کیا دیکھئے گزرے گی اب کے سال کی عید کیسی؟
گزرے گی تو سنگین‘پھر پُرانی کیا ‘پھر جدید کیسی؟
سوئی ہتھیلی ہی بھاری پڑی جب جاں مظلوم پہ
کیا سوچنا پھر آتی ہے راتوں کو نیند کیسی؟
نابینا ہی رہے سدا خوب سے خوب تر تلاشنے والے
ہوئی دُنیا اندھیری تو آفتاب کی اُجلی دید کیسی؟
ہم کو تو بکنا ہے ہر بار قسمت سے قسمت پہ
پھر مول کیا لگنا‘پھر قیمت کیا ‘ پھر رسید کیسی؟
ہے الم تو دے گا اُڑانیں جلد ہی اونچی
پھر آہ تو آہ ہے‘ پھر ہلکی کیا‘ پھر شدید کیسی؟
ہو سورج سر پہ تو روندتے ہیں پیروں تلے سایہ
تو بندہ بشر ! پھر سائے سے وفا کی اُمید کیسی؟