بوجھل پلکیں، بیماروبیقرار نظریں
کشمکش میں مبتلا لاچار نظریں
گر چاہیں تو جھیل جائیں ہزار غم
نہیں تو برس پڑیں غدار نظریں
دُکھ ہونے لگتا ہے چہرے پر نمایاں
جب کبھی ہوتی ہیں آبدار نظریں
انجر پنجر کر ڈالا زمانے نے ڈھیلا
کہ دِکھنے لگی ہیں نخیف و نزار نظریں
ہوگیا دُشوار دنیا میں دو پل کا جینا
سب بیاں کرنے لگی رازدار نظریں
دُعائے خیر کرو پارسؔ کے حق میں
نقاہت میں ہیں مبتلا ممتازؔ نظریں