گر ہے نیت جو ملنے آنے کی
چھوڑ دے فکر پھر زمانے کی
میں کبھی روٹھ ہی نہیں سکتا
مجھکو کوشش نا کر منانے کی
جاگ اٹھے ہیں سوۓ ہوۓ زخم
کوئ کر اب انہیں سلانے کی
وہ کسی کا بھی ہو نہیں سکتا
جس کو عادت ہو دل چرانے کی
آج پھر یاد مجھکو آ گئ ہے
رسم مٹی کے گھر بنانے کی
شجر اُجڑے تھے منتظر جس کے
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
کاسہ باقرؔ نا مجھسے چھینوں تم
یہ ہی جاگیر ہے دیوانے کی