پی ٹی آئی کی انقلابی دیگ

ملک کی فضا کچھ دنوں سے بہت ہی مکدر ہے۔ سیاسی حالات روزانہ بڑی تیزی سے رخ تبدیل کر رہے ہیں۔ انقلاب اور حقیقی آزادی کے خواہاں پاکستان تحریک انصاف کے قائدین، ٹائیگرز اور دیگر سوشل میڈیا کارکنان کی تمام گیدڑ بھپکیاں اب یا تو خاموش احتجاج میں بدل چکی ہیں یا پارٹی کے بڑے بڑے نام بہت تیزی سے اپنی وفاداریاں تبدیل کر رہے ہیں۔ دوسروں کو رلانے کے وعدے کرنے والے اور ان کو مہینوں جیلوں میں بند کرنے والے دو دن بھی جیل کی سختیاں برداشت نہیں کر پائے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کے لیے جیلوں میں سے پنکھے نکالنے کی بات کرنے والوں کی جان پر بنی تو اب انہیں قیدیوں کے حقوق یاد آگئے۔

جس طرح پاکستان تحریک انصاف کی ون مین پارٹی کو تیزی سے جہانگیر ترین کے جہاز کا سہارا لے کر راتوں رات اکثریت کا تاج پہنایا گیا اسی طرح راتوں کی تاریکیوں میں دوبارہ سب کو واپس اپنے پرانے اسٹیشنوں کا رخ کرنا پڑا۔ حقیقتاً بھی یہی وہ لوگ ہیں جو پارٹی چینجر ہونے کے ساتھ ساتھ گیم چینجر بھی ہیں۔ ان میں کچھ بوقت ضرورت شیخ رشید کی طرح خاموش تماشائی بن کر اپنی راہیں جدا کر لیتے ہیں اور کچھ فیاض الحسن چوہان کی مانند کھلم کھلا اعلان کرتے ہیں۔

پاکستان کی سیاست گزشتہ پچھتر سالوں سے نازک ادوار سے گزر رہی ہے اور مفادات اور کرسی کی جنگ میں ایک دوسرے کے لیے گڑھے کھودنے اور بوقت ضرورت مخالفین سے گٹھ جوڑ کرنے کی روایت اسی طرح برقرار ہے۔ لیکن ملک کی صوت حال جتنی نازک اور گھمبیر حالیہ دنوں میں ہے شاید ہی پہلے کبھی ایسے حالات رہے ہوں۔ یا پھر اب سوشل میڈیا نے بھی بہت کچھ عوام پر واضح کردیا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی وی کے راگ "کپاس میں سنڈی" اور "سب اچھا ہے" کی راگ سے سب نکل چکے ہیں۔
یہاں المیہ یہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو زبردستی دیوار سے لگایا جارہا ہے بل کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس پارٹی کو دوسروں سے زیادہ خود اس کی اپنی قیادت اور خیر خواہوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ سیاسی قیادت وقت کے ساتھ مختلف بدلتے نعروں کا سہارا لے کر اپنا موقف بھی بدلتی رہی ہے۔

"تبدیلی" اور "نئے پاکستان" کے سفر سے لے کر "ہم کوئی غلام ہیں" اور پھر "امریکہ کی غلامی نامنظور" سے معافی تک کا سفر اور ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو باپ بنانے سے لے کر پوری فوج کو غدار کہہ کر، عوام کو "حقیقی آزادی" کی آڑ میں فوج سے بد زن کرنے کی کہانی۔ اس طرح روز ہی نیا سیاسی ڈرامہ عوامی توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ تحریک انصاف "حقیقی آزادی" کس سے چاہ رہی تھی۔ اسٹیبلشمنٹ سے، چور اور ڈاکو حکمرانوں سے یا پھر بھارت اور امریکہ سے۔ کیوں کہ یہ پارٹی تو ویسے بھی امریکہ کی مرہون منت سے تھی۔

