انقلاب کے گیت گاتی سوڈانی خاتون جرات کا استعارہ بن گئی

image
خرطوم: مشرقی افریقی ملک سوڈان میں کئی ماہ سے جاری مظاہروں کے دوران ایک خاتون اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئیں جب انہوں نے انقلاب کے نعرے بلند کیے اور بدعنوانی اور مہنگائی کا شکار عوام نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔

سماجی رابطوں کی مختلف ویب سائٹس پر وائرل ہونے والی ویڈیو سفید لباس میں ملبوس ایک مقامی خاتون کی ہے جس میں وہ ایک کار کی چھت پر چڑھ کر ’تواراہ‘ یعنی انقلاب کے نعرے لگا رہی ہیں اور لوگوں کا ہجوم ان کی آواز سے آواز ملا رہا ہے۔

عرب میڈیا کے مطابق مذکورہ خاتون کا نام الا صلاح ہے جنہیں اب سوڈان میں انقلاب کی علامت سمجھا جارہا ہے۔

سوڈان میں دسمبر 2018 سے صدر عمر البشیر کے خلاف پرتشدد مظاہرے جاری ہیں جو گزشتہ 30 سال سے اقتدار پر قابض ہیں۔ مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب دسمبر میں حکومت نے بچت مہم کے دوران اشیائے خور و نوش پر سبسڈی کے خاتمے کا اعلان کیا اور ملک میں مہنگائی کا طوفان آگیا۔

روٹی کی قیمت میں تین گنا اضافہ ہوگیا جبکہ تیل کی قیمتیں بھی آسمان پر جا پہنچیں۔

گزشتہ ایک دہائی سے سوڈان کی معیشت ویسے بھی مشکلات کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق سوڈان کی 13 فیصد آبادی کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اب اس معاشی بدحالی کی وجہ سے سوڈان کی عوام سڑکوں پر ہے، برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے نعروں میں ایک نعرہ ’آزادی، امن اور انصاف‘، اور دوسرا نعرہ ’ ایک فوج اور ایک قوم‘ مقبول ہورہے ہیں۔

اس موقع پر فوج نے صدر کا ساتھ دیا اور دارالحکومت میں کرفیو نافذ کردیا تاہم مظاہرین نے فوج کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کرفیو کا نفاذ غیر قانونی ہے۔

مظاہروں میں خواتین کی بھی بڑی تعداد شریک ہے جو صدر عمر البشیر کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر لوگوں نے الا صلاح کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ صلاح نہ صرف سوڈان کے لیے ایک امید کی علامت بن کر ابھری ہیں بلکہ وہ سوڈانی خواتین کی نمائندہ ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے، ’صلاح کی آواز ہر سوڈانی خاتون کی آواز ہے‘۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سوڈان میں جاری مظاہروں میں اب تک 51 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دارالحکومت میں ایوان صدر کے قریب مظاہرین نے سنگ باری بھی کی جس کے بعد فورسز اور مظاہرین کے درمیان خونریز جھڑپیں جاری ہیں۔

News source : ARY NEWS

You May Also Like :
مزید