عبادت کی تنخواہ

اﷲ تعالیٰ نے جب یہ چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو اُس نے یہ کائنات بنائی ۔اﷲ تعالیٰ نے یہ کائنات تدبیر سے بنائی، اِس لیے اس میں کوئی انسان نقص تلاش نہیں کر سکتا۔اﷲ تعالیٰ نے اِس پوری کائنات میں کوئی چیز بغیر مقصد پیدا نہیں فرمائی۔ یہاں تک کہ اُس نے جو عبادات ہم پر فرض کی ہیں وہ بھی بغیر کسی مقصد کے نہیں ہیں،کیوں کہ اﷲ کی ذات با برکات کو تو ہماری عبادتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر عبادت ہماری بحیثیت انسان تربیت کرتی ہے۔فرائض کی ادائیگی کسی بھی مذہب میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔فرائض اِس لیے اہتمام کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں کہ پروردگار نے بطورانسان ہم پر کچھ معاشرتی ذمہ داریاں ڈالی ہیں اور دینی فرائض کو اہتمام سے ادا کرنا اس لیے ضروری ہے تا کہ ہم بطور انسان اپنی معاشرتی ذمہ داریاں بھی اہتمام کے ساتھ اور احسن طریقے سے ادا کریں۔ایک ماں کی حیثیت سے، باپ کی حیثیت سے،بیٹے، بیٹی کی حیثیت سے،بیوی کی حیثیت سے، شوہر کی حیثیت سے، ملازم کی حیثیت سے، مالک کی حیثیت سے،استاد کی حیثیت سے، شاگرد کی حیثیت سے،یعنی معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے ہمارے کچھ فرائض ہیں۔اگر ہم اِن فرائض کو بھی احسن طریقے سے سر انجام نہیں دیتے۔اہتمام کے ساتھ ادا نہیں کرتے تو ہمیں اس کاحساب دینا پڑے گا ،جس طرح اگر ہم نماز نہ پڑھیں ، روزہ نہ رکھیں ،صاحبِ استطاعت ہو کر زکواۃ نہ دیں تو دینا پڑے گا۔

ہر مذہب کے پیروکارکچھ عبادتیں حصولِ ثواب کی خاطربھی بہت اہتمام سے کرتے ہیں، جنھیں ادا کرنے کے کچھ قوانین بھی انھوں نے بنا رکھے ہوتے ہیں۔یہ نفلی عبادات اﷲ کی رضا کا باعث ہوتی ہیں،اس لیے ان کو ادا کرنے کے لیے کوئی وقت کی پابندی نہیں ،جب بھی وقت ملے ادا کر سکتے ہیں۔میرا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے مگر میں فیڈرل کے ادارے میں پڑھاتی ہوں اور لاہور میں رہتی ہوں، جب کہ میرا خاندان خیبر پختون خوا میں رہتا ہے۔جس سکول میں میں نے پڑھا تھا اسی سکول میں میری بہن اب پڑھاتی ہے اور خاندان کی باقی بچیاں زیرِ تعلیم ہیں۔میری کچھ سہیلیاں بھی وہاں اپنی خدمات بطور ٹیچرسر انجام دے رہی ہیں ۔خیبر پختون خوا کے لوگ فرض عبادات پر زیادہ زور دیتے ہیں،زیادہ تر لوگ نماز روزے کے پابند ہوتے ہیں،نفلی عبادات بھی ذوق و شوق سے کرتے ہیں خاص کر خواتین اس معاملے میں زیادہ پابندی کرتی ہیں۔

