کون اب دیکھے فلک تیرا قمر آج کی رات
انکے رخ سے ہی نہیں ہٹتی نظر آج کی رات
آپ رہ رہ کے میری سمت نہ دیکھو ورنہ
سب کو ہو جاءیگی الفت کی خبر آج کی رات
بد گماں انکو کہیں کر نہ دیں احباب میرے
لگ رہا ہے مجھے اس بات کا ڈر آج کی رات
انکی رسوائی کا ہوتا نہ اگر خوف مجھے
میں حدَ عشق سے بھی جاتا گزر آج کی رات
خون ہو جاءیگی برسوں کے یقینَ دل کا
کرکے وعدہ نہ تو للہ مکر آج کی رات
سجدہ مقبول ہو یا ہو نہ غرض کیا اس سے
رکھ دیا یار کی دہلیز پہ سر آج کی رات
بعد مدت ملی تصدیق ہمیں تنہائی
ما سوا پیار کوئی بات نہ کر آج کی رات