کبھی بے وفا حرف بن کے کتاب میں آ گیا
کبھی نظر اُٹھا کے دیکھا تو آفتاب میں آ گیا
دُور ہو کے بھی نہ چھوڑا اُس نے ستانا
کبھی خوشبو سی بن کے گلاب میں آ گیا
نیند کے آدھے نشے میں‘ میں نے جو لکھا
بھیس بدل کے رات خواب میں آ گیا
جو پی تو یوں لگا جیسے تیرے لمس کا
سارے کا سارا نشہ شراب میں آ گیا
بہت چُھپایا زمانے کی نظر سے اُسے
مگر وہ آنکھ میں آئے آب میں آ گیا
بہا لے گیا مجھے گہرے پانیوں میں
تیز رو طوفانوں میں‘صورتِ سیلاب میں آ گیا