پر اتنا بڑا الزام لگ جائے تو صفائی پیش کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ مخالفین کے پے در پے وار اور ان کا مسلسل خاموش رہنا ان کی ذاتی ساکھ اور پارٹی کیلئے بھی نقصان دہ ہے۔ غلطی ہو ہی گئی ہو تو اس کا ازالہ ممکن ہے ورنہ’’ خاموشی‘‘ کئی خدشات کو جنم دے رہی ہے۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 216694 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More