جس سکول کا احوال میں لکھ رہی ہوں وہ مجھے وقتاََ فوقتاََ مختلف وسیلوں سے موصول ہوا ہے ۔ سکول کی ہیڈ مسٹریس سکول آکے’’ سورۃ الکہف ‘‘پڑھتی ہیں اور جب تک وہ سورۃ پڑھتی ہیں تب تک کسی سے بات نہیں کرتیں کہ اِس طرح ثواب کے زائل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔سارا دن خشوع و خضوع کے ساتھ عبادات میں مصروف رہتی ہیں ۔اشراک کی نوافل بھی سکول میں باقاعدگی سے پڑھتی ہیں ۔ بہت ہی نیک خاتون ہیں باقی کا سارا وقت قرآن مجید کی تلاوت میں گزرتا ہے،یا کھانے پینے میں۔ہر وقت اﷲ کا شکر ادا کرتی رہتی ہیں کہ ان عبادات کے عوض اُنھیں خیبر پختون خوا کی حکومت تقریباََ سوا لاکھ روپے ہر ماہ تنخواہ دیتی ہے۔ اساتذہ اور بچوں کے معاملے میں بہت ہی نرم مزاج رکھتی ہیں۔کبھی کسی استانی سے نہیں پوچھا کہ سلیبس مکمل ہوا یا نہیں۔بچوں کو کچھ آتا جاتا بھی ہے یا نہیں، نہ ہی کبھی طلبہ کی کاپیاں چیک کرتی ہیں کہ آیا استانیوں نے کاپیاں جانچی ہیں یا نہیں۔عدم مداخلت کے اصول پر اتنی سختی سے کار بند رہتی ہیں کہ کسی کو کچھ نہیں کہتیں۔ میری ایک دوست کبھی اپنا پیریڈ نہیں لیتیں۔جب ان کا پہلا پیریڈ شروع ہوتا ہے ایک بچی پرس کمرۂ ِ جماعت میں رکھ آتی ہے۔جب وہ پیریڈ ختم ہوجاتا ہے بچی پرس لے آتی ہے اور محترمہ کہتی ہیں کہ بیٹا فلاں کلاس میں پرس رکھ آؤ۔سارا دن ’’پرس ‘‘بچوں کو پڑھاتا ہے۔سکول کی اور نیکو کار استانیاں بھی تلاوت قرآن میں مشغول رہتی ہیں۔سکول کی بچیوں سے بھی قرآن مجید کے ختم پڑھوائے جاتے ہیں ، جو استانیوں نے یا ہیڈ مسٹریس نے منّت کے طور پر مانے ہوتے ہیں۔میں کیوں کہ خیبر پختون خوا کے ایک ہائیر سیکنڈری سکول کی بات کر رہی ہوں اس لیے چھٹی کلاس کی لڑکیوں کا جب داخلہ ہوتا ہے تووہ پڑھائی میں اتنی کمزورہوتی ہیں کہ اُنھیں اے بی سی بھی نہیں آتی۔جب کہ مذکورہ سکول کی استانیاں اور ہیڈ مسٹریس ہی پرائمری سکول کا سالانہ معائنہ کرنے جاتی ہیں ، جس سکول میں اچھا کھانا مل جائے اور ہیڈ مسٹریس کے گھر والوں کے لیے پیک بھی کر دیا جائے، تو پھر اُس سکول کی رپورٹ اگرعمدہ نہ لکھی جائے، تو یہ بھی کفرانِ نعمت ہے اور کفرانِ نعمت اﷲ تعالیٰ کو سخت ناراض کرنے کا موجب بنتا ہے،لہٰذاکفرانِ نعمت نہ کرتے ہوئے اﷲ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے بہترین رپورٹ لکھی جاتی ہے کہ اِس سکول کے طلبہ آج کے آئین سٹائین ہیں اور اُنھیں اِس درجے تک پہنچانے میں اُن کے اساتذہ نے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔لہٰذا وہ بہترین کارکردگی والے طلبہ کو چھٹی جماعت میں اردو الفاظ کا جوڑ توڑ بھی سکھانا پڑتا ہے اوراے بی سی کے ساتھ دو جمع دو چار بھی سکھانا پڑتا ہے۔ سکول میں چند استانیاں ایسی بھی ہیں ،جو خدا تعالیٰ کی نا شکری ہیں ،جو عبادت نہیں کرتیں اور بچوں کو پڑھاتی ہیں اور اﷲ کو ناراض کرتی رہتی ہیں نا اشراک پڑھتی ہیں نہ قرآن ،دین سے دوری کی بنا پر چاہے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر بھی لگی رہتی ہیں۔