دوسری جانب پارٹی کے اپنے ٹائیگرز اور کارکنوں نے بھی اسے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عمران خان کے تکبر کو بڑھاوا دینے میں سب سے بڑا ہاتھ بھی انہی کارکنوں کا ہے جو ناعوذ باللہ اسے اللّہ، نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام حسین رضی اللّٰہ کا درجہ دینے سے بھی نہ چوکتے ہیں اور اس کی شان میں قصیدے پڑھ کر کافرانہ کلمات تک بھی پہنچ جاتے ہیں۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور امام حسین نے مذہب کو بچایا کرسی کو نہیں۔ بجائے وہ اپنی پارٹی میں لوگوں کی شمولیت کے لیے راہیں ہموار کریں انہوں نے ہر تنقید کرنے والے، ہر اصلاح کار اور ہر مخالف صحافی اور دیگران کو بد زبانی اور گالی گلوچ سے نوازا۔ یہاں تک کہ اپنے اس طوفان بد تمیزی کو مدینہ کی گلیوں میں بھی برقرار رکھا۔ اس سے ایک طرف نفرت کی سیاست پروان چڑھی تو دوسری جانب اس پارٹی سے انسیت رکھنے والے لوگ بھی متنفر ہونا شروع ہوگئے۔

تحریک انصاف کے بدلتے بیانئے کے ساتھ عوامی سطح پر پارٹی کا منشور اور نعرے بھی بدلتے رہے۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین کو انڈیا کا یار اور غدار کا لقب دینے اور اپنے لیے "ہم کوئی غلام ہیں" کا ہیش ٹیگ چلانے والوں کے اپنے قول و فعل میں تضاد کا یہ عالم تھا کہ وہ سب کر دکھایا جو اصل غلامی کے زمرے میں آتا ہے۔ امریکہ کی مخالفت پر ترکی اور ملائشیا میں منعقد کردہ اسلامی کانفرنس میں شرکت نہ کرنا، قومی اسمبلی سے بل منظور کروا کے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرکے پوری پاکستانی قوم کو گروی رکھنا، آئی ایم ایف کی ایماء پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا، سلامتی کونسل میں امریکہ کی ایماء پر انڈیا کو ووٹ دینا امریکہ کی غلامی نہیں۔ اسی طرح کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرانے میں آلہ کار بننا، انڈین جاسوس کلبھوشن کی سزا کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اپیل کرنا، پاکستان پر حملہ آور بھارتی پائلٹ ابھینندن کو چائے اور پروٹوکول سمیت واپس کرنا، کرتار پور راہداری کے ذریعے بغیر ویزہ پاسپورٹ بھارتیوں کے پاکستان میں داخلے کو آسان ترین بنانا، وزیر صحت ظفر مرزا کے ذریعے انڈیا سے غیر معیاری اور زائد المعیاد ادویات منگوانا اور بھارت کو افغانستان جانے کا راستہ دینا کیا انڈیا سے یاری کے زمرے میں نہیں آتا۔

