Add Poetry

برما اور روہنگیا

Poet: Muslim. By: Syed Mohammad Ubaid Ur Rehman, Karachi

تیرے ہاتھوں کے بنائے ہوئے انسانوں پر
رحم، مولی مرے، برما کے مسلمانوں پر

رحم فرما کہ ہیں معصوم نہیں جنگجو وہ
ضبطِ غم دیکھ! کہ ہوتے نہیں بے قابو وہ

رحم فرما نہ اُنہیں زندہ جلایا جائے
ہیں نہتّے وہ نہ حد درجہ ستایا جائے

رحم فرما کہ وہ پامال کیے جاتے ہیں
بے سہارا ہیں ترا نام لیے جاتے ہیں

رحم فرما کہ پریشان بھلا جائیں کہاں؟
تیرے آگے نہ تو پھر ہاتھ وہ پھیلائیں کہاں؟

رحم فرما کہ کوئی اُن کی مدد کو پہنچے
اُن کے دُکھ درد و غم و رنج کو اپنا سمجھے

رحم فرما کہ کوئی کاٹے رگِ صہیونی
قاسمِ وقت اُٹھا، بھیج کوئی ایُّوبی

رحم فرما کہ اُنہیں صبر دے تھوڑا مولی
بچّوں تک کو بھی درندوں نے نہ چھوڑا مولی

رحم فرما کہ تماشائی بنی ہے دنی
خونِ مسلم سے بنا جاتا ہے جیسے دری

رحم فرما کہ یہ شاعر کے خیالات نہیں!
سب حقیقت ہے غلط اِس میں کوئی بات نہیں!

رحم فرما مرے مولی، کہ مِرے بھائی ہیں وہ
تیرے محبوب کے، تیرے ہی شناسائی ہیں وہ

رحم فرما کہ وہ محفوظ گھروں کو لوٹیں
وحشی کُتّے نہ کہیں بوٹیاں اُن کی نوچیں

رحم فرما مرے اللہ رحیم و رحمن
اپنے بندوں پہ پھر اک بار ہو تیرا احسان

رحم فرما کہ اُنہیں جائے اماں مِل جائے
اپنی کھوئی ہوئی نادانوں کو ماں مِل جائے

رحم فرما کہ ہمیں بزدل و ناکارہ نہ رکھ
گُل ہتھیلی پہ سُلگتا ہُوا انگارہ نہ رکھ

رحم فرما کہ ترے نام پہ مرنے والے
آج کہلانے لگے دہر میں ڈرنے والے

رحم فرما کہ وہ مطلوبِ کرم ہیں تیرے
آج بھی ناز سے کہتے ہیں کہ ہم ہیں تیرے

رحم فرما کہ تھکا جاتا ہوں کہتے کہتے
کیسے برداشت کروں خون میں اپنا بہتے

مستحق قتل کا ہے میری نظر میں 'تھائی لینڈ'
تُو گنہگاروں کو کردے مرے مولی 'دی اینڈ'

بُھوکے پیاسوں کو وہ کُتّوں کے حوالے کر کے
چھوڑا پانی میں اُنہیں ڈوب کے مرنے کے لیے

جُرم کیا ہے وہ روہنگیا کے مسلمانوں ک
ناچ ننگا جو ہُوا جائے ہے شیطانوں ک

کتنے معصوم مرے مولی ہوئے قتل وہاں
منتظر ہوں میں کہ کب ہوگا بتا عدل وہاں

مجھ کو سونے نہیں دیتے ہیں وہاں کے منظر
کوئی طوفان سا اُٹھتا ہے دل و جاں اندر

بس یہ احساس رُلاتا ہے بہت دور ہوں میں
اُن کی امداد کروں کیسے کہ معذور ہوں میں

ہاں! مگر تُو تو بہت پاس ہے مولی اُن کے
دور کر سکتا ہے دُکھ درد اکیلا اُن کے

ہیں جو بیمار شفا اُن کو اے شافی دے دے
تجھ کو ناراض کیا ہے تو مُعافی دے دے

خون میں لُتھڑے ہوئے جسم پڑے ہیں ہر سُو
اور بے رحم تماشائی کھڑے ہیں ہر سُو

ظلم کو ظلم سرِ عام بتائے بھی نہیں
احتجاجاً کوئی آواز اُٹھائے بھی نہیں

ایک دوجے کے لیے جذبہء بیتاب اُٹھ
نسلِ نو میں سے کوئی رُستم و سہراب اُٹھ

ظلم کی اینٹ سے پھر اینٹ بجا کر رکھ دے
پھر زمیں اپنی ذرا دیر ہِلا کر رکھ دے

خالی دامن کو اُمیدوں کے سدا بھرتا ہے
اپنے منگتوں کو تُو مایوس نہیں کرتا ہے

شُکر، اک رحم کا دروازہ تو کھولا تُو نے
اُن کی امداد کو اک مرد کو بھیجا تُو نے

مردِ مومن ہے وہ تُرکی کی جسارت کو سلام
اُس کی جُرات کو، مُروّت کو، اُخُوّت کو سلام

بے کسوں کو یوں کلیجے سے لگایا اُس نے
یعنی دنیا کے ممالک کو بتایا اُس نے

کہ مسلمانوں کے غمخوار ابھی زندہ ہیں
ہاں! زمانے میں وفادار ابھی زندہ ہیں

Rate it:
Views: 370
05 Jun, 2015
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets