اتنی سج دھج کے یہ بارات ہماری نکلے
جیسے چاہت کی کوئی راج کماری نکلے
ہم نے جاں اپنی ہتھیلی پہ یہاں پیش بھی کی
لیک وہ لوگ تو الفت کے شکاری نکلے
میں تو سمجھی تھی کوئی اور ہے اپنا دشمن
"میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے"
اپنے اشکوں کی یہ سوغات نہ بھیجو مجھ کو
کوئی قربت تو مرے ساتھ تمہاری نکلے
ایک تارے سے اجالا تو نہیں ہو سکتا
چاند کے ساتھ اگر فوج نہ ساری نکلے
کل بھی مشکل تھی مری جان تری دیدہ وری
آج بھی آنکھ سے بس اشک ہی جاری نکلے
میری بے چین نگاہوں کے تھے آنسو وشمہ
چند قطرے جو سمندر پہ ہیں بھاری نکلے