جب گورنمنٹ یا پرائیویٹ ادارے میں کوئی شخص ملازم بھرتی ہوتا ہے تو وہ اُس ادارے سے تنخواہ کے عوض خدمت کی حامی بھرتا ہے۔ اُسے پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ اتنی تنخواہ کے عوض اتنا کام کرنا ہے۔اگر وہ ادارہ مسجد ہے پھر تو نماز قرآن پڑھنا جائز ہو سکتا ہے،اِس کے علاوہ نہیں۔علمائے دین کا فتویٰ موجود ہے کہ کسی ادارے کا ملازم اُس ادارے میں صرف فرض نماز(اگر قضا ہونے کا خطرہ ہو)پڑھ سکتا ہے، نوافل نہیں۔سرکاری سکولوں میں موجود ملازمین خاص طور پر خواتین عبادت کر کے قرآن و نوافل پڑھ کر کس کو دھوکہ دیتی ہیں؟خدا کو(نعوز باﷲ)، حکومتِ وقت کو ،نئی نسل کو یا خود کو۔کیا اﷲ تعالیٰ اُن کی یہ ظاہری عبادت قبول کرے گا۔میرا ایمان ہے کہ اﷲ تعالیٰ نا انصاف نہیں،اگر اپنے بچے پرائیویٹ اداروں میں پڑھا کر غریبوں کے بچوں کو تعلیم و تربیت سے محروم رکھا جائے گا تو اﷲ کی ذات کہیں نہ کہیں حساب برابر ضرور کرے گی۔ایک استاد کی عبادت یہی ہے کہ وہ اپنی ساری توانائیاں صرف کر کے طلبہ کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کرے ۔عمران خان کیا کر سکتا ہے ؟ صوبے کی اعلیٰ انتظامیہ بھی کیا کر سکتی ہے؟وہ بائیو میٹرک نظام لگا کے آیا استادوں سے بچے پڑھوا بھی سکتے ہیں۔۔؟نہیں۔

بائیو میٹرک کے ذریعے صرف اساتذہ کو سکول کے اندر ایک خاص وقت تک روک تو سکتے ہیں،بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سکتے۔ایسا تب تک نہیں ہو سکتاجب تک نقل کا رجحان ختم نہیں ہو گا،جب تک اساتذہ کی کڑی نگرانی نہیں کی جائے گی، جب تک تعلیمی اداروں کو غیر سیاسی نہیں کیا جائے گااور اساتذہ کو بچوں کے برے نتائج پر سزا نہیں دی جائے گی ۔جب تک سخت قوانین نہیں بنائے جائیں گے اور اُن پر عمل در آمد نہیں کروایاجائے گا،لوگ اداروں میں عبادت کرنے کی تنخواہ وصولتے رہیں گے۔خیبر پختون خوا کا کوئی سکول اور کالج ایسا نہیں جہاں بورڈ کے پرچوں میں نقل نہ چلتی ہو۔ اس لیے کوئی ایسا نظام وضع کیا جانا چاہیے کہ امتحانی ہال کی پوری کاروائی مانیٹر کی جاسکے اور اِس مانیٹرنگ میں مقامی لوگ نہ ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے پردے رکھتے ہیں ۔ایمان دار لوگوں کے ذریعے نظام اور قانون کو بہتر بنایا جائے اور باقی ملازمین کو قانون کی پاسداری نہ کرنے پر سزائیں دی جائیں۔امتحانی مراکز کو کم از کم امتحانات کے دنوں میں کیمروں سے لیس کیا جائے تا کہ کوئی استاد اپنے طلبہ کو نقل نہ کروا سکے۔اساتذہ سارا سال کچھ نہیں پڑھاتے اور امتحانوں میں بچوں کو نقلیں پہنچا کراپنا نتیجہ بہتر کر لیتے ہیں، جو ایمان دار اساتذہ بچوں پر محنت کرتے ہیں انھیں خاطر خواہ نتائج اس لیے نہیں ملتے کہ بچے امتحانوں میں نقل کرنے کے عادی ہوتے ہیں لہٰذا وہ اس امید پر محنت نہیں کرتے کہ امتحان میں نقل مل جانی ہے پڑھنے کا کیا فائدہ ۔فیڈرل گورنمنٹ میں ہونے کی وجہ سے بھی خیبر پختون خوا ،بلوچستان ،سندھ اور پنجاب کے سکول میرے ذاتی مشاہدے میں رہے ہیں ،سندھ اور بلوچستان کے سرکاری سکولوں کا حال بھی خیبر پختون خوا سے کچھ مختلف نہیں۔ بلوچستان میں صورتِ حال زیادہ ہی خراب ہے۔ہاں پنجاب وہ واحد صوبہ ہے جہاں تعلیمی ادارے کافی مضبوط ہیں۔نقل کا رجحان بہت کم ہے،بل کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اِس کی وجہ جو بھی ہویہاں کا مانیٹرنگ نظام مضبوط ہے اور با اختیاربھی۔مانیٹرنگ خیبر پختون خوا میں بھی شروع کی گئی ہے،مگر وہ فعال نہیں ہے یا اُتنی فعال نہیں جتنا کہ اُسے ہونا چاہیے۔ایک ہی ملک کے صوبوں میں معیارِ تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔اگر یہ فرق ختم نہ کیا گیایا کم کرنے کی کوشش نہ کی گئی تونتائج کافی بھیانک ہو سکتے ہیں۔
٭٭

Rukhsana Faiz
About the Author: Rukhsana Faiz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.