خود داری کی تلقین کرنے والا اور چوروں کو پکڑنے کے لیے سیاسی میدان میں آنے والا خان تحفے میں ملے ہار اور گھڑی اونے پونے داموں بیچ گیا اور قادر ٹرسٹ کیس میں بھی ملوث ہے۔ "صاف چلی شفاف چلی" اور انصاف کی آوازیں بلند کرنے والے خان نے جسٹس بندیال کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑادیں اور اپنے ساتھ ساتھ ملک کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا۔ لیڈر تو لیڈر کارکنان تحریک انصاف نے بھی جناح ہاؤس سے گملے، پنکھے، کرسیاں اور دوسری چیزیں چوری کیں اور مضحکہ خیز موقف یہ ہے کہ ہم عمران خان کے ساتھ اس لیے کھڑے ہیں کہ وہ چوروں کے خلاف ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاد اور انقلاب کی باتیں کرنے والے، ترکی میں طیب اردوغان کی طرح ٹینکروں کے سامنے لیٹنے کے دعوے کرنے والے اور حقیقی آزادی کے خواہاں ٹائیگرز کا دو دن جیل کی سختیوں پر رونا اور تحریک انصاف کے کارکن ہونے سے ہی منحرف ہو کر خود ساختہ "جہاد" کو بیچ منجدھار میں چھوڑنا پڑا۔ کوئی انہیں بتائے کہ سوشل میڈیا پر اپنے جسموں پر ثبت تشدد کے نشان دکھا کر پیچھے ہٹنے سے آزادی نہیں ملتی یا پھر حقیقی آزادی امریکی مدد مانگنے سے نہیں ملتی۔ انقلاب اور آزادی تو قربانی اور خون مانگتی ہیں۔ یہ جلسے کرنے، پرجوش نعرے لگانے، بینڈ باجے بجانے، رت جگے کرنے اور لڑکیاں نچانے کے بعد پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کی جاتی۔ اس کے لیے قائدین اور کارکنان کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ طویل جیلیں کاٹنی پڑتی ہیں۔ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہیں مگر ان سب سے پہلے یہ تعین کرنا انتہائی ضروری ہے کہ ان کے نزدیک "حقیقی آزادی" کا اصل مفہوم کیا ہے؟۔ کہیں اس کی آڑ میں ان کے اپنے ہی مذموم عزائم تو نہیں؟۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جتنی منفی سیاست 2013 سے شروع ہوئی اس کی مثال کسی بھی دور میں نہیں ملتی اور اس کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ عوام جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس گندی گالیوں بھری غلیظ ترین سیاست کا حصہ بنے۔ شاید خان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ صورت حال یوں بدل جائے گی۔ وہ اگر خود کو عقل کل جان کر جلسوں میں مخالف پارٹی قائدین کے نام رکھنے اور ان کی نقلیں اتارنے کو سیاست کہتے ہیں تو وہ یکسر غلط ہیں۔ سیاست کرنے کے لیے متحمل مزاج بننا پڑتا ہے۔ ہمہ وقت پرسکون رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مخالفین کی بھی عزت کرنی پڑتی ہے اور ان کی رائے کو نہ چاہتے ہوئے بھی مقدم جان کر احترام رائے کرنا پڑتا ہے۔جمہوریت کا اصل حسن بھی اسی میں پوشیدہ ہے۔

موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان تحریک انصاف آگے بقاء کرتی یا نہیں، یہ اہم نہیں ہے مگر جس بدتہذیبی کا سبق وہ نسل نو کو پڑھا چکی ہے اب اس نے نہیں رکنا کیونکہ جس نئے پاکستان اور تبدیلی کے وہ خواہاں تھے اس نہج تک پاکستانی قوم کو کامیابی سے پہنچا چکے ہیں۔ زرداری کی یہ بات کہ "جتنا ظلم خود برداشت کرسکتے ہو اتنا ہی کرو" اور مشاہد حسین کی بات کہ "میں ان کی آنکھوں میں ابھی سے آنسو دیکھ رہا ہوں" نے سچ ہونے میں زیادہ وقت نہیں لیا اس لیے موجودہ حکمران بھی ان سب سے سبق سیکھیں۔ نفرت اور بدلے کی آگ میں اپنے حدود کی پاسداری کا خیال ضرور رکھیں کیوں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا اونچ نیچ زندگی کا حصہ ہیں۔ اس لیے سیاسی اختلافات کو ڈیل کرتے وقت اتنا ہی ظلم وستم روا رکھیں جتنا سہنے کی طاقت ہو کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل کی جگہ ہے۔ جلد یا بدیر انسان کو اپنا بویا ضرور کاٹنا پڑتا ہے۔

 

Dr Rahat Jabeen
About the Author: Dr Rahat Jabeen Read More Articles by Dr Rahat Jabeen: 22 Articles with 14816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.