بابری مسجد، ریویو پیٹیشن اور مذہبی تنظیموں کا مؤقف

حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کے فتویٰ کی روشنی میں مسجد جیسے شہید ہونے سے پہلے مسجد تھی قیامت تک مسجد رہے گی

١٦ نومبر ٢٠١٩ء کو تحریک فروغِ اسلام کے سربراہ مولانا قمر غنی عثمانی صاحب کی یہ پریس ریلیز جاری ہوئی کہ:
"بابری مسجد معاملے میں ہم تحریک فروغ اسلام کی جانب سے سپریم کورٹ میں ریویو پیٹیشن داخل کرنے جا رہے ہیں"...
انھوں نے یہ بھی کہا کہ: "ملک کا مسلمان سپریم کورٹ کے فیصلے سے مطمئن نہیں ہے- بابری مسجد کیس کے موجودہ کسی بھی فریق پر ہمیں بالکل بھروسا نہیں ہے، ہم اس کیس میں بھروسا مند، نڈر اور قابل وکیل کے ذریعے سپریم کورٹ میں ریویو پیٹیشن داخل کرنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے آج سپریم کورٹ کے سینئر وکیل مسٹر محمود پراچہ صاحب سے گفتگو کی تو وہ پٹیشن فائل کرنے کے لیے تیار ہو گئے- واضح رہے کہ مسٹر محمود پراچہ کملیش تیواری قتل میں پھنسائے گئے بے قصور مسلم نوجوانوں کے معاملے میں تحریک فروغ اسلام کے پہلے سے وکیل ہیں-"
موجودہ حالات میں قانونی نقطۂ نظر سے ایسے ہی اقدام کی ضرورت ہے- جو جمہوری و دستوری طور پر بھی بھارتی مسلمانوں کا حق ہے-

پس منظر:
پہلے سے جو تنظیمیں میدان میں ہیں؛ ان میں بعض مفاہمت، مصلحت، سمجھوتے کا شکار ہیں- بعض دباؤ اور پریشر میں محسوس ہوتی ہیں- بعض تنظیمیں خوشامدی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں- بعض مشرکین سے والہانہ رشتوں کی استواری میں پیش پیش ہیں اور شرعی فیصلوں کو نظر انداز کر بیٹھی ہیں- حالات کے پیشِ نظر عام مسلمان ان تنظیموں سے عدمِ اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں- بعض مجاوروں کو بھی مشرک قیادت نے لگتا ہے کہ خرید لیا ہے- جس کی وجہ سے ان کے بیان بھی بڑے مصالحت آمیز یا اقتدار کی منشا کے مطابق آ رہے ہیں-
ایسے ماحول میں تحریک فروغ اسلام کا میدان میں آنا امید افزا ہے- گرچہ تحریک نئی ہے لیکن کردار بے داغ ہے- اس لیے توقع ہے کہ اگر قوم سے وسائل و افرادی قوت کا ساتھ رہا تو قانونی رخ سے بہتر نمائندگی کر سکے گی-
کملیش معاملے میں پھنسائے گئے نوجوانوں کی قانونی سطح پر پیروی بھی اہم مسئلہ ہے؛ جس کے لیے تحریک کا باقاعدہ وکیل مقرر کرنا مناسب ہے- چونکہ جن نوجوانوں کو کملیش معاملے میں اٹھایا گیا ان کی دستوری معاونت ضروری تھی؛ اس سمت عثمانی صاحب کی توجہ مستحسن ہے-

بابری مسجد پر شرعی موقف کے پیشِ نظر قانونی جدوجہد ضروری:
مسجد چونکہ ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے اس لیے سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی اوقاف کے بنیادی اُصولوں کے مغائر محسوس ہوتا ہے- جس پر ریویو پیٹیشن داخل کرنا جمہوری تقاضا ہے- پھر یہ کہ مسلمانوں کے بہت بڑے پیشوا حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کا ایک فتویٰ بھی مساجد کی شرعی حیثیت پر موجود ہے جس کے یہ الفاظ بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں؛ جس کا تناظر مسجد شہید گنج لاہور ہے؛
’’وہ مسجد جیسے شہید ہونے سے پہلے مسجد تھی یوں ہی اب بھی مسجد ہے اور قیامت تک مسجد رہے گی، عیاذاً باللہ کافروں کے قبضہ میں مسجد آجانے سے کسی کے نزدیک اس کی مسجدیت نہیں جاتی، کعبہ برسہا برس قبضۂ کفار میں رہا جس کے گرد اگرد مشرکوں نے ٣٦٠ بت رکھے، ہر دن ایک نئے بت کی پوجا کرتے اس قبضہ سے کعبہ غیر کعبہ نہیں ہو گیا، وہاں بتوں کے نصب کرنے اور پوجا ہونے سے قبلہ بت خانہ نہیں بن گیا۔‘‘(فتاویٰ مصطفویہ، مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی،ص۲۴۴۔۲۴۵)

