عمران خان کس سے مذاکرات چاہتے ہیں اور ان کی شرائط کیا ہیں؟

گذشتہ چند ہفتوں سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ تو اس بات چیت کا مرکز کیا ہے اور پی ٹی آئی کو اپنے لیے کیا ’ریلیف‘ درکار ہے؟
imran khan
Getty Images

گذشتہ چند ہفتوں سے پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ عندیہ دیا جا رہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے علاوہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔

پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں جبکہ اسی جماعت کے بعض رہنما اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کی رہائی کے بغیر کسی بھی قسم کے مذاکرات کی مخالفت کرتے ہیں۔

سوموار کو سابق وزیر اعظم عمران خان نے اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے علی امین گنڈاپور، عمر ایوب اور شبلی فراز کے علاوہ کسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنے کا اختیار نہیں دیا۔‘

جبکہ پیر کو اسلام آباد میں سیشن کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہرخان نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا ابھی تک مذاکرات کا کوئی ارادہ نہیں ہے، نہ ہی کسی بھی ادارے کے ساتھ کوئی بیک ڈور مذاکرات ہو رہے۔ ’پارٹی کے کسی نمائندے کے پاس ڈائیلاگ کا اختیار نہیں۔‘

پارٹی قائد کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا کہ مذاکرات سیاسی جماعتوں سے ہونے چاہییں۔ ’مذاکرات کا مطلب پاور شیئرنگ نہیں ہے۔ بانی پی ٹی آئی پاور شیئرنگ کی بجائے عوامی سیاست پر یقین رکھتے ہیں۔‘

جبکہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی نے پاکستان کے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں کہا تھا کہ وہ صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مذاکرات چاہتے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت نے ’ہمارا مینڈیٹ چوری کیا ہے اور یہ عوام کے مسترد شدہ لوگ ہیں۔ ان سے کیا مذاکرات ہوں گے؟‘

اس سے یہ تاثر ابھراہے کہ تحریک انصاف کے اندر ہی مذاکرات کو لے کر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔

اس تمام منظرنامے میں پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر کا بیان بھی سامنے آیا کہ عمران خان اپنی رہائی سے پہلے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔

حماد اظہر نے مذاکرات کے لیے بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی سمیت تمام قائدین کو رہا کرنے اور الیکشن مینڈیٹ واپس کرنے جیسی شرائط رکھی تھی۔

’یہ مذاکرات نہیں صرف نجات چاہتے ہیں‘

اگر پی ٹی آئی اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان مذاکرات پر حکومتی بیانات اور ردعمل کو دیکھا جائے تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا ہے کہ انھیں پی ٹی آئی کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کا علم نہیں ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے پارلیمنٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما مذاکرات کے معاملے پر تقسیم اور ابہام کا شکار ہیں۔ ’کبھی کوئی بیان آیا ہے تو کبھی کچھ کہا جاتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ایوان میں کی گئی مذاکرات کی پیشکش کو نہیں سمجھ سکے۔ ’یہ مذاکرات نہیں صرف مقدمات سے نجات چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت سے اس لیے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ’پی ٹی آئی والے نجات دہندہ کی تلاش میں ہیں، ہم مذاکرت کرسکتے ہیں، نجات نہیں دلا سکتے۔‘

اس تمام سیاسی بیان بازی کے درمیان چند سوالات ابھرے ہیں کہ عمران خان خود کیا چاہتے ہیں؟ کیا پی ٹی آئی مذاکرات کے معاملے پر اندرونی تقسیم کا شکار ہے؟ پی ٹی آئی سیاسی جماعتوں کی بجائے فوج سے کیوں بات کرنا چاہتی ہے؟ اور ماضی کی طرح ایک بات پھر سیاسی نظام کی نفی کرتی پی ٹی آئی نے تقریباً ایک سال میں اپنی اس روش سے کیا سیکھا ہے؟

سینیئر صحافی و تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس پر تبصرہ کیا کہ پی ٹی آئی میں لوگ مختلف رائے رکھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی مختلف خیال کے لوگوں میں بٹی ہوئی ہے اور جب تک عمران خان رہا نہیں ہوں گے یا انھیں پارٹی معاملات میں حصہ لینے یا ملنے جلنے کی آزادی نہیں ہو گی ’میرا نہیں خیال کہ معاملات بہتر ہوں گے۔‘

صحافی و تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’میرا نہیں خیال کہ پی ٹی آئی میں اس معاملے پر کوئی اختلاف ہے، بلکہ ان کی تو یکسوئی ہے کہ مذاکرات ہونے چاہیے اور صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے چاہیے۔‘

عمران خان کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟

یہ بات تو واضح ہے کہ تحریک انصاف کے بعض رہنما سیاسی حلقوں سے مذاکرات کے بجائے ’طاقتور حلقوں‘ سے مذاکرات کے حامی ہیں۔

منگل کے دن اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر علی محمد خان نے واضح کیا ہے کہ ’عمران خان نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ لیکن مذاکرات کے کچھ اصول اور شرائط ہونی چاہییں۔‘

صحافیوں سے گفتگو کے دوران انھوں نے پوچھا ’کیا مذاکرات اس لیے ہونے چاہییں کہ مینڈیٹ تسلیم کر لیا جائے؟ ایسے مذاکرات ہمیں قبول نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف مذاکرات کی غرض سے ’جعلی مینڈیٹ‘ تسلیم نہیں کرے گی۔

