رُک گیا تو ٹوٹ جاؤ گا ابھی رات باقی ہے
ادھوری ہیں میری کہانی ابھی رات باقی ہے
تیری سسکیاں نہیں مجھ سے سُنی جاتی
رُک گیا اگر تو پِگل جاؤ گا ابھی رات باقی ہے
تیری خوشیوں کی خاطر تاریکیوں سے ہے دوستی
تو رُوئے گا سامنے نہیں سہ پاؤں گا رات باقی ہے
شبِ غَم ہے طاری مگر کون شریکِ سفر نفیس ؟
چلو کیا اب حوالے خُدا تجھے ابھی رات باقی ۔۔