کلرسیداں بد انتظامی امور کا شکار

کلرسیداں شہر اس وقت بد انتظامی امور کا شکار ہے شہر میں روڈ کے دونوں اطراف گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں جس وجہ سے عام راہ گزروں کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے رشہ والوں نے شہر بھر کی روڈ اور حتی کی شہر کی گلیوں پر بھی قبضہ جما رکھا ہے شہر میں رکشوں کی بھر مار ہو چکی ہے مان لیتے ہیں کہ وہ بھی روزی روٹی کیلیئے محنت کر رہے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ جہاں چائیں جس جہگہ مرضی اپنے رکشے کھڑے کر دیں ٹی ایچ کیو ہسپتال سے لے کر مرید چوک تک وہ نہ تو کسی گاڑی کو راستہ دیتے ہیں اور نہ ہی خود روڈ چھوڑتے ہیں ان کی وجہ سے آئے روز ٹریفک جام رہنا معمول بن چکا ہے اور دیگر حادثات بھی رونما ہو رہے ہیں اندرون شیر کم عمر اور بغیر لائسنس کے رکشہ ڈرائیورز نے ٹریفک قوانین کو ردی کا کاغذ سمجھ رکھا ہے رکشہ والوں نے شہر کو کباڑ خانہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے ان کو کنٹرول کرنے کا بھی کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں ہے د ٹریفک پولیس کی یہ زمہ داری بنتی ہے کہ وہ کم از کم مہینہ میں ایک مرتبہ شہر میں کام کرنے والے تمام رکشہ ڈرائیورز کو ایک جہگہ اکٹھا کریں اور ان کو ان کی زمہ داری کا احساس دلائے اور ان کو زیادہ نہیں تو تھوڑے بہت ٹریفک کے نظم و ضبظ سکھانے میں اپنا کردار ادا کرے وسرا پورے شہر میں ریڑھی بانوں کا بھی مکمل قبضہ بن چکا ہے ان کی وجہ سے بھی ٹریفک کے بھاؤ میں کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں اور بلخصوص پیدل چلنے والوں کیلیئے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ریڑھی بانوں کیلیئے اگر کسی ایک سائیڈ پر کوئی مناسب جہگہ دے دی جائے تو اس مسئلہ پر قابو پایا جا سکتا ہے سرکاری انتظامیہ کی تنگ نظری کے باعث ایسے مقامی کسان جو گھریلو سطح پر اپنے بچوں کی روزی روٹی کیلیئے چھوٹے پیمانے پر سبزیاں وغیرہ کاشت کرتے ہیں ان کیلیئے اپنی سبزیوں کو بازار میں فروخت کرنے کیلیئے پورے شہر میں کوئی مناسب انتظام موجود نہیں ہے نہ ہی ان کو ایسی جہگہ ملتی ہے جہاں پر بیٹھ کر وہ ان سبزیوں کو گاہکوں کے سامنے پیش کر سکیں متعلقہ سرکاری اداروں کے اہلکاران ان کو دشمن کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ بدتمیزی و بد اخلاقی کے ساتھ پیش آتے ہیں اور اسطرح کا سلوک غریب کے منہ سے روزی کا نوالہ چھیننے کے مترادف ہے انتطامیہ کے پاس کس چیز کی کمی ہوتی ہے وہ اگر کسی وجہ سے ان کو قانونی طور پر کوئی جہگہ نہیں دے سکتے ہیں تو کم از کم انسانیت کے ناطے ان کو شہر میں کوئی بھی مناسب جہگہ دے دی جائے تا کہ وہ اپنے بچوں کیلیئے روٹی کما سکیں سرکاری انتظامیہ بلکل سوئی ہوئی ہے ہوٹلز مالکان ودیگر ریفریشمنٹ سنٹرز والوں نے تمام چیزوں کے ریٹس اپنی من مرضی سے مقرر کر لیئے ہیں ٹیلرز نے سلائی کے ریٹس ایک ہزار روپے تک مقرر کر لیئے ہیں لیکن انتطامیہ نوٹس لینے کا نام بھی نہیں لیتی ہے ہر چیز کا کوئی نظم و ضبط ہوتا ہے یہ لوگ اپنی مرضی کے ریٹس کیسے لگا سکتے ہیں یہ لوگ دونوں ہاتھوں سے غریب عوام کو لوٹ رہے ہیں ان کو کسی قاعدے قانون کے دائرے میں لانا سرکاری انتظامیہ کے فرائض میں شامل ہے فی الحال تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ متعلقہ سرکاری انتطامیہ کا کلرسیداں میں کوئی وجود ہی نہیں ہے وہ ایسے لوگوں کے سامنے بلکل بے بس نظر آ رہے ہیں ٹرانسپورٹز نے مسافر گاڑیوں کے کرائے اپنی مرضی سے اتنے زیادہ بڑھا دیئے ہیں کہ پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے وہ پہلے سے کئی گنا زیادہ فائدے میں چلے گے ہیں مہنگائی کا ان پر زرہ برابر بھی اثر نہیں پڑا ہے عوام کس کے سامنے اپنا رونا روئیں غریب کی کہیں بھی کوئی فریاد سننے والا موجود نہیں ہے عوام چاروں طرف سے مافیا زکے گھیرے میں پھنس چکے ہیں وفاقی اور پنجاب حکومتیں انا ء کی جنگ لڑ رہی ہیں سرکاری ادارے موقع سے فائدہ اٹھا رہے ہیں سرکاری افسران اپنی زمہ داریاں نبھانے کے بجائے زاتی کاموں میں مصروف ہیں عوام کی مشکلات کم کرنے کی طرف کسی کا کوئی دھیان نہیں ہے ہر آنے والا دن غریب عوام کیلیئے کوئی نیا عذاب لا رہا ہے اﷲ پاک ہی ہم پرکرم فرمائیں
 

Muhammad Ashfaq
About the Author: Muhammad Ashfaq Read More Articles by Muhammad Ashfaq: 244 Articles with 142696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.