سامنے آ کر مجھے اور بے قرار نہ کر
ماضی کی یادوں کو اور تازہ نہ کر
کیوں خوش ہو مجھے جلتا دیکھ کر
میرے اِن زخموں کو اور تازہ نہ کر
رنج والم وابستہ ہیں ساتھ میرے
منہ پہ پھیکی مسکراہٹ لایا نہ کر
نشہ ہو جاتا ہے دیکھتے ہی تجھے
اور ہمیں مذید جام تو پلایا نہ کر
اب تو تمنا نہیں رہی دل میں میرے
اتنی پیاری یادیں دل میں بسایا نہ کر
مرنے کے بعد تیری رُوح کو چین نہ ہو گا
مسعود بار بار کَہنا ہے مجھ کو ستایا نہ کر