علی محمد خان نے کہا کہ اگر حکومت نے مذاکرات کرنے ہیں تو اور اگر ان کے پاس اختیار ہے تو آگے بڑھیں۔ ’اگر فیصلہ کر سکتے ہیں تو آگے بڑھیں۔ آپ اپنی تجاویز دیں، ہم اڈیالہ میں اپنے لیڈر کے سامنے رکھ دیں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب تک عمران خان کو رہا کرنے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں ہوتیں، تب تک یہ مذاکرات معاملات کو طول دینے کے مترادف ہے۔‘

’مینڈیٹ تسلیم کر لینا ہی تو سارا جھگڑا ہے۔۔۔ اصل مدعہ ہے جس پر مذاکرات ہونے ہیں کہ ہمارے مینڈیٹ کی واپسی کا کیا انتظام ہوگا۔‘

اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت سے متعلق ایک سوال پر عمران خان کی جانب سے تحریک انصاف کی نامزد کردہ مذاکراتی کمیٹی کے رکن علی امین گنڈاپور نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نے بتایا ہے کہ بات چیت ہوسکتی ہے۔‘

’عمران خان نے پہلے بھی کہا ہے کہ میں پاکستان کے لیے، بات چیت کرنے کو تیار ہوں۔‘

یہ وضاحت کیے بغیر کہ بات چیت کس سے ہوگی، انھوں نے زور دیا کہ ’جب بات چیت ہوگی تو سب کے سامنے ہو گی۔ ہم نے کسی سے چھپ کر تو بات نہیں کرنی، نہ ذاتی مفاد لینے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے لیے اگر کوئی ہم سے بات چیت کرنے کے لیے بیٹھتا ہے تو ہم پہلے بھی تیار تھے اور اب بھی تیار ہیں۔

دریں اثنا مجیب الرحمان شامی کی رائے میں ’عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ ان کے مذاکرات اسٹیبلشمنٹ، آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ہوں، اور وہ سیاسی رہنماؤں خصوصاً موجودہ حکومت سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتے ہیں، نہ ہی ایسا کوئی عندیہ ان کی جانب سے دیا گیا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جب تک عمران خان سیاسی حقیقتوں کو تسلیم نہیں کریں گے، سیاسی قوتوں کو تسلیم نہیں کریں گے تب تک مذاکرات کا معاملہ آگے نہیں چل سکے گا۔‘

عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’عمران خان یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ سیاسی قوتوں کے ساتھ بات نہیں کریں گے اور دوسری جانب وہ آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے کر ان پر الزامات لگاتے ہیں اور اس طرح سے وہ ایک ہی وقت میں فوج میں اہم عہدوں پر تنقید کر کے انھیں الگ کرتے ہیں اور اس طرح وہ مقتدر حلقوں پر اپنا دباؤ بڑھاتے ہیں کہ ان کے ساتھ بات چیت کی جائے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان اور پی ٹی آئی صرف اور صرف اسٹیبشلمنٹ کے ساتھ بات کرنا چاہتی ہیں جس کے لیے وہ دباؤ بڑھا رہے ہیں۔‘

مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسٹیبشلمنٹ کی وجہ سے ہو رہا ہے اور وہ اس کی وجہ سے ہی اقتدار سے محروم ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کی جماعت حالیہ الیکشن بھی اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہی ہاری ہے، بے شک وہ اس کا الزام حکراں اتحاد کی جماعتوں پر عائد کرتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم اقتدار سے بے دخلی تک فوج کے ساتھ مفاہمت کے خواہاں رہے تاہم 2022 میں انھوں نے اپنے خلاف ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد پر اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پاکستانی فوج نے ماضی میں بارہا سیاست میں مداخلت کے الزام کی تردید کی ہے۔

اس پس منظر کے باوجود تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک ہونے پر ہی تحریک انصاف کو سازگار ماحول مل سکے گا۔

مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ عمران خان ’مقتدر حلقوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ ان کا ان سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔‘

’وہ موجودہ حکومت کو کٹھ پتلی حکومت سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں انھیں جو کچھ ملنا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ سے ہی ملنا ہے۔ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہی فریق سمجھتے ہیں۔‘

دوسری طرف عاصمہ شیرازی کی رائے ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہی ہے۔‘

آٹھ فروری کے عام انتخابات اور اس سے قبل تحریک انصاف زیرِ عتاب رہی ہے۔ اس کے امیدواروں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا جب الیکشن کمیشن نے جماعت کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا۔

مگر مجیب الرحمان شامی کے مطابق اس عرصے میں ’پی ٹی آئی نے بہت کچھ سیکھا ہے جیسے اب وہ اسمبلییوں میں موجود ہے۔۔۔ اب انھیں اپنا کردار سیاسی نظام یعنی پارلیمان میں رہ کر ادا کرنا ہے۔‘

یہاں ایک پہلو گذشتہ سال نو مئی کو عسکری تنصیبات پر حملوں کا بھی ہے جس پر تحریک انصاف کے درجنوں کارکنان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات زیرِ التوا ہیں۔

شامی کے بقول ’جو تصادم نو مئی کو ہوا، اس سےناصرف سیاست بلکہ عدلیہ اور ہماری شہری آزادیوں پر بھی بہت سخت دباؤ آیا ہے۔ ہماری آزادی محدود ہوئی ہے، سیاسی جماعتیں کمزور ہوئی ہیں۔‘

مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انتخابات کے بعد تحریک انصاف ایک مقبول جماعت ثابت ہوئی ہے۔ اس کے باوجود، عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ تحریک انصاف ’اپنی مقبولیت اور عوامی طاقت کا استعمال ایک سیاسی جماعت کے طور پر نہیں کر رہی۔۔۔ انھوں نے مقبولیت سے زیادہ قبولیت کو اہمیت دی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.