آج ذہن زیرِ شگاف ہے
دل بہت اُداس ہے
آج لب بھی خاموش ہیں
اور روح بے آواز ہے
ہیں رگوں میں درد رَواں دَواں
آنکھیں اشکبار ہیں
روبَرو ہے ذات میری
چند تلخ سوال ہیں
نہ روشنی دَر و بام میں
گُپت اندھیری رات ہے
بارشوں کا شور ہے
زندگی کی دوڑ ہے
تنہائیوں کے درمیاں
اِک یاد آباد ہے
آج دل بہت اُداس ہے
ہاں! دل بہت اُداس ہے