مادر وطن اور تبدیلی کا سفر

عزیز ہم وطنوں جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، ہمارا پیا را و طن آج کل بہت سی عفریتوں کے درمیاں ہچکولے کھا رہا ہے۔ ان میں دہشگردی، انتہا پسندی، غر بت، بے روز گا ری، بد عنوانی، صحت کی سہولتو ں کا فقدان، انصاف کی عام آدمی تک رسا ئ اور خواتین کے تحفظ جیسے مسا ءل شامل ہیں مگر اس کے سا تھ ساتھ ایک اور بڑی عفریت تبدیلی کے نا م پر ہمارا منہ چڑا رہی ہے، ہما را مظلوم نوجوان طبقہ جو کبھی مذہب کے نام پر استعما ل ہوا کبھی انقلاب اور کبھی جہاد ایک مرتبہ پھر استعماری قوتوں کے شکنجے میں بری طرح جکڑا جا چکا ہے اور اندھوں کی بستی میں کاناراجا کا متلاشی ہے۔

اس مشکل صورت حال میں خاموشی زہر قاتل ثابت ہوگی' ہم میں سے کسی کو قدم بڑھا نا ہوگا اس تبدیلی اصل صورت حال واضح کرنا ہوگی ' ہم الو کی طرح آنکھیں بند کر کے اس سنجیدہ موضوع سے درخور اعتناء نہں برت سکتے۔

آج کا یہ موضوع میرے کسی معزز دوست کی دل آزاری کے لیے ہرگز نہں ہے اس کا مقصد صرف اس پستی کی جانب توجہ مبزول کر وانا ہے جس کی جانب ہم پوری طرح سے گامزن ہیں۔

آئیں اس تبدیلی کے سفر کی سیر کرتے ہیں' تمام کمزور دل حضرات سے گزارش ہے اس مضمون کو دل پر مت لیں طبیعت خرابی کی صورت میں ہسپتال جیسی صوزت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہسپتال سے تو آپ سب لوگ بخوبی واقف ہی ہیں ' شاید دل کی دوا کی جگہ پیٹ درد کا چورن مل جاءے اسی وجہ سے ہمارے معزز وزراء' شر فاء' خادم اعلی وغیرہ وغیرہ ایسا خطرہ مول لینے سے گر یز کرتے ہوءے یورپ کے اسپتالوں کے دھکے کھا نے پر مجبور ہیں اپنے پیٹ درد کے علاج کی خاطر۔ میری تمام نیک خواہشات اپنی قوم کے عظیم خادماءوں کے ساتھ ہیں، اللہٰ تبا رک و تعا لی انکی تمام مشکلا ت آ سا ن کریں اور عوام کو بھی سکون کا سانس نصیب ہو۔
اب ایک نظر تبدیلی کی جانب جس کی جانب ہم حسرت و یاس کے مجسمے بنے آ نکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب سجائے، نا دیدہ قوتوں سے اس کے ظہور پزیر ہونے کی التجائیں کر رہے ہیں۔

عزیز ہم وطنو وہی تبدیلی جو بد تہزیبی کے گھوڑے پر سوار' طوفان بد تمیزی بکھیرتے ہوئے ، اخلاق کی تمام حدود پھلانگتے ہمارے نوجوانوں کے نا پختہ ازہان کو پراگندہ کرت ہوءے مادر وطن کے پاءوں چھونے کو بے قرار ہے۔

جی وہی تبدیلی جہاں آداب سر تسلیم خم کر کے نہیں بلکہ قوت بازو کا استعمال کر کے مد مقابل کو اپنے پا پوش مبارک کی زیارت کروانے کا نام ہے۔