راقم نے ٥ دسمبر ٢٠١٨ء کے ایک مضمون میں لکھا تھا:
رہی یہ بات کہ مسلمان بابری مسجد کے مقام کو ’’رام جنم بھومی‘‘ مان لیں تو یہ ایسا ہی ہے کہ مسجد کی مسجدیت سے مسلمان انکار کر دیں، ظاہر سی بات ہے کہ ایسا تسلیم کرنا گویا مسجد کا انکار کرنا ہے اور یہ مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کے مترادف، یہ عمل اسلام کے نزدیک مسجد کی توہین ہے ، مسجد کی توہین دین کی توہین ہے، مفتی اعظم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
’’مساجد بیوت اللہ (اللہ کا گھر) ہیں اللہ کے دین کا عظیم شعار ہیں اور کسی شعار دین کی ادنیٰ سے ادنیٰ ہتک ہرگز مسلمان برداشت نہیں کر سکتے، بے شک بے شک شعارِ دین پر حملہ دین پر حملہ ہے… مسجد کی حفاظت و صیانت فرض مبین ہے۔‘‘ (نفس مصدرص۲۴۷)

تحفظِ مسجد کے تئیں سربراہ رضا اکیڈمی الحاج محمد سعید نوری صاحب کا یہ بیان بھی بہت اہمیت رکھتا ہے؛ جو ١٨ نومبر ٢٠١٩ء کو صحافت ممبئی میں چھپا:

"بابری مسجد پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھلے آ گیا ہے مگر جدوجہد جاری رکھنا مسلمانوں کا ایمانی فریضہ ہے؛ آپ نے کہا کہ کورٹ کا فیصلہ ثبوتوں کی شکست بتا کر عقیدت کی جیت دکھا رہا ہے جب کہ شرعی طور پر اس جگہ کی حیثیت ہمیشہ مسجد کے طور پر برقرار رہے گی اسے کوئی بھی تبدیل نہیں کر سکتا جنرل سیکرٹری رضا اکیڈمی حضرت نوری صاحب نے کہا کہ مذکورہ مسجد کے فیصلے پر مسلمانوں کا خاموش ہو جانا آنے والی نسلوں کے لیے مذہبی طور پر بزدل بنانے کے مترادف ہے اس لیے مسلم فریقین کو نظر ثانی کی اپیل کے ساتھ آخری دَم تک قانونی لڑائی لڑنی چاہیے-"
دینی تنظیموں کے سربراہان کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
"مسلمان قانونی چارہ جوئی ضرور کریں اور مسجد کی شرعی حیثیت کے پیشِ نظر جمہوری و دستوری جدوجہد جاری رکھیں...."
بلاشبہ یہ وقت و حالات کے مطابق سنجیدہ و قائدانہ بیان ہے...اس رخ سے منصفانہ اپیلوں کا اہتمام ہی جمہوریت کی بحالی کے لیے اہم ہے...انھیں تقاضوں کی بجا آوری میں امن بھی ہے اور انصاف کی بالادستی بھی...
اللہ تعالیٰ! تحریک فروغ اسلام کی قانونی جدوجہد میں برکتوں کا ظہور فرمائے... سربراہ رضا اکیڈمی ممبئی کے عزائم کو کامیابی عطا فرمائے... قانونی جدوجہد کے لیے انھیں وسائل سے نوازے اور ان کے بازوؤں میں قوت دے... تا کہ اہلسنّت کے یہ نمائندگان عزم و یقیں کے پختہ حصار میں دیانت و انصاف کے حصول میں بامراد رہیں... حضور مفتی اعظم علیہ الرحمۃ کے شرعی موقف کی روشنی میں ہم اپنے حقوق کے حصول میں امن و قانون کے دائرے میں متحرک رہیں یہی اقتضائے وقت ہے....
***
نقطۂ نظر:
غلام مصطفٰی رضوی
(نوری مشن مالیگاؤں)
٢٧ نومبر ٢٠١٩ء
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 252644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.