میجر عبدالوھاب شہید ( ستارہ جرات)

وادی کارگل کی برف میں ڈھکی ہوئی بلندو بالا چوٹیوں پر دست بدست جنگ جاری تھی ۔بھارت اپنی تمام تر فوجی طاقت کو میدان جنگ میں لے آیا تھا بوفر توپیں صبح سے رات گئے تک گولہ باری کررہی تھیں ۔وقفے وقفے سے فضائی حملے جاری تھے ۔ میجر عبدالوھاب این ایل آئی کے رضاکاروں کی قیادت کرتے ہوئے سترہ ہزار فٹ بلند طارق پوسٹ کی جانب روانہ ہوئے ۔جنگی نقطہ نظر سے یہ پوسٹ بہت اہم تھی کیونکہ اس پوسٹ کے ذریعے سری نگر لہیہ روڈ پر بھارتی فوج کی نقل وحرکت کو روکا جاسکتا تھا ۔اٹھارہ گھنٹے کی طویل اور تھکا دینے والی مسافت طے کرکے 26جون کو میجر وہاب اپنے ساتھیوں سمیت طارق پوسٹ پر جاپہنچے ۔اس پوسٹ پر تعینات فوجی جوان بھارتی فوج کی مسلسل فائرنگ کی زد میں آکر زخمی ہوچکے تھے انہیں مرہم پٹی کے بعد واپس بھجوایا اور خود کمان سنبھال لی ۔پہلی رات ہی بھارتی فوج کے ٹڈی دل لشکر نے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے پوسٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن میجر وہاب اور ان کے ساتھیوں کے موثر جواب کی بدولت دشمن اپنی نعشیں چھوڑ کر پسپا ہوگیا ۔ اس معرکے میں این ایل آئی کے چند رضاکار بھی جام شہادت نوش کرگئے ۔اگلی رات پھر بھارتی فوج نے چاروں اطراف سے ہلہ بول دیا انہیں بھارتی فضائیہ اور آرٹلری کی مدد بھی حاصل تھی۔ اﷲ کے شیر ایک بار پھر حملہ پسپا کرکے اپنے مورچوں پر ڈٹے رہے ۔میجر وہاب اور باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس اسلحہ اور خوراک محدود رہ چکی تھی بھارتی فضائیہ کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے کمک کا سلسلہ ٹوٹ چکا تھاحالات کا تقاضا تو یہی تھا کہ پسپائی کا سفر اختیار کیا جائے لیکن میجر وھاب کی غیرت نے پسپائی کی ذلت گوارا نہ کی اور پوسٹ پر ہی ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا ۔بھارتی فوج اگلے دن برف میں ڈھکی اس پہاڑی چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی اس وقت میجر وہاب کے ساتھ صرف تین ساتھی تھے ۔دشمن کی گولہ باری اور مسلسل فائرنگ جاری تھی ایک گولی میجر وہاب کی گردن میں لگی خون سے کپڑے سرخ ہوگئے ۔ پوسٹ کو خالی کرکے واپس آنے کا حکم ملامیجر وہاب نے واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے کمک بھجوانے کی درخواست کی ۔اس قدر شدید شیلنگ میں ایمونیشن اور کمک بھجوانا ممکن نہیں تھا۔اچانک ایک بھارتی افسر پتھر کی اوٹ سے نکل کر چلایا" مقابلہ بے سود ہے ہتھیار ڈال دو ‘ تمہارے بچ نکلنے کا امکان ختم ہوچکا ۔"میجر وہاب نے اپنی قوت گویائی جمع کرکے کہا خبردار ایک قدم بھی آگے نہ بڑھانا ۔ہتھیار ڈالنا اور سرنڈر کرنا تمہارا خواب ہے میں آخری دم تک لڑوں گا ۔اس کے ساتھ ہی میجر وہاب کی گن نے شعلے اگلے اور بھارتی فوجی افسر خون میں لت پت ہوکر تڑپنے لگا۔میجر وہاب اور ان کے تین ساتھی پوزیشنیں بدل بدل کرفائر کررہے تھے ‘ رات کے تین بجے چندگولیاں میجر وہاب کے سینے میں اتر گئیں زخموں سے خون کا فوارہ ابلنے لگا۔