لگتا نہیں کہ آئے گا روزِ جزا ابھی
مایوس آدمی سے نہیں ہے خدا ابھی
کچھ لوگ آج بھی ہیں شرافت کے پاس دار
اس دہر سے اٹھی نہیں شرم و حیا ابھی
مانا کہ چار سو ہے جفاؤں کی اک فضا
آتی ہے اِن رُتوں میں بھی بوئے وفا ابھی
کیسے یقین آئے کہ وہ ہم میں اب نہیں
کچھ دیر تو لگے گی ہوا ہے جدا ابھی
اے زندگی سو بار جو چاہے تو مجھ سے جیت
ہے مجھ میں ہارنے کا بہت حوصلہ ابھی
لاتا میں ظرفِ لطف کو اوجِ جنون تک
لیکن یہ میرے شوق کی ہے ابتدا ابھی
بے وجہ اضطرابِ دل و جاں ہوا ہے کم
لگتا ہے دل سے دی ہے کسی نے دعا ابھی