کیا کہئیے جاتے جاتے وہ کیا کمال کر گیا
کہ لمحہ بھر فراق کو سالہا سال کر گیا
تنِ مشکل سہا نہ جائے اب برکھا کی رُت میں
کوئی ارمانوں سے میرے مجھے کنگال کر گیا
اُس روز دن چڑھتے ہی ڈھلنے لگتی ہوں
جس یوم میرے خلاف وہ مجال کر گیا
اِس سے پہلے کہ چھین لیتے اُسے اُس سے
جاں لینے کو آیا اور بے حال کر گیا
گُزر گیا آگے آگے میری صعوبتوں سے ناواقف
خوں ریز وہ ہر راہ کو میری پامال کر گیا
ہم نے پرچھائی دی کہیں کے جلتے تردد کو
اور وہ ہماری ہمسائیگی کو استقلال کر گیا