ساتھیوں نے میجر وہاب کو پہاڑی چوٹی سے نیچے لے جانے کی کوشش کی لیکن میجر وہاب نے جانے سے انکار کردیا اسی دوران چلاس کا ایک مجاہد شان بھی جام شہادت نوش کرگیا‘ میجر وہاب نے اپنی گھڑی اور پنج سورہ ساتھیوں کے حوالے کرکے واپس جانے کا حکم دیا۔دونوں مجاہد وں نے اپنے کمانڈر کوایک پتھر پر لیٹا کر ان کے ہاتھ میں ایک مشین گن لوڈ کرکے دے دی۔میجر وہاب کا لباس خون سے لتھڑا ہواتھا ان پر جان کنی کی کیفیت طاری تھی لیکن ان کی نظریں دشمن کے راستے پر جمی ہوئی تھیں وہ خود کو زندہ حالت میں دشمن کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے ۔انتظار میں کئی گھنٹے گزر گئے اچانک ایک چٹان کی اوٹ سے بھارتی فوجی افسر نمودار ہوا میجر وہاب کے بے جان ہاتھوں نے حرکت کی گن نے شعلے اگلے اور بھارتی فوجی افسر جہنم رسید ہوا تو اطراف میں کھڑے بھارتی فوجیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس سے میجر عبدالوھاب جام شہادت نوش کرگئے ۔ دشمن بھی ان کی بہادری کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا ۔ غیر ملکی ایجنسیوں نے بھی میجر وہاب کے آخری معرکے کی کہانی اپنے نشریاتی رابطوں پر نشر کی۔میجر وھاب کا جسد خاکی آج بھی دراس کی ایک فلک بوس چوٹی پروطن عزیز کی حفاظت کافریضہ انجام دے رہا ہے ۔ کارگل سے آنے والی ہوائیں آج بھی پاک فوج کے اس شیر دل افسر کی جرات کو سلام پیش کرتی ہیں ۔میجر وہاب‘ شمالی علاقوں کے ضلع دیامیر کے ایک چھوٹے سے گاؤں پرشنگ میں پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم گاؤں کے سکول اور ملٹری کالج جہلم سے میٹرک کرکے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔1984ء میں پی ایم اے سے عسکری تربیت مکمل کرکے 62بلوچ رجمنٹ کو جوائن کیا۔ان دنوں سندھ میں ڈاکووں نے کہرام مچارکھاتھا ڈاکوں کی سرکوبی کا فریضہ آپ کے سپرد کیاگیا۔ڈاکووں کے خلاف بے شمار کامیاب آپریشن کیے۔ بدنام زمانہ ڈاکو گلاب چانڈیو کو ہلاک کرنے کا فریضہ میجروہاب نے ہی انجام دیا تھا جو سندھ میں خوف کی علامت بن چکا تھا۔اس کارنامے پرانہیں تمغہ بسالت سے نوازاگیا۔بعدازاں انہیں سیاچن کے مشکل ترین محاذ پر بھیج دیاگیایہاں بھی ان کی بہادری کے بے شمار قصے اور کہانیاں زبان زد عام ہیں۔تین ماہ سیاچن میں گزارنے کے بعد انہیں وادی لیپا تعینات کردیاگیا۔ایک دن میجر وھاب کے بیٹے صلاح الدین نے کہا ابو آپ ہر وقت شہادت کی باتیں نہ کیا کریں میں قرآن حفظ کرلوں پھر فوج میں شامل ہوکر دشمن پر ایسے کاری وار کروں گا کہ اس کونانی یاد آجائے گی ‘ اگر میں شہید ہوگیا تو جنت کے دروازے پرمیں آپ کا استقبال کروں گا اور آپ کو تاج پہناؤں گا۔میجر وہاب نے کہا بیٹا یہ فرض میرا ہے جنت کے دروازے پر میں تم کو خوش آمدید کہوں گا۔میری خواہش ہے جہاں میری شہادت ہو میں دفن بھی اسی جگہ پر ہوں۔اﷲ نے میجر وہاب کی دلی آرزو پوری کردی آج بھی کارگل کے برف میں ڈ ھکی چوٹیوں میں میجر وہاب ابدی نیند سورہے ہیں۔حکومت پاکستان کی جانب سے بے مثال بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے بعداز شہادت ‘ستارہ جرات بھی عطا کیاگیا۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 659764 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.