جی وہی تبدیلی جس میں وطن عزیز کی مائیں بہنیں بڑے بڑے کتبے اٹھا کر بیچ چوراہے اپنے جسم پر لیکچر دیتی نظر آئیں۔ جی وہی مسلمان بہنیں جنکے پردوں کی خاطر لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جان قر بان کر دی' میری ان بہنوں سے التماس ہے ایک مر تبہ یورپ کی اس ترقی پر ریسرچ تو کریں میں گارنٹی دیتا ہوں آپ با وضو ہو کر اللہ تبا رک و تعالی سے معافی کی طلب گار ہونگی اپنے حقوق کی خاطر ضرور لڑیں اپنی عظمت کی قیمت پر ہر گز نہیں آپ معاشرہ کی معمار ہیں خدارا اسکی جڑوں کو مضبوط کریں۔

ہم جس تبدیلی کی طرف بڑھ رہے ہیں جا کر ان معا شروں کو دیکھیں جہاں سواءے ذلت و رسوائ کچھ نہیں۔ کیا آپ وہ معاشرہ چاہتے ہیں جہاں آپ کے بچے آپ کو حوالات میں بند کر وا دیں کیونکہ آپ نے ان کو غلط کام سے روکا۔

انتہائی معزرت کے ساتھ تبدیلی کا یہ سفر ابھی جاری ہے، یہ وہی تبدیلی ہے جس کے بارے میں ہمارے غیور سیاستدان بڑی ڈھٹائ' بے شرمی سے ببانگ دہل اقرار کرتے ہیں کہ خواتین اور موسیقی کو جلسہ گاہ کی ذینت بنا کر ہم جلسوں کی سیا ست میں انقلاب لےآءے ہیں۔ انتہائ معزرت کے ساتھ ایسا ہی کچھ ملتا جلتا انقلاب مغل حکمران محمد شاہ رنگیلا نے بھی لانے کی کوشش کی تھی پھر آپ میں اور اس میں کیا فرق ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اس قوم کی ماوءں بہنوں کو اپنے سیاسی جنون کی سولی پر مت چڑھائیں۔

من حیث القوم ہم ایسی تبدیلی کے متحمل نہیں ہو سکتے جہاں ہمارے علماء میدانوں میں کھڑے ہو کرمغلضات بکیں کفر کے فتویٰ بانٹیں' معصوم عوام کو مزہب کے نام پر گمراہ کریں کیونکہ ان کی لینڈ کروزر چلتی رہے۔
یہ وہ اسلام نہیں ہے جسکی تبلیغ ہمارے آقا رسول اکرم نے کی ' جسکی بنیاد رواداری ، امن و آتشی پر تھی یہ خود ساختہ اسلام ہمارے چند مفاد پرست ہم وطنوں کا تخلیق کردہ ہے۔

میرا یہ تبدیلی کا سفر شا ید کبھی ختم نہ ہو لیکن بحیثیت قوم ہم جانے انجانے میں بہت آگے نکل چکے ہیں شاید اسی لءیے واپسی مشکل لگ رہی ہے۔ علامہ اقبال نے آج سے آٹھ دہائیاں قبل کیا خوب کہا تھا
"خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا"

عزیز ہم وطنوں انسان کا سب سے بڑا محتسب وہ خود ہے۔ اگر ہم سب اپنا فرض تندہی سے انجام دیتے رہیں تبدیلی آکر رہے گی ، اس کے لئے ہمیں کس نو سیکھئے کی ضرورت نہیں پیش آءے گی۔ تبدیلی کبھی عدم برداشت' تشدد' گالم گلوچ سے نہیں آتی نہ ہی ووٹ سے اگر ووٹ ہار جیت کا فیصلہ کرتے تو نمرود کے مقابلے میں ابراہیم کبھی فاتح نہ ہوتے، نعوز باللہ کربلا میں یزید کبھی شکست نہ کھاتا۔ ووٹ انسان کو حکمران ضرور بناتا ہے تبدیلی صرف سوچ سے ممکن ہے۔
اللہ آپ کا حامی و ناصر پاکستان پا ئندہ باد۔

Qasim Raza Naqvi
About the Author: Qasim Raza Naqvi Read More Articles by Qasim Raza Naqvi: 42 Articles with 49375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.